اکثر افراد کے ہاتھوں کی انگلیوں کے ناخنوں پر سفید رنگ کے نشان یا دھبے نمودار ہوجاتے ہیں، مگر اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ اور کیا وہ کسی مرض کی علامت ہوتے ہیں؟ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سفید نشانات جنھیں طبی زبان میں punctate leukonychia کہا جاتا ہے، عام طور پر بالکل معمول کی چیز ہیں، جو کہ انگلیوں پر کسی چوٹ یا ضرب کے نتیجے میں نمودار ہوتے ہیں جیسے کسی دروازے میں انگلی کا آجانا، یا ایسی ہی کوئی چوٹ۔ ایسی چھوٹی چوٹوں کے نتیجے میں انگلی شدت سے دب جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہ دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ناخن کی بنیاد سے شروع ہوتے ہیں اور آہستگی سے اوپر کی جانب سفر کرتے ہیں تو جب یہ کسی کی نظر میں آتے ہیں تو لوگ اس کی وجہ یعنی چوٹ کو بھول چکے ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی طبی مسئلے کے نتیجے میں دودھ کی رنگت کے یہ نشانات انگلیوں پر نمودار ہوں، جیسے جسم میں زنک کی کمی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، اسی طرح ملیریا یا خون کی کمی کا مرض بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے، مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اکثر ان نشانات کی وجہ کوئی معمولی چوٹ ہی ہوتی ہے، اور یہ کسی مرض کی علامت یا اس کے اثرات کو ظاہر نہیں کرتے۔ مگر ان نشانات کے حوالے سے اُس وقت فکرمند ہونے کی ضرورت ہے جب اس کی ایک قسم leukonychia totalisکا سامنا ہو۔ اس قسم میں پورا ناخن سفید ہوجاتا ہے اور ایسی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ یہ سنگین طبی امراض جیسے گردے فیل ہونا، امراضِ قلب یا ذیابیطس سے متعلق ہوسکتا ہے۔ اگر یہ ناخن پر کسی لکیر کی طرح ہو تو یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ آپ نے کسی قسم کا زہر استعمال کرلیا یا اس کا نشانہ بنے، مگر خوش قسمتی سے بچنے میں کامیاب رہے۔
واٹس ایپ نیا فیچر… فائدہ یا نقصان؟
واٹس ایپ استعمال کرنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد صارفین کے لیے اچھی خبر ہے کہ رواں سال نومبر سے انہیں اپنا چیٹنگ ڈیٹا گوگل ڈرائیو پر اسٹور کرنے پر کسی قسم کی اسٹوریج اسپیس کی قربانی نہیں دینا پڑے گی۔
12 نومبر سے واٹس ایپ کے اینڈرائیڈ صارفین اپنی چیٹ اور ویڈیو یا دیگر پیغامات کو گوگل ڈرائیو پر اسٹوریج کی قربانی دیئے بغیر محفوظ کرسکیں گے۔
جی ہاں واٹس ایپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر آپ اپنی چیٹ، میڈیا اور پیغامات کو کسی بیرونی سروس پر محفوظ کرتے ہیں تو انہیں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کا تحفظ نہیں مل سکے گا۔ اگر آپ پہلے ہی گوگل بیک اپ کے فیچرکو استعمال کررہے ہیں تو اس کا اطلاق حالیہ اپ لوڈ بیک اپ پر بھی ہورہا ہے۔ ویسے اپنے پیغامات اور چیٹ کو کسی سروس مثلاً گوگل ڈرائیو پر محفوظ کرنا قابلِ فہم ہے کیونکہ واٹس ایپ پیغامات وقت کے ساتھ فون میں بہت زیادہ جگہ گھیرنے لگتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی اگر اسمارٹ فون گم ہوجائے یا نیا خرید لیا جائے تو پرانے واٹس ایپ میسجز تک رسائی کے لیے اس سروس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اگر آپ واٹس ایپ کے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن فیچر کا استعمال چاہتے ہیں تو اس فیچر کو استعمال کرنے سے پہلے دوبار سوچیں۔
خبردار! فضائی آلودگی آپ کو کند ذہن بھی بناسکتی ہے
فضائی آلودگی کے جسمانی نقصانات تو واضح تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ زہریلے ذرات سے بھری ہوا میں سانس لینے سے انسانی ذہانت میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔چین میں کی گئی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ انتہائی آلودہ فضا میں سانس لینے سے جو نقصان ہوتا ہے، اسے ایک سال تک اسکول سے غیرحاضری کے برابر تصور کیا جاسکتا ہے۔امریکہ میں ییل اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہر ژائی چین اور ان کے ساتھیوں کی اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غیر محفوظ فضا طالب علموں میں زبان سیکھنے اور ریاضی کی صلاحیتوں کو شدید متاثر کررہی ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ آلودہ ماحول میں مسلسل رہنے سے ایک جانب تو سال بھر اسکول نہ جانے کے برابر زیاں ہوتا ہے تو دوسری جانب بالخصوص 64 سال سے زائد عمر کے بزرگوں پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ عمر رسیدہ افراد کا ذہنی نقصان کئی سال تک اسکول سے دور رہنے کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے قبل تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ فضائی آلودگی طلبہ و طالبات میں ذہنی صلاحیت اور سمجھ بوجھ کو بھی شدید متاثر کرتی ہے، تاہم آلودگی عمر رسیدہ افراد کو اس سے بھی زیادہ متاثر کررہی ہے۔
اس سروے کی تفصیلات پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئی ہیں جس میں 2010ء سے 2014ء تک پورے چین میں 20 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا۔ سروے میں زبان سیکھنے اور ریاضی کو جاننے کے ٹیسٹ بھی لیے گئے۔ معلوم ہوا کہ لوگ جتنا زیادہ آلودہ فضا میں رہیں گے، ان کی ذہنی کارکردگی اتنی ہی بری ہوتی جائے گی۔
اس سروے میں خواتین کے مقابلے میں مردوں پر آلودگی کے زیادہ اثرات دیکھے گئے۔ اس ضمن میں کی گئی گزشتہ کئی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ جو لوگ دماغی مرض کا شکار ہوتے ہیں، فضائی آلودگی اُن پر زیادہ شدت سے حملہ آور ہوکر نقصان پہنچاتی ہے۔
ایک اور تحقیق سے اشارہ ملتا ہے کہ سڑک کے کنارے رہنے والے افراد آلودگی کے باعث ڈیمنشیا جیسے امراض کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