قرآن کریم نے توحید کو انبیائے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہر اُمت کو دعوت دیتے وقت انبیائے کرام ؑ نے صرف یہی کہا:۔
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)،۔
یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔
توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کررہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کررہا ہوتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیر بندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، اور ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔
مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمتِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔
قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین میں سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے:۔
۔(ترجمہ)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو، اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔البقرہ ۲:۲۱۵)۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادائیگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: ۔
۔(ترجمہ)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘(البلد۹۰:۱۲۔۱۶)۔
یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
۔(ترجمہ) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(الحج ۲۲:۷۷)۔
سورۂ ماعون میں مزید فرمایا گیا:
۔(ترجمہ)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔ (الماعون۱۰۷:۱۔۳)۔
اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادائیگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔
حقوقِ انسانی کی ادائیگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامتِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
۔’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تُو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تُو سارے جہانوں کا پروردگار، تُو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تُو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تُو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تُو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تُو نے اُسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُو نے اُس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔
اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تُو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تُو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تُو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)۔
حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اِس کا راستہ اُس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔
اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کردیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیا طلبی، منافع خوری اور دولت کے جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔
دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیسا کہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے۔
اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہ اللہ کی گرفت سب سے شدید گرفت ہے، اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اِس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔
قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندۂ مومن اور خصوصاً اُن افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔
اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولاد کی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا:۔
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسائے سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور اُن خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں، پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنادیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔
معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ
’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)۔
اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ
’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)۔
اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا:۔
’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)۔
یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ اللہ کے اُن بندوں پر جو اجنبی اور غیر معروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔ احادیث ِ صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔
صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا:۔
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’۔
اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔۔
صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجائے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا۔ اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔ یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمائش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحبِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔
احادیثِ شریفہ میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت ِاعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)
موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔
ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحبِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے، معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)۔
حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں گے، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)۔
جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے! تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستائش، نہ تمغا، نہ سرٹیفکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد۔۔۔ بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔
ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوں گے، لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفید پوش، خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُن کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کررہے ہوں، بلکہ اُن کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)۔
خدمتِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بنا پر حد و شمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔
حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)۔
عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے، ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔
معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور ایک صاحبِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