رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

پیشکش: ابوسعدی
اختر شیرانی برصغیر کے معروف شاعر تھے۔ ان کی غزلوں کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ لاہور میں مقیم تھے۔ اردو کے مشہور شاعر محمود شیرانی کے فرزندِ ارجمند تھے۔ روزانہ شام عرب ہوٹل ریلوے روڈ لاہور میں بیٹھتے تھے۔ شاعری کی نشست جمتی تھی۔ بے شمار دیگر شعراء بھی ان کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ شعر و شاعری بھی ہوتی تھی اور شراب کی محفل بھی جمتی تھی۔ ایک دن کچھ کمیونسٹوں کو شرارت سوجھی۔ وہ بالارادہ ان کی مجلس میں آئے اور سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
ایک صاحب نے سوال کیا: شیرانی صاحب! آپ کا غالب کے بارے میں کیا خیال ہے؟
نشے کی ترنگ میں بیٹھے ہوئے تھے، کہنے لگے: آج غالب ہوتے تو میرے سامنے پانی بھرتے۔
دوسرے نے سوال کیا: میر تقی میرؔ کو آپ کیا مقام دیتے ہیں؟ کہنے لگے: اگر آج ہوتے تو میری جوتیاں سیدھی کرتے۔
اسی ترنگ میں بیٹھے تھے کہ کسی گستاخ کمیونسٹ نے سوال کردیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ سننا تھا کہ غصے سے منہ سرخ ہوگیا، آنکھوں سے آنسو نکل آئے، ہاتھ میں شراب کی بوتل پکڑی ہوئی تھی، وہ اٹھائی اور اس کے سر پر دے ماری، کہنے لگے: بدبخت! گناہ گار ضرور ہوں کافر نہیں ہوں۔ اس حالت میں کس ہستی کا نام میرے سامنے لیتا ہے! شرم کر۔ پھر دیر تک روتے رہے۔ اس بدبخت کو اپنے سامنے سے اٹھوا دیا۔ کچھ دیر بعد مجلس بھی برخواست کردی۔ ہمارے ہاں کے شرابی شعراء کا یہ حال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے تو حالت غیر ہوجاتی ہے تو عام مسلمانوں کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ (مرسلہ: سکندر بشیر نجمی)

ابن بطوطہ

محمد بن عبداللہ المعروف ابن بطوطہ 24 فروری 1304ء کو طنجہ (مراکش) میں پیدا ہوئے۔ 22 برس کی عمر میں والدین کی اجازت سے حج کے لیے روانہ ہوئے اور الجزائر، تیونس اور ٹریپولی سے ہوتے ہوئے اسکندریہ پہنچے جو نہایت خوبصورت بندرگاہ تھی، اور یہاں ایک Light House بھی موجود تھا۔ یہاں کئی علماء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ برہان الدین نامی ایک عالم نے آپ سے کہا کہ تم دور دراز سفر کروگے، ہندوستان جاؤ تو میرے دینی بھائی شیخ فریدالدین سے ضرور ملنا، سندھ میں بھائی رکن الدین سے ملاقات کرنا اور چین میں مولانا برہان الدین کو بھی سلام پہنچانا۔ چنانچہ ابن بطوطہ اسکندریہ سے قاہرہ پہنچے اور شام اور عراق کی سیر کرتے ہوئے 1326ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ پھر عراق اور ایران کی سیر کی اور دوبارہ حج کیا اور مکہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ چوتھا حج کرکے افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ روانہ ہوئے اور یمن سے ہوکر کئی علاقوں کی سیر کرتے ہوئے روس پہنچ گئے۔ روسی بادشاہ کے ساتھ قسطنطنیہ بھی گئے اور پھر افغانستان سے ہوتے ہوئے 1333ء میں سندھ پہنچ گئے۔ اُس وقت ہندوستان میں سلطان محمد تغلق کی حکومت تھی۔ ابن بطوطہ نے دس سال یہاں قیام کیا اور پھر جزائر سیلون اور مالدیپ سے ہوتے ہوئے چین پہنچے جہاں سے وطن واپس آگئے۔ گو آپ کا سفرنامہ معدوم ہے البتہ اس کا خلاصہ دستیاب ہے جو ابن حزی نے تیار کیا تھا۔

