سناؤنی آگئی

بعض پڑھے لکھے لوگ بھی ’برخاست‘ کا املا درخواست کی طرح کرتے ہیں یعنی برخواست۔ برسبیلِ تذکرہ درخواست کا تلفظ بھی درخاست ہے۔ اس کا وائو خاموش رہتا ہے جیسے خویش اور خواب وغیرہ۔ تلفظ خیش اور خاب ہوگا۔ فرائیڈے اسپیشل کے ایک پرانے شمارے میں مرحوم رسا چغتائی کے بارے میں صحافیوں کے استاد اور ادیب طاہر مسعود کا ایک جملہ تھا ’’سناؤنی موت کی آگئی‘‘۔ بڑا اچھا اور ادبی جملہ تھا لیکن لفظ سناونی شاید نئے لوگوں کے لیے نامانوس ہوگیا ہے چنانچہ پروف ریڈر یا کسی ایڈیٹر نے اسے آسان بنادیا کہ ’’بلاوا موت کا آگیا‘‘۔ اچھا ہے، عام فہم ہوگیا، لیکن بہتر تھا کہ ’سناونی‘ ہی آتی۔ اس طرح اس لفظ کا احیا بھی ہوتا اور ممکن ہے ناواقف لوگ جاننے کی کوشش بھی کرتے کہ یہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اردو میں اس لفظ کا استعمال عام تھا۔ چلیے لغت میں دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔
سنائونی یا سناونی ہندی کا لفظ ہے اور مؤنث ہے۔ اس کا آسان سا ترجمہ اطلاع یا خبر کیا جاسکتا ہے، یعنی موت کی سناونی کا مطلب ہے موت کا بلاوا یا خبر۔ لغت کے مطابق اس کا مطلب ہے: پردیس میں موت کی خبر آنا (آنا، جانا کے ساتھ) جرأت کا شعر ہے:
پر اپنے نوشتہ سے یہ خطرہ ہے کہ واں سے
تیری نہ سنائی کہیں اے نامہ بر آئے
ہندو بیشتر سناونی بولتے ہیں (نوراللغات) ہمارے خیال میں تو سناونی ہندوئوں سے مختص نہیں ہے۔ اردو کی ادبی کتابوں میں یہ لفظ اکثر ملتا ہے۔ جہاں تک سنائی کا تعلق ہے تو یہ اطلاع یا خبر سے زیادہ سننے سے متعلق ہے، یعنی سماعت، باریابی، رسائی۔ محاورہ ہے ’’کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی‘‘۔ بری سنائی کا مطلب ہے بے موقع بات یا بری خبر۔ ذوقؔ کا مصرع ہے
رہ جائوں سن نہ کیوں کر یہ تو بری سنائی
یا داغؔ کا یہ شعر
کس طرح سنوں عذر ستم اس کی زباں سے
کچھ شور قیامت میں سنائی نہیں دیتا
لغات نے سنائونی کو پردیس سے یا پردیس میں موت کی خبر آنے سے مشروط کردیا گیا ہے، لیکن ہمارے خیال میں تو موت کی سنائونی سننے یا سنانے کے لیے پردیس کی شرط ضروری نہیں، اور پردیس کا مطلب ضروری نہیں کہ دوسرا ملک ہو، دوسرا شہر بھی ہوسکتا ہے۔ اب یہ اتر پردیش بھی تو پردیس ہی کے معنوں میں ہے۔
ہمی اور ہمیں پر پہلے بھی تفصیل سے لکھا جا چکا ہے، تاہم عبدالخالق بٹ اسلام آبادی نے اس پر مزید ردا جمایا ہے بلکہ پوری دیوار چن دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’22اگست2018ء کے شمارے میں حسب سابق بہت کچھ سیکھنے کو ملا، تاہم میری دانست میں کچھ نکات وضاحت طلب ہیں :
1۔ آپ نے تحریر کیا ہے کہ: ’جسارت کی لوح پر پہلے ایک مصرع درج ہوتا تھا ’’ہمیں کو جرأتِ اظہار کا سلیقہ ہے‘‘۔ اب شاید اسے تعلی سمجھ کر ہٹادیا گیا۔‘عرض ہے جسارت کی لوح سے ہٹایا جانے والا مذکورہ مصرع ( مصرعہ بھی درست ہے) درج ذیل جزوی تبدیلی کے ساتھ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کے آن لائن ایڈیشنزمیں اب بھی موجود ہے:
