جمعیت الفلاح میں آزادی مشاعرہ

معروف شعرائے کرام کی شرکت

جمعیت الفلاح شہر کا معروف علمی، ادبی، سماجی ادارہ ہے جہاں وقتاً فوقتاً اہم ایام کی مناسبت سے تقریبات کا سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے۔ یومِ آزادی کی مناسبت سے ہر سال منعقد ہونے والا ’’آزادی مشاعرہ‘‘ ادبی حلقوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، جس میں تمام مکاتیبِ فکر کے شعرائے کرام شریک ہوتے ہیں۔ جمعیت الفلاح کے سابق صدر مرحوم مظفر احمد ہاشمی اس کی تیاری میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ وہ فرداً فرداً خود شعرائے کرام سے رابطہ کرتے، اُن کے لیے تحائف کا اہتمام فرماتے اور راقم الحروف جیسے مضافاتی بستیوں سے تشریف لانے والے شعرائے کرام کو اپنی جانب سے زادِراہ بھی عنایت فرماتے۔
جمعیت کے موجودہ سیکریٹری قمر محمد خان نے بھی اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے عمدہ اہتمام کیا۔
مشاعرے کی صدارت ممتاز نعت گو شاعر حضرتِ اعجاز رحمانی نے فرمائی، جبکہ مہمانانِ خصوصی میں معروف ماہرِ تعلیم پروفیسر عنایت علی خان، معروف ادیب، شاعر، صحافی محمود شام، معروف نقاد، شاعر سرور جاوید، ڈاکٹر جاوید منظر اور معروف صحافی، شاعر علاء الدین خانزادہ تھے۔ مشاعرے میں شریک واحد خاتون شاعرہ قمر جہاں قمرؔ حیدرآباد سے تشریف لائیں۔ صحافتی امور کی مصروفیت کے باوجود مدیر جسارت اطہر ہاشمی نے بھی شرکت کی۔ جبکہ میرے دیرینہ کرم فرما رکن جماعت ارشد علی خان، انعام اللہ و اراکینِ جسارت بھی شریک ہوئے۔ قمر محمد خان نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا، جبکہ تمام شرکاء کے لیے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کی خوبصورت نظامت کرتے ہوئے نظرؔ فاطمی نے مشاعرے کی ابتدا کے لیے تحریکی ساتھی اقبال یوسف کو تلاوتِ کلام پاک کی دعوت دی۔ آپ نے سورۃ کوثر کی تلاوت، ترجمے کے ساتھ ماہِ ذی الحجہ کے فضائل بھی بیان کیے۔ نعتِ مبارکہ کی سعادت محمد اکرم رازی نے حاصل کی۔

اسمِ اعظم ہے یہی تو دوستو
پڑھ رہا ہے خود خدا صلِ علیٰ
اور کیا ہے منزلِ کون و مکاں
جلوۂ گاہے مصطفیٰؐ صلِ علیٰ
نظرؔ فاطمی کی دعا
میرے لبوں پہ رہے یہ دعا ہر دم
میرے وطن کو سلامت رکھے خدا ہر دم
قمر جہاں قمرؔ
خدا کی رسی کو تھامو تفرقے بند کرو
اٹھو کہ صبحِ بہاراں کی آمد آمد ہے
غازی بھوپالی
اے مرے نورِ نظر جانِ پدر لختِ جگر
تجھ سے وابستہ مری قوم کا مستقبل ہے
ساری دنیا پہ تری دھاک تُو ایسا نڈر
تیرے قدموں میں ہو ہر فرعون کا سر
نعیم الدین نعیمؔ
ہے دعا تُو سدا مسکرائے وطن
تری حرمت پہ نہ آنچ آئے وطن
جب بھی تجھ کو ہماری ضرورت پڑی
جان دے کہ کریں گے دفاعِ وطن
عطا محمد تبسمؔ
تبدیلیِ بہار نے سب کچھ اُلٹ دیا
منظر اُلٹ دیا پسِ منظر اُلٹ دیا
مخلوق تھی خلائی خلا ہی میں رہ گئی
بوٹوں نے ایک شیر کا حلیہ اُلٹ دیا
الحاج نجمیؔ
قائد اعظم آئو دیکھو اپنے پاکستان کو
روتا دھوتا چھوڑ گئے تھے ننھی سی اک جان کو
اپنی ہمت اور محنت سے ہم نے اسے پروان کیا
قائد اعظم آئو دیکھو اپنے پاکستان کو
عتیق الرحمن عتیقؔ
وطن کی عظمت ہے ہم سے پوچھو
کہ ہم وطن سے وطن ہے ہم سے
عبدالمجید محور
یوں تو کہنے کو شبِ غم کی سحر ہوتی ہے
زندگی پھر بھی اندھیروں میں بسر ہوتی ہے
اس سے چلتا ہے پتا راہ کی دشواری کا
جتنی چہرے پہ جمی گردِ سفر ہوتی ہے
ڈاکٹر نثار احمد نثارؔ
اَن گنت قربانیوں کا نام پاکستان ہے
یہ وطن رب نے دیا ہے رب کا یہ احسان ہے
اخترؔ سعیدی
خلوتوں میں بھی آبدیدہ ہے
آدمی کتنا غم رسیدہ ہے
روشنی کس سے مانگنے جائوں
شہر کا شہر شب گزیدہ ہے
علاء الدین ہمدمؔ خانزادہ
ہوسکے جو یاد وہ قومی ترانہ چاہیے
اس طرح سے جشنِ آزادی منانا چاہیے
ڈاکٹر جاوید منظر نے نظم ’’آزادی کا پہلا دن‘‘ سنائی۔
سرور جاوید
کوئی بھی زخمِ شناسائی بھرنے والا نہیں
میں راہِ عشق میں لیکن بکھرنے والا نہیں
محمود شام
ہم نے دیکھے ہیں زمانے کتنے
ہو گئے ہم بھی پرانے کتنے
پھر نئے دور کی تیاری ہے
گھر پھر اجڑیں گے نجانے کتنے
پروفیسر عنایت علی خان نے نظم سنائی
’’کل بھی ہم آزاد تھے آج اور بھی آزاد ہیں‘‘
صدرِ مشاعرہ اعجازؔ رحمانی
میں پنجابی اور نہ سندھی
میں نہ بلوچی اور پٹھان
میں ایک سچا پاکستانی
میرا سب کچھ پاکستان
میرا خالق ایک خدا ہے
میرا رہبر ایک رسولؐ
میرا مسلک پیار و محبت
میرا مذہب ہے قرآن
میں اک سچا پاکستانی
میرا سب کچھ پاکستان