شتر مرغ… دلچسپ معلومات

صدیوں سے جنوبی افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے دنیا کے سب سے بڑے پرندے شتر مرغ کی فارمنگ لائیو اسٹاک انڈسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ آمدنی والی فارمنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پرندہ 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ اس کا قد9 فٹ اور گوشت کی قیمت 4 ڈالر فی کلو ہے، جو شوگر اور دل کے مریضوں کے لیے مفید گوشت ہے۔ عالمی منڈی میں اس کے چمڑے، گوشت، پروں، تیل، چوزوں اور انڈوں کی ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ پرندہ گرم علاقوں کا رہنے والا ہے۔ اس کا وزن ایک سو ساٹھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اوسط عمر ساٹھ سے ستّر سال اور 42 سال تک انڈے دیتا ہے۔ ایک سال میں زیادہ سے زیادہ انڈے 120 دیتا ہے جس میں ستّراسّی انڈے چوزے کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ ایک انڈا ڈیڑھ کلو وزن کا ہوتا ہے۔ ایک انڈے کی قیمت 3000 روپے سے زیادہ ہوتی ہے۔ ناکارہ انڈے بھی ڈیکوریشن پیس کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی کھال دنیا بھر میں عمدہ ترین چمڑا تیار کرتی ہے جس کا آج کل ریٹ 20 ڈالر فی مربع فٹ سے زیادہ ہے۔ ایک جوان شتر مرغ سے اوسطاً چودہ مربع فٹ کھال حاصل ہوتی ہے۔ گوشت سرخ رنگ کا لذیذ اور انتہائی مفید مانا گیا ہے۔ عام گوشت کے مقابلے میں کولیسٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ دل اور شوگر کے مریضوں کے لیے اس کا گوشت فائدہ مند ہے۔ شتر مرغ اٹھارہ ماہ میں جوان ہوتا ہے۔ انڈے سے چوزے نکلنے کا وقفہ بیالیس دن کا ہے۔ ایک جوان شتر مرغ سے دو کلو پَر سالانہ اتارے جاتے ہیں۔ پَر انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں جو کہ فیشن میں استعمال ہوتے ہیں۔ پروں کی قیمت تقریباً پندرہ سو روپے کلو ہے۔ شتر مرغ کی کھال سے قیمتی پرس، جوتے، جیکٹس اور بیلٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ شتر مرغ کی چربی سے نکالا گیا تیل قیمتی کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے فضلہ سے ناکارہ زمین بھی زرخیز ہوجاتی ہے۔ (انتخاب: ناعمہ عروج)

ابلاغ کے آداب

1:… ہمیشہ مسکراتے رہیے۔ چہرے سے درشتی اور خشونت کا اظہار نہ ہونے دیجیے۔
2:… بات ہمیشہ نرمی سے کیجیے، اپنی آواز کو کبھی بلند نہ ہونے دیجیے۔
3:… آہستگی سے ہنسیے، گھن گرج نہ پیدا کیجیے۔
4:… جس شخص سے آپ بات کررہے ہوں اگر وہ کھڑا ہو تو آپ بھی کھڑے ہوجائیے، اور جب تک بات کرتے رہیں اُس وقت تک کھڑے رہیں۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اس سے بیٹھ جانے کے لیے کہیں اور خود آپ اُس وقت بیٹھیں جب وہ بیٹھ چکا ہو۔
5:… پہلے خود ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر دوسرے آدمی سے ملیے سوائے ان صورتوں کے کہ:
الف:… آپ کھڑے ہوں اور دوسرا شخص کسی سواری پر یا پیدل آپ کی طرف آرہا ہو۔
ب:… آپ کئی آدمیوں کے ساتھ ہوں اور وہ تنہا ہو۔
6:… ’’السلام علیکم‘‘ کا پورا جواب ’’وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہٗ‘‘ دیجیے۔ ایسا کرتے وقت اپنی آواز میں نرمی اور اپنائیت کا مظاہرہ کیجیے۔
7:… سب کے سامنے جماہی نہ لیجیے۔ اگر جماہی آرہی ہو تو اسے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبائیے۔ اگر پھر بھی جماہی آجائے تو ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کہیے۔
8:… اپنے جسم کو ہمیشہ سیدھا رکھیے، سوائے اس صورت کے کہ آپ تنہا ہوں۔ اِدھر اُدھر نہ جھکیے۔
9:… جو کچھ آپ سے کہا جارہا ہے اسے پوری توجہ سے سنیے۔
10:… جب آپ بات کررہے ہوں یا آپ سے بات کی جارہی ہو تو اپنے مخاطب کی نظر سے نظر ملا کر بات کیجیے۔
11:… اگر آپ کی محفل میں کسی شخص کو چھینک آجائے اور چھینکنے کے بعد ’’الحمدللہ‘‘ کہے تو آپ اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہیے۔
12:… دوسروں سے اپنے بارے میں بات کم سے کم کیجیے۔ دوسروں کی برائی کرنے سے کلیتاً احتراز کیجیے، خواہ وہ بالکل سچ ہی کیوں نہ ہو۔
13:… ہر موقع پر اپنے مخاطب کی تعریف کرنا سیکھیے اور دورانِ گفتگو اُس پر اللہ تعالیٰ کی برکتوں کی دعا کرتے رہیے۔