’ہمی کو جرأتِ اظہار کا سلیقہ ہے‘
یادش بخیر جسارت کی لوح پر اول اول یہ مصرع ’ہمی‘ کے ساتھ درج تھا،جسے بعد ازاں ’ہمیں‘ سے بدل دیا گیا۔مکمل شعر ہے :
ہمیں کو جرأتِ اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
یہ شعر کس کا ہے اور اصل مصرع میں’ہمی‘ ہے یا ’ہمیں‘ ؛محقق نہیں ہوسکا،تاہم’ہمی‘ہویا ’ہمیں‘ مصرع کا وزن متاثر نہیں ہوگا، کیوں کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا اس لیے یہ تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔’ہمی‘اور ’ہمیں‘دونوں ’ہم ہی‘کی تخفیفی صورت ہیں۔اردو نثر میں ’ہمی‘کا استعمال کم سے کم راقم کی نظر سے نہیں گزرا، تاہم نظم میں اس کا استعمال عام ہے،شاید ضرورتِ شعری کے تحت ایسا ہوتا ہو۔ راحت اندوری کا شعر ہے :
ہمی بنیاد کا پتھر ہیں لیکن
ہمیں گھر سے نکالا جارہا ہے
’ہمی‘کے علاوہ بھی اردو کی بہت سی ضمیروںاور اسم اشارہ میں تخفیف پائی جاتی ہے، جسے ذیل کی مثالوں میں دیکھا جاسکتا ہے:
یہ ہی،وہ ہی،اُس ہی /اِسی ہی،اُن ہی /اِن ہی،مجھ ہی اور آپ ہی بالترتیب یہی، وہی، اُسی/اِسی،اُنھی/اِنھی،مجھی اورآپی ہیں۔ آخرالذکر ’آپی‘(آپ ہی)اب ان معنوں میں مستعمل نہیں،تاہم پنجابی میں معمولی تغیر کے ساتھ اب بھی بولا جاتا ہے۔اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی ؒنے اسے درج ذیل صورت میں برتا ہے :
آپی کیا ہے اپنے گریباں کو ہم نے چاک
آپی سیا سیا نہ سیا پھر کسی کو کیا
2۔درج ہے کہ’عربی میں جب ’ن‘ اور ’ب‘ ایک ساتھ آتے ہیں تو اس کا تلفظ میم ہوجاتا ہے۔‘بے شک ایسا ہی ہوتاہے۔تاہم یہ صورت صرف عربی کے ساتھ خاص نہیں، فارسی بلکہ اس کی ماں جائی سنسکرت بھی اس خصوصیت کی حامل ہے۔اس کی گونج فارسی کے ’گنبد‘میں صاف سنائی دیتی ہے۔فارسی مصدر ’جنبیدن‘اور اس کے مشتقات (جنبید جنبد، جنبندہ، جنبان،جنبیدہ، جنبش)بھی اس پرشاہد ہیں۔ مشہور ضرب الامثال ’زمین جنبد نہ جنبدگل محمد‘(زمین ہل گئی پر گل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلا)اور ’قطب از جا نمی جنبد‘(قطب اپنی جگہ سے نہیں ہلتا)میں پوشیدہ ’میم‘ صاف سنائی دیتا ہے۔ مثل ثانی میں موجود’قطب‘اپنی جگہ سے کیوں نہیں ہلتا ہے؟ اس کا جواب تو کوئی صوفی ہی دے سکتا ہے،تاہم عربی الاصل ’قطب‘ چکی کے وسط میں نصب اُس کیل (Pole)کو کہتے ہیں جس کے گرد چکی کا پاٹ گھومتا ہے،کیل کے اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنے کی رعایت سے ستارۂ شمال (North star)کو قطب تار ہ (Pole star)بھی کہتے ہیں،کیونکہ دیگر ستاروں کی بہ نسبت یہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتا،یوں اسے نشانی بنا کر رات بالخصوص سمندری سفر میں سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔اسی رعایت سے سردار قوم و قبیلہ بھی قطب کہلاتا ہے کیونکہ معاملات کا مدار اسی پرہوتا ہے۔صوفی نظام میں قرب الٰہی کے مختلف مدارج ہیں جن میں غوث،قطب،ابدال اور اوتادشامل ہیں۔ ان میں سے’قطب‘ اس لیے’قطب‘کہلاتا ہے کہ یہ اوروں کی بہ نسبت اپنی مقررہ جگہ سے کہیں نہیں جاتا۔مظفر علی خان اسیرؔ کا شعر ہے :
