ارشاد الرحمن
اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور مصیبتوں، تکلیفوں سے نکلنے کے لیے دعا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ آپؐ نے دعا کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی عبادت ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ دعا میں غفلت اور تساہل سے آپؐ نے منع فرمایا۔
مصیبتوں اور تکلیفوں کے مواقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص دعائیں کیا کرتے تھے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہوجاتا تو آپؐ آسمان کی طرف چہرہ بلند کرلیتے، اور گڑگڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یاحی یا قیوم کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپؐ یوں دعا کرتے :یاحی یا قیوم برحمتک استغیث ’’اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد کا طالب ہوں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لاالٰہ الا اللّٰہ رب العرش العظیم، لا الٰہ الا اللّٰہ رب السمٰوٰت السبع ورب الارض و رب العرش الکریم ’’اللہ بزرگ و برتر رب کے سوا کوئی الٰہ نہیں، ساتوں آسمان و زمین کے رب اور عرش کریم کے رب، اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں!‘‘ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدائد و مصائب کے مواقع پر دعا کے ذریعے اللہ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرتے تھے۔ طائف سے واپسی پر اور غزوۂ بدر کے موقع پر آپؐ کی دعائیں آج بھی رہنمائی دیتی ہیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو گہرے زخم آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر زخمی ہوئے اور آپؐ کو بھی دشمن کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ بھی اسی غزوے میں آپؐ کو پہنچا۔ اپنے زخموں اور چچا کی شہادت کے صدمے کی شدت سے قریب تھا کہ آپؐ بے ہوش ہوجاتے۔ آپؐ نے اس نازک اور اندوہناک صورتِ حال میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و توصیف بیان فرمائی۔
غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا محاصرہ سخت کردیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے خلاف دعا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا فرمائی:
’’اے اللہ، کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے کی قدرت رکھنے والے! ان لشکروں کو شکست سے دوچار کردے۔ اے اللہ ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔‘‘
دعا عظیم عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ انسانی عقل، ذہانت و فطانت کی کتنی ہی بلندیاں کیوں نہ سر کرلے، بہرحال وہ متزلزل ہونے سے مبرا نہیں۔ مومن پر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ تفکر و تدبر سے عاجز ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے سامنے دستِ دعا دراز کردے۔ پھر اِدھر دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آتے اور دعا کے الفاظ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو اُدھر اللہ رب العالمین کی طرف سے قبولیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔
دین
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ فلاں خاتون ہیں اور ان کی نماز کا بہت چرچا ہے (یہ نمازیں زیادہ پڑھتی ہیں)۔
آپؐ نے فرمایا: رُک جائو! تم پر اتنی ہی ذمے داری ہے جتنی تم میں طاقت ہو۔ اللہ نہ اُکتائے گا جب تک تم نہ اُکتائو۔ اللہ کو وہی دین و طاعت زیادہ محبوب ہے، جس پر اس کا اختیار کرنے والا پابندی اختیار کرے۔ (بخاری ، مسلم)
آدمی کی وہی طاعت و بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور حقیقت کی نگاہ میں معتبر ہے جو محض وقتی اور چند روزہ نہ ہو، بلکہ وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہو۔