غزل

ہر ایک دل کے لیے ریگزار ہے دنیا
عزیز راہ نہیں ہے غبار ہے دنیا
دکھا چکا ہے مجھے میرے دل کا آئینہ
نگارِ مرگ کا سولہ سنگھار ہے دنیا
محاصرہ ہے اَنا کا، ہوس کا، پستی کا
نہ جانے کس نے کہا ہے حصار ہے دنیا
نگاہ ہو تو خزاں ہی خزاں ہے چاروں طرف
نظر نہ ہو تو چمن ہے بہار ہے دنیا
کسے خبر ہے یہاں زندگی کے دھوکے میں
ہر اک بشر کو اجل کی پکار ہے دنیا
ہر اک مقام سے اس کا جدا تعلق ہے
بدن پہ پھول ہے اور دل میں خار ہے دنیا
کھڑی ہوئی ہے مصلّے پہ با وضو ہو کر
برے ہوں دن تو عبادت گزار ہے دنیا
جہاں بھی دیکھا ہے سیّد بنا ہوا دیکھا
اگرچہ ذات سے اپنی چمار ہے دنیا
ترے وطن کا فسانہ ہے کیا، سنا مجھ کو
مرے وطن میں سمندر کے پار ہے دنیا
کسی کسی کو تو مرّیخ پر نظر آئی
زمیں سے تا بہ فلک استوار ہے دنیا
کہیں کہیں پہ تو امّید ہے فقط امّید
اس حال میں بھی دلوں کا قرار ہے دنیا
وہ لوگ جن کو بھروسہ نہیں خدا پر بھی
خود اُن کے واسطے اک اعتبار ہے دنیا
چھپی ہوئی ہے کئی عشق کے فسانوں میں
تری نگاہ میں گو کاروبار ہے دنیا
کہیں ہنسی، کہیں دیوانگی، کہیں آنسو
بڑے کمال کی منظر نگار ہے دنیا
خبر ملی ہے مدرسوں سے خانقاہوں سے
رواروی میں سہی بردبار ہے دنیا
کوئی کمی نہ ہوئی اس کے حُسن و خوبی میں
کئی برس سے اگرچہ ادھار ہے دنیا
کسی یسٹری کسی مجنون نے کہا ہو گا
تھکا دیا ہے مجھے، مجھ پہ بار ہے دنیا
دعا کے بعد، دعا میں، دعا سے پہلے بھی
بس ایک بار نہیں بار بار ہے دنیا
چلا گیا میں سرِ شام کچھ مزاروں پر
پتا چلا کہ بہت سوگوار ہے دنیا
طوافِ کوچۂ مغرب سے کچھ نہیں ہوتا
کہ اپنی روح کے اندر گنوار ہے دنیا
مرے عزیز کلفٹن ہو یا لیاری ہو
ہر اک مقام پہ انساں کی ہار ہے دنیا
کہیں کہیں پہ ہے سیف و قلم کا افسانہ
کہیں کہیں پہ بڑی با وقار ہے دنیا
کبھی بھی روح کو سیراب کر نہیں سکتی
او کم نگاہ طوائف کا پیار ہے دنیا
دکھائی دی ہے کئی صوفیوں کے حلقوں میں
کہیں کہیں پہ بہت دین دار ہے دنیا
یہ حاضری تو نہیں یسیر ہے مدینے کی
تضادِ فکر و عمل کا شکار ہے دنیا
لکھا ہوا ہے یہ شاعر تھے اور عالم بھی
غضب خدا کا کہ لوحِ مزار ہے دنیا
یہ اور بات کوئی مانتا نہیں لیکن
کسی کسی کی تو پروردگار ہے دنیا