پاک بھارت تعلقات،نیا امکانی منظرنامہ

اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری تو ایک طرف، ان تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات، مکالمہ اور بات چیت کے دروازے بھی عملی طور پر بند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی بحالی کوئی آسان معاملہ نہیں، اوردونوں ملکوں کے حالات میں بہت زیادہ پیچیدگی پائی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کو مل کر ہی امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ بھارت سے تعلقات کی بہتری یا بات چیت کے عمل کو شروع کرنے میں رکاوٹ پاکستان نہیں بلکہ خود بھارت کی موجودہ قیادت ہے۔کیونکہ اس وقت مودی سرکار کا ہندوتوا پر مبنی جو ایجنڈا ہے وہی تعلقات کی بحالی میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کئی موقعوں پر بات چیت کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، مگر بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہ مل سکا۔ خود سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھارت سے تعلقات کی بہتری کے لیے خود ایک قدم آگے بڑھ کر اقدامات کیے جن میں وزیراعظم مودی کی تقریبِ حلف وفاداری میں شرکت بھی شامل تھی، مگر بھارت نے نواز حکومت کو بھی کوئی مثبت جواب نہ دیا، بلکہ ہر وقت اس کی جانب سے تعطل برقرار رکھا گیا، اور الزام تراشی کی سیاست سے ماحول کو خراب کرنے میں بھار ت نے اپنا کردار ادا کیا، جس کا نتیجہ مسلسل تعطل کی صور ت میں دونوں ملکوں کے سامنے ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جامع مذاکرات کی حامی ہے، جبکہ بھارت کا ایجنڈا محض تجارت کی بحالی ہے۔ پاکستان ان مذاکرات میں پانی، سیاچن، دہشت گردی، تجارت سمیت کشمیر کے مسئلے کو بھی اہمیت دیتا ہے، جبکہ بھارت مذاکرات کو محض سیاسی تنہائی میں دیکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، جو خود پاکستان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے تو اس کا فائدہ ان ہی قوتوں کو ہوگا جو دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی حامی نہیں۔ پاکستان میں جو لوگ بھارت سے دوستی کے حامی ہیں اُن کو بھی یہی پیغام جاتا ہے کہ بھارت کا سخت گیر رویہ ہی تعلقات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے آنے کے بعد پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی بحث ایک بار پھر دونوں ملکوں کے میڈیا اور سیاسی فریقین میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے قبل جیت کے فوری بعد جو تقریر کی اُس میں بھارت کو واضح پیغام دیا کہ بھارت تعلقات کی بہتری کے تناظر میں ایک قدم آگے بڑھائے، ہم ان شاء اللہ دو قدم آگے بڑھ کر مثبت جواب دیں گے۔ عمران خان کی اس پیش کش کا ایک مثبت ردعمل ہمیں بھارت میں دیکھنے کو ملا جہاں امن کے بہت سے سفیروں نے عمران خان کی بات کو سراہا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور عمران خان کی ٹیلی فون پر گفتگو، بھارت کی طرف سے عمران خان کو مبارک باد، اور دونوں ملکوں سمیت جنوبی ایشیا میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کے عزم کو بھی اچھی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح بھارت کے ہائی کمشنر کی بنی گالہ آمد اور عمران خان کو مبارک باد سمیت بھارتی کرکٹرز کی جانب سے بلے کا تحفہ بھی اچھی پیش رفت تھی۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کی جانب سے بھی بھارتی کرکٹر سدھو کی بڑی پذیرائی کی گئی اوراس کا اظہار خود سدھو نے بھی کیا ہے۔ سدھو کے ساتھ بہتر سلوک بھارت کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیغام تھا کہ ہمیں دوستی کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے اور اس راہ میں موجود تمام رکاوٹوں کو باہمی تعاون سے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عمران خان نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے وزیراعظم بننے کی تقریب میں اپنے تین بھارتی کرکٹر دوستوں سنیل گواسکر، کپل دیو اور نوجوت سنگھ سدھو کو دعوت دی۔ صرف سدھو بڑی بہادری سے تشریف لائے اور اُن کا جس پُرتپاک انداز میں استقبال کیا گیا وہ خود سدھو کے بقول ناقابلِ یقین تھا۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت دونوں نے سدھو کو پاکستان آمد پر امن کے سفیر کا درجہ دیا۔ لیکن لگتا ہے کہ بھارت کے جنونی ہندوئوں اور میڈیا میں موجود پاکستان دشمنی کے ایجنڈے میں مبتلا بہت سے لوگوں کے لیے سدھو کا پاکستان آنا اور بالخصوص آرمی چیف سے گلے ملنا خاصا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ سدھو کو اس وقت بھارت میں جنونی ہندوئوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں بہت حد تک تنگ نظری کا عنصر موجود ہے جو پاکستان سے تعلقا ت میں بہتری پیدا کرنے کے بجائے ماحول کو خراب کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو اپنی جیت کے بعد ایک واضح پیغام دیا ہے کہ دونوں ملکوں کو جنوبی ایشیا کے استحکام کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی سیاست کو تنازعات سے جان چھڑانی چاہیے۔ لیکن ایک بات عمران خان بطور وزیراعظم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کا بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اب تو متنازع کشمیر میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی بھارت کو واضح پیغام دے چکی ہیں کہ ان حالات میں اگر بھارت نے کشمیر کا کوئی ایسا حل نہ ڈھونڈا جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو، تو بھارت کو آگے جاکر اور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے بھارت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری میں آگے بڑھنے کے لیے اس کو کشمیر کا مسئلہ بنیادی طور پر حل کرنا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو ایک کور مسئلہ سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔
لیکن اب بھارت پاکستان تعلقات کے درمیان محض مسئلہ کشمیر ہی بڑی رکاوٹ نہیں بلکہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا کنٹرول اور پاکستان میں جاری مداخلت میں بھارت افغان گٹھ جوڑ بھی خود ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس لیے اب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے خود افغانستان کے مسئلے کا حل بھی شامل ہے جو پاکستان میں جاری افغان مداخلت کو بھی روک سکے اور کابل میں ایک ایسی حکومت ہو جو بھارت اورپاکستان دونوں کے مخالف ایجنڈے کا حصہ نہ ہو۔ اس لیے بھارت کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور عمران خان کے آنے کے بعد تعلقات کی بہتری کے تناظر میں جو نئے آپشن اورامکانات ابھرے ہیں ان سے وہ فائدہ اٹھائے، بالخصوص وزیراعظم کی اس پیش کش سے کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھے تو ہم دو قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری یا مذاکرات کی بحالی اسی صورت میں ممکن ہوگی جب بھارت اس اہم نکتہ سے دست بردار ہو کہ مذاکرات پاکستان کی مجبوری ہے اور اگر ہم مذاکرات نہیں کرتے تو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اگر بھارت اور پاکستان کی حکومتیں اس نئے امکانی منظرنامے سے جو دونوں ملکوں میں کچھ مثبت اشارے دے رہا ہے، فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ بدقسمتی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ یو این اجلاس میں شرکت کے لیے جارہے ہیں جہاں ان کی دیگر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم مودی سے بھی غیر رسمی ملاقات ممکن ہے۔ عمران خان کو وہاں کشمیر کے مسئلے پر بھی بات چیت کرنی ہے۔ اچھا ہو کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ایک قدم آگے بڑھ کر ماضی کی تلخیوں کو نظرانداز کرکے بات چیت کے بند دروازوں کو کھولیں۔