امارتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ دورکی عظیم جہادی شخصیت، عالم دین، بے مثال مجاہد اور دو جہادوں کے انقلابی رہنما، امارتِ اسلامیہ دورِ حکومت میں وزیر سرحدات اور رہبری شوریٰ کے رکن جناب الحاج مولوی جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان جلال الدین حقانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی مناسبت سے اُن کے جہاد پرور خاندان، تمام مجاہدین، افغان عوام اور عالم اسلام کو تسلیت کے مراتب پیش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حقانی صاحب کے تمام اعمالِ حسنہ کو قبول فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کے جہاد، دعوت، علم اور اصلاح کی تمام تکالیف، مصائب اور ہجرتوں کو قبول فرمائیں۔ آمین یارب العالمین
مرحوم مولوی جلال الدین حقانی جو موجودہ دور کے عظیم اور مایہ ناز جہادیوں میں سے ایک تھے، 1939ء میں افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا کے زدران ضلع کے کاریزگئے گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتون قبیلے زدران سے تھا۔ انہوں نے دینی تعلیم دیوبند ثانی کہلائی جانے والی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ سے حاصل کی، اور بعد ازاں اسی مناسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ ’حقانی‘ کا لاحقہ لگاتے تھے۔ عام افغانیوں میں بالعموم اور پڑھے لکھے، خاص کر علمی اور دانشور طبقے میں بالخصوص تخلص کا استعمال عام ہے، اس لیے مولوی جلال الدین نے ایک اعلیٰ پائے کے عالم دین ہونے کے ناتے کوئی اور عمومی تخلص اختیار کرنے کے بجائے حقانی کے لاحقے ہی کو بطور تخلص استعمال کیا، جو بعد میں نہ صرف ان کے نام کا حصہ بن کر رہ گیا بلکہ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے افغان جہاد اور تحریکِ مزاحمت کے حوالے سے عالمی سطح پر جہاد کا ایک ٹریڈ مارک بن کر مغربی دنیا میں حقانی نیٹ ورک کے نام سے امریکی اور نیٹو افواج کے لیے ایک ڈرائونے خواب کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
مولوی جلال الدین حقانی کا نام 1970ء کے عشرے کے آخر اور 1980ء کے عشرے کے شروع میں اُس وقت ایک معروف جہادی راہنما کے طور پر سامنے آنا شروع ہوگیا تھا جب افغانستان پر کمیونسٹ الحاد غالب آچکا تھا اور یہاں مقامی کمیونسٹوں کے ساتھ ساتھ سوویت افواج افغانیوں کی ملّی غیرت اور دینی حمیت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی تھیں۔ یہ وہ تاریک دور تھا جب بخارا، سمرقند اور قفقاز کی طرح افغانستان کا اسلامی تشخص بھی لادینیت کے شدید خطرات سے دوچار تھا، ایسے میں حقانی صاحب اور اُس وقت کے دیگر باعزم مجاہدین کمیونزم اور دہریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے کمیونزم کے خلاف ملت میں بیداری و آگہی کی جدوجہد شروع کی، اور بعد میں حزبِ اسلامی یونس خالص گروپ کے ایک اہم کمانڈر کی حیثیت سے مسلح جہاد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے1970ء کے عشرے کے وسط میں خوست سے ملحقہ پاکستانی سرحدی علاقے ڈانڈے درپہ خیل میران شاہ میں اُس وقت ہجرت کرلی تھی جب ان پر سردار دائود حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام لگاکر ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے نہ صرف مقامی قبائل کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنا خاندان بسا لیا تھا، بلکہ ایک مدرسے کی بنیاد رکھ کر درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔ ان کی یہ رہائش گاہ اور مدرسہ اُس وقت تک وہاں قائم رہے جب تک امریکہ نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا۔ واضح رہے کہ بعد ازاں ایک امریکی ڈرون حملے میں ان کی اس رہائش گاہ اور مدرسے کو نشانہ بناکر ان کے ایک فرزند بدرالدین حقانی اور کئی دیگر اہلِ خانہ کو شہید کردیا گیا تھا۔
مولوی جلال الدین حقانی نے کمیونزم اور روسی جارحیت کے خلاف جہاد مکمل فتح تک بھرپور اخلاص کے ساتھ جاری رکھا۔ یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کے دورِ حکومت میں خوست وہ پہلا اہم شہر تھا جو کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر مولوی جلال الدین حقانی کے وفادار مجاہدین کے قبضے میں چلا گیا تھا، اور یہیں سے بعد میں ڈاکٹر نجیب کی کمیونسٹ حکومت کے زوال کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ کابل پر مجاہدین کے قبضے کے بعد انہوں نے باہمی جنگوں کے دوران ایک مصلح اور ثالث بالخیر داعی کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ چونکہ اپنے قبیلے کے علاوہ گرد و نواح کے علاقوں میں بھی اپنی علمیت اور قائدانہ وجاہت کی وجہ سے ایک خاص اور نمایاں مقام رکھتے تھے، اس لیے جب مختلف افغان جہادی تنظیموں کے درمیان باہمی خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مولوی جلال الدین حقانی نے ان خانہ جنگیوں کا حصہ بننے کے بجائے متحارب دھڑوں میں مصالحت کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جب ان کی یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں تو انہوں نے کچھ وقت کے لیے اپنی جہادی قوت خانہ جنگیوں کی نذر کرنے کے بجائے طاغوتی قوتوں کی ممکنہ سازشوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مجتمع کی۔ لہٰذا اس دوران جب طالبان کا ظہور ہوا اور وہ قندھار سے نکل کر تیزی سے کابل میں دست وگریباں حزبِ اسلامی، جمعیتِ اسلامی، شورائے نظار اور حزبِ وحدت کا زور توڑنے کے لیے حملہ آور ہوئے تو انہوں نے اسلامی نظام کے پیاسے کے طور پر نہ صرف طالبان کے وجود کو غیر مشروط طور پر قبول کیا بلکہ بھرپور اخلاص اور قوت کے ساتھ تحریک طالبان اور ملاّ محمد عمر مجاہد کے ساتھ مل کر اسلامی نظام کے استحکام کی راہ میں قابلِ قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔ مولوی جلال الدین حقانی کے زیرکنٹرول علاقوں میں طالبان کو کابل پر چڑھائی کے وقت کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیںکرنا پڑا بلکہ انہوں نے کابل کی فتح میں طالبان کا ہر ممکن ساتھ دیا۔ وہ شاید واحد نامی گرامی سابق جہادی لیڈر تھے جنہیں طالبان نے آخر وقت تک نہ صرف عزت وتوقیر دی بلکہ ملاّ محمد عمر مجاہد کی سربراہی میں بننے والی امارتِ الاسلامی افغانستان کی اسلامی حکومت میں سرحدات اور قبائلی امور کی وزارت سے بھی نوازا گیا، جس پر وہ 2001ء میں طالبان حکومت کے زوال تک فائز رہے۔
امریکی جارحیت کے خلاف مولوی جلال الدین حقانی کا کردار، کارنامے اور اسلامی امارت کو متحد رکھنے میں موصوف کی قابلِ ستائش جدوجہد تاریخ کا وہ سنہری باب ہے جس پر امارتِ اسلامیہ کی آئندہ نسلیں ہمیشہ فخر کرتی رہیں گی۔
مولوی جلال الدین حقانی اور ان کا خاندان 2012ء میں اُس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنے جب امریکہ اور اقوام متحدہ نے ان کے نام سے منسوب حقانی نیٹ ورک کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس جہادی تنظیم کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرکے اُن کے اور اُن کے بیٹے سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت مقرر کردی تھی۔ مولوی جلال الدین حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت عرصے سے صاحبِ فراش تھے اور اصل میں حقانی نیٹ ورک کے حقیقی کرتا دھرتا سراج الدین حقانی ہیں جن کی دھاک امریکہ سمیت نیٹو فورسز پر اس بری طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ امریکہ پاکستان پر مسلسل نہ صرف حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام لگاتا رہا ہے بلکہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا سختی سے مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔
مولوی جلال الدین حقانی نے اپنی مجاہدانہ زندگی میں ایمان اور دین کے ساتھ وفاداری کا جو عہد کیا تھا، وہ موت تک اس پر ثابت قدم رہے۔ وہ یقینا خوش قسمت تھے، جنہوں نے ایک کٹھن امتحانی مرحلے میں دین اور اسلامی اقدار کا دفاع کیا اور دینی شعائر کو زندہ رکھنے میں عظیم کردار ادا کیا۔ مولوی جلال الدین حقانی اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، مگر ان کی فکر اور نظریہ ہمیشہ نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ یہ حریتِ فکر کے پیکر افغان نوجوانوں میں بالخصوص اور دنیا کے مختلف خطوں میں دینِ اسلام کی بالادستی کے لیے طاغوتی قوتوں کے خلاف برسرپیکار مجاہدین ملت کے لیے بالعموم ایک تازہ ولولے اور جوش وجذبے کا سامان بھی فراہم کرتا رہے گا۔
طالبان ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مولوی جلال الدین حقانی کئی برسوں سے شدید علیل اور بسترنشین تھے۔ انہوں نے جس طرح جوانی اور تندرستی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے تکالیف برداشت کیں، عمر کے آخری حصے میں بھی انہوں نے بیماری کو پورے صبر اور رضا بالقضاء کے حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔ حتیٰ کہ آخرکار داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے تعزیتی بیان میں کہا گیا ہے کہ مولوی جلال الدین حقانی نے اپنے کردار کے ذریعے افغان عوام اور امتِ مسلمہ کے ساتھ عظیم احسان کیا تھا، انہوں نے الحاد اور گمراہی کی روک تھام کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی، لہٰذا ان کا حق بنتا ہے کہ مجاہدینِ اسلام اور مسلمانانِ عالم کی جانب سے ان کی روح کو ایصالِ ثواب کے لیے خصوصی دعائیں اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔آمین