پاک امریکہ تعلقات۔۔۔ مضبوط مؤقف کی ضرورت

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے بدھ کے روز، بھارت جاتے ہوئے چند گھنٹے کے لیے اسلام آباد کا دورہ بھی کیا۔ یہ دورہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اعلیٰ سطح پر پہلا دو طرفہ براہِ راست اور دوبدو رابطہ تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس مختصر دورے کے دوران وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقاتیں کیں، جب کہ دونوں ملکوں کے وفود کے مابین دفتر خارجہ میں چالیس منٹ تک مذاکرات کا دور بھی ہوا۔ دستیاب معلومات کے مطابق ان ملاقاتوں اور مذاکرات میں خطے کی صورتِ حال اور افغانستان میں قیامِ امن میں پاکستان کے کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکہ کی جانب سے حسبِ سابق ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا گیا، جس کے جواب میں پاکستان نے اپنے ٹھوس مؤقف اور تحفظات سے امریکی وفد کو آگاہ کیا۔۔۔ اور باہمی اعتماد اور دو طرفہ عزت و احترام پر مبنی تعلقات کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا۔ مگر دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امریکہ اس نہایت فطری اور جائز خواہش کے احترام پر تیار نہیں۔ پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے دو طرفہ رابطے اور وزیرخارجہ کے دورے سے صرف تین روز قبل بھی امریکہ نے جذبۂ خیرسگالی کے تقاضوں کے بالکل برعکس پاکستان کی تیس کروڑ ڈالر کی رقم کی ادائیگی سے انکار کا اعلان کرکے جو منفی پیغام دیا اسے کسی طرح بھی مناسب اور عقل و شعور کے تقاضوں کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دورے سے عین پہلے امریکہ کی جانب سے یہ بیان کہ ’’اگر بہتر تعلقات کی خواہش ہے تو پاکستان کو افغان پالیسی پر امریکی حکمت عملی کے سائے تلے چلنا ہوگا‘‘ دراصل بالادستی کی وہ سوچ ہے جو دونوں ملکوں کے مابین مستقل خوش گوار تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔ یہ مسلمہ بین الاقوامی اصول ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات دو طرفہ عزت و احترام اور باہمی مفادات کی اساس پر پروان چڑھتے ہیں، مگر بدقسمتی سے امریکہ نے قیامِ پاکستان کے فوری بعد سے ہی ان تعلقات کو آقا اور غلام کی طرز پر آگے بڑھانا چاہا ہے۔ اس کا بہت واضح اظہار پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کی کتاب ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ جس کا ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے شائع ہوا، میں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کے فوجی اور جمہوری ادوار میں بھی امریکہ کا رویہ یہی رہا ہے کہ مطلب نکل جانے کے بعد اُس نے ہمیشہ آنکھیں پھیرلی ہیں۔ افغانستان میں پاکستان اور مجاہدین کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں روس کی شکست کے بعد امریکہ نے ایف 16- طیاروں کی قیمت وصول کرچکنے کے بعد ان طیاروں کی فراہمی سے انکار کردیا تھا۔ اب بھی تیس کروڑ ڈالر کی رقم کی عدم ادائیگی کے حالیہ اعلان سے قبل اِس سال کے آغاز میں امریکہ پاکستان کے پچاس کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک چکا ہے، یوں مجموعی طور پر روکی جانے والی رقم 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جب کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس ضمن میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ رقم پاکستان کے لیے امداد نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے دوران پاکستان کی پہلے سے خرچ ہوجانے والی رقم ہے، امریکہ اس جنگ میں پاکستان کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے پہلے سے طے شدہ اخراجات کی ادائیگی سے بھی انکار کرکے صریحاً بددیانتی اور بدمعاملگی کا مرتکب ہورہا ہے۔
یہ عجیب معاملہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد سے امریکہ کا اتحادی اور سینٹو، سیٹو اور نیٹو جیسی امریکہ نواز تنظیموں کا رکن تو پاکستان رہا ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں امریکہ کی مدد کا حق بھی ادا کیا ہے، مگر اس کے برعکس جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا ہے امریکہ نے ہمیشہ آنکھیں پھیر لیں، بلکہ عملاً پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی مدد اور سرپرستی کی۔ حالانکہ بھارت سرد جنگ کے دوران کھل کر سوویت یونین کا اتحادی رہا ہے۔ ستمبر 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی بند کرکے عملاً بھارت کی مدد کی۔ اسی طرح 1971ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی یلغار کے وقت بھی امریکہ نے حسبِ اعلان آٹھواں بحری بیڑہ نہ بھیج کر پاکستان کو دھوکا دیا اور بھارت کو پاکستان توڑنے کا موقع فراہم کیا۔
11 ستمبر2001ء کے واقعے کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے وقت بھی پاکستان نے حدود سے نکل کر امریکہ کو ہر قسم کا تعاون فراہم کیا جس کے بغیر افغانستان میں طالبان کا مقابلہ کرنا سپر پاور ہونے کے باوجود امریکہ کے لیے آسان نہ ہوتا۔ اس تعاون کے تاوان کے طور پر پاکستان کو ہزاروں انسانی جانوں، کھربوں ڈالر کے مالی اور شدید نوعیت کے جغرافیائی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا، مگر اس کے باوجود امریکہ ان قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے نہ صرف مسلسل ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے بلکہ بھارت کو افغانستان میں غالب کردار سونپ کر پاکستان کو اپنے ازلی دشمن کی بالادستی تسلیم کرنے پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے مفادات کا تقاضا ہے کہ نئی حکومت امریکہ کے ناروا طرزِعمل، سراسر ناجائز مطالبات اور بلاجواز دباؤ کے سامنے جھکنے سے دوٹوک الفاظ میں انکار کردے اور قومی خودمختاری کے تقاضوں پر مبنی اپنے مؤقف پر مضبوطی سے ڈٹی رہے۔ پوری پاکستانی قوم اس معاملے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگی، اور وقت یہ ثابت کرے گا کہ اگر پاکستانی حکومت نے مضبوط قوتِ ارادی کا مظاہرہ کیا تو امریکہ ہماری شرائط پر تعلقات کو استوار کرنے اور آگے بڑھانے پر مجبور ہوگا۔