افغانستان “کولمبین امن ماڈل” کی بازگشت

جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کی بندش

افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے افغان حکومت پر پڑنے والا دبائو اعلیٰ سطح پر پیدا ہونے والے اختلافات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا ہے، جس کا تازہ ثبوت قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر کے علاوہ وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی، وزیر داخلہ ویس احمد برمک اور افغان انٹیلی جنس چیف معصوم ستانکزئی کی جانب سے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کا استعفیٰ تو قبول کرلیا ہے لیکن انھوں نے وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور انٹیلی جنس چیف کو اپنے استعفے واپس لیتے ہوئے کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ حنیف اتمر کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ قومی سلامتی کے معاملے پر افغان نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات ہیں۔ دراصل افغان حکومت میں ملکی سلامتی سے متعلق اختلافات پچھلے دنوں اُس وقت کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے جب طالبان نے ایک اہم جنوب مشرقی صوبائی دارالحکومت غزنی پر قبضہ کرلیا تھا۔ مستعفی ہونے والے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے بارے میں یہ اطلاعات رپورٹ ہوچکی ہیں کہ وہ امریکی خواہش کے برعکس نہ صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں اس ضمن میں روس اور چین کے کردار کا حمایتی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے موقع پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے جب روس 4 ستمبر کو افغانستان میں قیام امن سے متعلق بین الاقوامی امن کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف تھا، جسے اب افغان صدر کی درخواست پر ملتوی کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب حنیف اتمر کے بعض قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اگلے سال منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے، جس کی اب تک نہ تو سرکاری سطح پر کوئی وضاحت کی گئی ہے اور نہ ہی خود حنیف اتمر یا اُن کے کسی ترجمان کی جانب سے ایسی کوئی بات سامنے آئی ہے۔
یہاں حنیف اتمر کے بارے میں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ وہ حامد کرزئی کے دوسرے دورِ حکومت میں وزیر داخلہ تھے، اور انہیں 2010ء میں کابل پر طالبان کے ایک بڑے حملے کو روکنے میں ناکامی پر اپنے اس عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔
حنیف اتمر کی جگہ مشیر قومی سلامتی مقرر کیے جانے والے حمداﷲ محب اس نئی ذمے داری سے قبل امریکہ میں بطور افغان سفیر فرائض انجام دے رہے تھے۔ حمداﷲ محب کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان جنگجوئوں کے ساتھ کولمبیا امن عمل طرز پر مذاکرات اور مفاہمت کے متمنی ہیں۔ یاد رہے کہ وہ حال ہی میں امریکی حکومت کی خواہش پر نہ صرف کولمبیا کا تین روزہ سرکاری دورہ کرچکے ہیں بلکہ انھوں نے بگوٹا میں کولمبیا کی وزارتِ دفاع، داخلہ، خارجہ، ہائی پیس کمیشن، خانہ جنگی سے متاثرہ خاندانوں اور کولمبیا میں تعینات امریکی سفیر سے تفصیلی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد کولمبین امن ماڈل کا جائزہ لے کر اسے افغانستان میں نافذ کرنے کے لیے ضروری عملی تجاویز اکٹھا کرنا تھا۔ واضح رہے کہ 2016ء میں اختتام پذیر ہونے والے کولمبین امن عمل کا آغاز ستمبر 2012ء میں ہوا تھا، اور یہ عمل چار سال تک جاری رہنے کے بعد کولمبیا کی 52 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے پر منتج ہوا تھا جس میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک، جبکہ 60 لاکھ کے قریب اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ حمداﷲ محب کا خیال ہے کہ وہ امریکی سرپرستی میں کولمبین ماڈل آزماکر چالیس سالہ افغان خانہ جنگی کا حل پرامن مذاکرات کے ذریعے نکالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے اس ماڈل کا عملی مشاہدہ کرنے کے لیے حال ہی میں کولمبیا کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دورے اور حاصل ہونے والے نتائج سے بہت مطمئن ہیں، لہٰذا توقع ہے کہ اگر وہ کولمبین امن ماڈل کو اس کی روح کے مطابق افغانستان کے حالات پر منطبق کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا نتیجہ یقینا افغان خانہ جنگی کے خاتمے اور ایک پُرامن و مستحکم افغانستان کی صورت میں برآمد ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔
دریں اثناء افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق جنرل اسکاٹ ملر نے افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکہ اور نیٹو فورسز کی نئی کمان سنبھال لی ہے۔ افغانستان میں 2013ء سے خصوصی یونٹس کی کمانڈ کرنے والے جنرل اسکاٹ ملر نے جنرل جان نکلسن کی جگہ لی ہے جو گزشتہ دو برس سے زائد عرصے سے امریکی فورسز کے کمانڈر تھے۔ افغانستان میں غیر ملکی فورسز کی کمان کی تبدیلی 17 سالہ جنگی دور کے حساس موقع پر ہوئی ہے جب افغان طالبان کی جانب سے حملوں میں شدت آئی ہے، جبکہ کئی علاقوں میں امریکہ اور افغان فورسز کی جانب سے بہتری بھی دکھائی گئی ہے۔ امریکی اتحادیوں کی جانب سے 2001ء میں افغانستان کی حکمرانی سے بے دخل کرنے کے 17 برس بعد اتحادی ایک مرتبہ پھر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ جنرل اسکاٹ ملر نے کابل میں کمان کی تبدیلی کے دوران، جہاں اعلیٰ افغان عہدیداروں کے علاوہ غیر ملکی سفارت کاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، اعتراف کیا ہے کہ یہ ایک مشکل جنگ ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم آرام طلبی کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہمیں ہر طرف سے باخبر ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ ملر نے گزشتہ دو برس کے دوران جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ (جے ایس او سی) کی سربراہی کی ہے اور ان کا شمار امریکہ کے چند اعلیٰ ترین فائٹرز کمانڈرز میں ہوتا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے شہر جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ حملہ ننگرہار کے گورنر حیات اللہ حیات کی ایما پر ہوا تھا۔ یاد رہے کہ چند دن قبل حکومتِ پاکستان نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں سیکورٹی خدشات کے باعث اپنا قونصل خانہ بند کرتے ہوئے کہا تھا کہ مکمل سیکورٹی ملنے تک سفارت خانہ نہیں کھولا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قونصل خانہ بند کرنے کی یہ وجہ سامنے آئی ہے کہ ننگرہار کے گورنر حیات اللہ حیات نے 29 اگست کو قونصل خانے پر دھاوا بولا تھا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق گورنر ننگرہار کے ہمراہ پولیس چیف اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔ افغان حکام نے قونصل خانے کے بیرونی حصے کو دو جگہ سے نقصان پہنچایا۔ حیات اللہ حیات نے سفارت خانے کے دونوں مقامات پر لگے خاردار تار کاٹے اور سفارتی عملے کی رہائش گاہ سے دفتر تک بنائے گئے محفوظ راستے کو بھی بند کردیا تھا۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے متعدد بار افغان وزارتِ خارجہ کو گورنر ننگرہار کی اس سنگین حرکت سے آگاہ کیا، تاہم افغان حکام نے نہ تو اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی کی، اور نہ ہی اب تک گورنر ننگرہار کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آئی ہے، جس پر پاکستان نے اپنی سفارتی حدود پر دھاوا بولنے اور کام میں مداخلت پر احتجاجاً قونصل خانہ بند کردیا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سیکورٹی صورت حال تسلی بخش ہونے اور 28 اگست کی سابقہ صورت حال پر بحالی تک جلال آباد کا قونصل خانہ بند رہے گا۔ اسی اثناء جلال آباد قونصل خانے کی بندش پر افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے گزشتہ روز ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جہاں جلال آباد واقعے پر معذرت کی ہے، وہیں قونصل خانہ دوبارہ کھولنے کی درخواست اور وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد کے ساتھ ساتھ انہیں دورۂ کابل کی دعوت بھی دی ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) کی جانب سے افغانستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں پاکستانی کرنسی اور مصنوعات استعمال کرنے والے افراد اور تاجروں کے خلاف پچھلے کئی دنوں سے خصوصی کریک ڈائون کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن سے افغانستان میں حکومتی سطح پر پاکستان کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور انتقامی سوچ کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے، لہٰذا اس صورتِ حال میں دونوں ممالک میں پائی جانے والی بداعتمادی کی فضا اور اس کے اسباب کو سمجھنا چنداں کوئی مشکل امر نہیں ہے۔