ہرزہ گردوں کا کبھی ساتھ نہ دے گوشہ نشیں
مہرو مہ لاکھ پھریں قطب کہاں پھرتا ہے
ذکر تھا فارسی اور سنسکرت میں ’ن اورب‘ کے ساتھ ’میم‘کی آواز کا، تو اسے ہم نے فارسی کے گنبد،جنبد اور جنبش وغیرہ میں سن لیا،اب رہی بات سنسکرت کی،تو فارسی کا ’خُم‘ اصلاً سنسکرت کے ’کُنبھ‘ ہی کی متبدل شکل ہے،جس میں ’ک‘ نے’خ‘ کی صورت اور ’ن اورب‘ نے ’میم‘ کی شکل اختیار کرلی ہے،جب کہ’دو چشمی ھ‘ساقط ہوگئی ہے۔ ’کُنبھ‘ سنسکرت میں عام مٹکے کو کہتے ہیں جبکہ فارسی میں ’خُم‘ شراب کے مٹکے کے لیے خاص ہے،یوں خُم میں ’میم‘صوتی کے ساتھ صوری طورپربھی ظاہر ہوگیا ہے۔ اسی خُم سے خُم خانہ کی ترکیب بنی ہے جو مے خانہ اور شراب خانہ کا مترادف ہے۔ خُم کے حوالے سے شاد عظیم آبادی کا شعرہے:
کہاں سے لاؤں صبرِ حضرت ایوبؑ اے ساقی
خم آئے گا، صراحی آئے گی، تب جام آئے گا
اور خُم خانہ کے بارے میں شیخ ظہورالدین حاتم کہتے ہیں:
خم خانہ میکشوں نے کیا اس قدر تہی
قطرہ نہیں رہا ہے جو شیشے نچوڑیے
’کُنبھ‘ کو مٹکا اور مٹکے کو’گھڑا‘بھی کہتے ہیں، اس رعایت سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے اور وہ یہ کہ ایک موقع پر سید سلیمان ندویؒ مختلف لفظوں کی تاریخ سے متعلق گفتگو فرمارہے تھے کہ جناب ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ؒ نے ان کی توجہ عربی کے ’جُرْعَہْ‘ کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ اس کی اصل ہندی کا ’گھڑا‘ ہے، تو سید صاحب نے فی البدیہہ فرمایا ’’ممکن ہے اسی سے گھڑاہو‘‘(یہاں صنعت ایہام سے کام لیا گیا ہے جس میں گھڑا بمعنی بنانے اوروضع کرنے کے معنی میں برتا گیا ہے)۔
بات ہورہی تھی ’کُنبھ‘ کی۔ہندی علم الاصنام میں اس ’کُنبھ‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔الٰہ آباد (پریاگ)اور ہردوار،انڈیا میں منعقد ہونے والا دنیاکا سب سے بڑا مذہبی اجتماع اسی ’کُنبھ‘ کی نسبت سے’کمبھ کا میلا‘کہلاتا ہے۔
’کُنبھ‘ نے ’کمبھ‘ کی صورت اختیار کی اور پھر اسی کمبھ سے’کمہار‘ کی ترکیب بنی۔اس ترکیب میں ’کم‘ کمبھ کی تخفیفی صورت ہے جومٹکے کی رعایت سے مٹی کے برتن کانمائندہ ہے،جب کہ ’ہار‘ بہت سے پیشوں کے ناموںمیں بطورلاحقہ آتا ہے اور بعض جگہ ’ہ‘ ساقط ہونے پر فقط ’اَر‘کی آوازدیتا ہے،مثلاً لوہار، کہار، بیوہار (بیوپار)،سنار وغیرہ۔ یہی ’ہار‘ہائے ہوز کے ’ک‘ سے بدلنے پر فارسی میں ’کار‘ہوگیا ہے،جس کے معنی میں ’کام، کاج،فعل،عمل، پیشہ،ہنر،صنعت وحرفت‘ وغیرہ داخل ہیں، بطور لاحقہ یہ بھی مختلف افعال اورپیشوں کی نشاندہی کرتا ہے، مثلاً تجربہ کار،کاشتکار،فن کار وغیرہ۔پھر یہ کار ’ک‘کے ’گ‘سے بدلنے پر ’گار‘ ہوجاتا ہے۔’گار‘ کے معنی میں بھی کرنے والا،بنانے والا،سبب اور باعث وغیرہ شامل ہیں،اس کا محل استعمال بھی قریب قریب ’کار‘جیسا ہے مثلاً گنہگار،یادگار،خدمت گاروغیرہ۔
سنسکرت ہی میں ’ن اورب‘کے ساتھ میم کی آواز دینے والا ایک اور لفظ ’دُنب‘ہے،جو ہندی اور اردو میں ’دُم‘ہلاتا نظرآتاہے۔اسی ’دُنب‘میں ہائے نسبتی کے اضافے سے اسم ’دُنبہ‘ بنا ہے،جو ایک عام مویشی ہے۔ظاہر ہے کہ دنبے کو یہ نام اس کی غیر معمولی ’دُنب‘کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اب ذرا دنبے کی اس موٹی تازی اور چوڑی چکلی ’دُنب‘کو ذہن میں رکھتے ہوئے مشہور محاوراتی دھمکی ’مارمارکردنبہ بنادینا‘ پرغورکریں، آپ کے ذہن میں ایک سنگین اور مضحکہ خیزتصویر گھو م جائے گی۔
دنبے کی ’دُم‘اپنی ہیت کی رعایت سے ’چکی‘بھی کہلاتی ہے۔جب کہ کچھ لوگ اسے
’چکتی‘ بھی پکارتے ہیں۔اسی چکتی سے محاورہ ’ہلتی نہیں چکتی،زبان خوب ہے چلتی‘بنا ہے۔برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ دنبہ واحد جانور نہیں جس کا نام کسی نسبت کا رہینِ منت ہے بلکہ کئی اور جانور بھی کسی نہ کسی وصف یا نسبت ہی سے موسوم ہیں۔ مثلاً:
(i)مارخور: پاکستان کے اس قومی جانور کا نام فارسی کے دولفظوں ’مار‘ (سانپ) اور ’خور‘(کھانا) سے مرکب ہے۔یعنی سانپ کھانے والا۔چوں کہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سانپ کھاتا ہے لہٰذا اس نسبت سے یہ ’مارخور‘کہلاتا ہے۔
(ii)مورخور:یہ نام بھی فارسی ہی کے دولفظوں ’مور‘(چیونٹی)اور ’خور‘(کھانا) سے مل کربنا ہے۔یعنی چیونٹی کھانے والا۔اس ’مورخوری‘ کی وجہ سے اسے انگلش میں Anteater کہا جاتا ہے،اسے ’مورخور‘ کا لفظی ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’مارچ۱۹۰۷‘میںاس’مور‘کاذکر ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے :
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ِناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہوگا
(iii)خر گوش :خرگوش مشہور و معروف جانور ہے جو قریب قریب دنیا بھر میںپایا جاتا ہے۔اردومیں مروج اس کا یہ نام بھی اصلاً فارسی ہی کی دین ہے اور حسب سابق یہ بھی فارسی کے دولفظوں ’خر‘(گدھا)اور ’گوش‘(کان)سے مرکب ہے۔ اب تھوڑی دیر کے لیے ’خر‘ کے ’گوش‘ ذہن میں لائیں آپ کو اس نام کے فطری ہونے میں کوئی شک نہیں رہے گا ا و رآپ بے ساختہ ’خرگوش‘پکار اُٹھیں گے۔
3۔بجا فرمایا کہ’’منڈی بہاء الدین میں اخبارات بھی اور ٹی وی چینلز بھی وائو لگانے یعنی بہاؤالدین لکھنے سے باز نہیں آتے۔‘‘مگر یہ معاملہ صرف بہاء الدین تک محدودنہیں، علاء الدین بھی اس کی زد میں ہے،جسے علاؤ الدین لکھا جاتا ہے،مگر حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب’ضیاء الدین اور ضیاء الحق‘کو کسی بھی غلطی کے بغیر بالکل درست لکھا جاتا ہے،اسے کوئی بھی ’ضیاؤ الدین یاضیاؤ الحق‘لکھنے کی ’جرأت‘ نہیں کرتا۔اس کی وجہ شاید جنرل ضیاء کے تازیانے رہے ہوں گے۔
(واللہ اعلم بالصواب)‘‘
راحت اندوری کے مصرع میں ’’ہمی‘‘ ممکن ہے سہو ِکاتب ہو، ورنہ انھوں نے یہ مشہور شعرتو سنا ہوگا کہ:
ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا