جب دلیل کمزور پڑجائے تو وحشت اور حماقت غالب آجاتی ہیں۔ تہذیبِ مغرب کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ لادینیت میں عالمگیر اپیل نہ رہی۔ دین کا حال ناتواں ہے۔ اُس پر درپیش دشواری یہ ہے کہ جو خالقِ کائنات کا سب سے محبوب انسان ہے، وہ تہذیبِ مغرب سے نہیں ہے۔ اب دو ہی رستے بچتے ہیں۔ وہ محبوبِ خدا کو اپنا محبوب بنالے، یا خود کو خدا کے لیے مبغوض بنالے۔ مغرب نے دوسرا رستہ اختیار کیا ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے کھلی دشمنی کا رستہ چنا ہے۔
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے یہ رستہ بتدریج واضح ہوتا گیا ہے۔ گو اس سے پہلے بھی یہ دشمنی صلیبی جنگوں تک مسلسل نظر آتی ہے، مگر جدید مغربی تہذیب کی لادینیت پر نامرادی نے اسے بدترین صورت حال پر پہنچا دیا ہے۔ مسلمان کالونیوں سے ایک نظر جائزہ لیں۔ دہشت ناک سلسلہ سامنے آجاتا ہے۔ 1912ء سے 1956ء تک فرانس نے مراکش پر مظالم ڈھائے۔ 1881ء سے 1956ء تک تیونس میں غاصبانہ قبضہ قائم کیا۔ 1943ء سے 1951ء تک لیبیا میں لوٹ مار مچائی۔ 1883ء سے 1960ء تک مالی میں فساد پھیلایا۔ 1830ء سے 1962ء تک الجزائر میں خون کی ندیاں بہائیں۔ 1954ء سے 1962ء تک الجزائر کے مسلمانوں نے فرانس کے خلاف جہاد کیا۔ پندرہ لاکھ الجزائری مسلمان شہید کیے گئے، ہزاروں فرانسیسی مارے گئے۔ الجزائر پر فرانس کا 132 سالہ قبضہ ظلم و ستم اور اسلام دشمنی کا وحشیانہ اظہار تھا۔ اس دور میں الجزائر کی مساجد گرجا گھروں میں تبدیل کی گئیں۔ ہزاروں الجزائری غلام بناکر فرانس لے جائے گئے۔ 1990ء کی دہائی میں بوسنیا قتلِ عام جدید دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ عراق کے بیمار بچوں پر جان بچانے والی دوائیں بند کردی گئیں۔2001ء میں دہشت گرد جنگ پراجیکٹ کے ذریعے مسلمانوں کے قتلِ عام کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مسلمانوں کے عقائد اور اسلامی تہذیب پر بھرپور وار کیے گئے۔ اس مہم کا ایک حصہ مسلمانوں میں اشتعال انگیزی ہے، اس کے ذریعے مسلمانوں پر لڑائی جھگڑا، جنگ و فساد مسلط کرنا ہے۔ نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین اور گستاخیاں کی گئیں، جس کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں مظاہرے ہوئے۔ گاہے بہ گاہے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرکے جنگ کے شعلے بھڑکائے جاتے رہے۔ اس مہم میں فرانس کا جریدہ ’چارلی ایبڈو‘ طویل عرصے سے شریکِ کار رہا۔ 7 جنوری 2015ء کو فرانس میں دو اہم واقعات پیش آئے۔ دونوں واقعات کا بظاہرکوئی تعلق نہ تھا۔ ان واقعات میں یورپ کے لیے خوف و دہشت کا خاصا ایندھن تھا۔ پہلا واقعہ معروف فرانسیسی ناول نگارMichel Houellebecq کے ناول Submission کی اشاعت تھا۔ یہ ناول فرانس اور پھر یورپی یونین کی اسلامائزیشن کے تصور پر مبنی تھا۔ یہ محض فکشن تھا۔ دوسرا واقعہ جریدہ چارلی ایبڈو پر حملہ تھا۔ یہ واقعہ گو کہ حقیقی تھا، مگر فرانسیسی انٹیلی جنس کی مشکوک حرکتیں بتا رہی تھیں کہ بہت کچھ فکشن ہی تھا۔ یہ بھی دلچسپ باہمی اتفاق تھا کہ حملے سے پہلے چارلی ایبڈو کے آخری شمارے کا سرورق ناول Submission کا اشتہار تھا۔ اسی جریدے نے 2009ء میں اسّی سالہ کارٹونسٹ Maurice Sinetکو نہ صرف اس لیے نوکری سے نکال دیا تھا کہ اُس نے سامی مخالف (یہودی مخالف) کارٹون بنایا تھا، بلکہ کارٹونسٹ پر نسلی منافرت انگیزی کے الزامات لگاکر عدالت میں گھسیٹا بھی گیا تھا۔ اُس وقت یورپ کا حقِ آزادیِ اظہار کہاں تھا؟ سامی عزت وناموس نعوذ باللہ کیا شانِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تھی؟ چارلی ایبڈو واقعہ میں یورپی منافقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔ چارلی ایبڈو کا مقدمہ سراسر اسلام دشمن اشتعال انگیزی تھا۔
مغرب کے سنجیدہ دانشوربہت پہلے اس حقیقت کا ادراک کرچکے تھے کہ اللہ، محمدؐ، اور قرآن کی حاکمیتِ اعلیٰ اور تقدیس دینِ اسلام کی بنیادیں ہیں، جب تک یہ بنیادیں نہ ہلائی گئیں، اسلام کا غلبہ روکنا ناممکن ہوگا۔ مستشرقین بیسویں صدی سے بھی پہلے اس پراجیکٹ پرکام کررہے تھے۔ تاہم وہ کتابوں اور مقالوں کی صورت محدود طبقات پر منفی اثرات مرتب کررہے تھے۔ اس کا مرکزی ہدف اہلِ مغرب تھے۔ لیکن آج یہ براہِ راست مسلم امہ کو نشانہ بنارہے ہیں۔
ڈنمارک کے اخبارات سے توہینِ رسالت کی حالیہ مہم کا سلسلہ اب ہالینڈ پہنچ گیا ہے۔ ملعون قانون ساز گیرٹ ولڈرز نے توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ منعقد کروایا ہے۔ اس شخص کی واحد وجۂ شہرت یہ ہے کہ یہ ’’اسلام دشمن‘‘ ہے۔ یوں ماضی کی مانند گیرٹ ولڈرز ہالینڈ کے اس متنازع مقابلے کا محض نمائشی چہرہ ہے۔ اس کے پس منظر میں مغرب کا مکروہ باطن صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ یوں ڈچ پرائم منسٹر مارک رُتے کی حکومت نے خود کو اس منظم اشتعال انگیزی سے لاتعلق ظاہر کیا ہے، مگر ظاہر ہے ڈچ حکومت کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی میں اشتعال انگیزی کی درحقیقت کوئی پروا نہیں۔ جب کوئی شخص (یا ڈراما) گیرٹ ولڈرزکو واصلِ جہنم کردے گا، تو یہی حکومت اور پورا مغرب واویلا مچائے گا۔ کیونکہ مغرب کو اربوں مسلمانوں کے جذبات سے زیادہ ایک ملعون کی جان عزیز ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ ملعون مغربی تہذیب کا اصل نمائندہ ہے، جبکہ ناموسِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تہذیبِ مغرب کا ابطالِ کُل ہے۔ تہذیبِ مغرب کے مرکز یورپ کا کیا حال ہے؟ اسے برطانوی مبصر اور صحافی ڈگلس مرے کی آڈیو کتاب The Strange Death of Europe میں سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’یورپ کی مقامی آبادی کا خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ شرح پیدائش افسوسناک حد تک گرچکی ہے۔ اعتماد کی شدید کمی اور خود ملامتی اور خودکشی کا سا ماحول ہے۔ یہ لوگ دلیل سے محروم اور معاشرتی تبدیلیوں سے لاتعلق ہورہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنا براعظم برباد کررہے ہیں۔ تارکینِ وطن مسلمانوں کے خلاف مزاحمت نہیں کر پا رہے ہیں۔‘‘
یہاں پیو ریسرچ کا ایک جائزہ بھی بے محل نہ ہوگا۔ ڈیٹا رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا کی 199 ریاستوں میں، ہر دس ریاستوں میں سے چار کسی نہ کسی مذہبی عقیدے سے وابستہ ہیں۔ ان 43 مذہبی ریاستوں میں سے 27 ریاستوں کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ جبکہ 13 ریاستوں کا سرکاری مذہب عیسائیت ہے۔ اسرائیل واحد ریاست ہے جس کا سرکاری مذہب یہودیت ہے۔ مشرق وسطیٰ سے شمالی افریقا تک بیس میں سے صرف تین ممالک ہیں جن کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ یہ لبنان، سوڈان، اور شام ہیں۔ ان میں بھی سوڈان اورشام کا غالب مذہب اسلام ہے، لبنان میں بھی اسلام کا کردار اہم ہے۔ پیو اسٹڈی بتاتی ہے کہ مسلمان خاندانوں میں افزائشِ نسل کی شرح سب سے زیادہ ہے، نصف صدی میں مسلمان دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن جائیں گے۔ 2050ء تک دس فیصد یورپین اسلام سے وابستہ ہوچکے ہوں گے۔
اطالوی کالم نگارGiullio Meotti نے Europe fears Islamکے عنوان تلے لکھا ہے کہ ’’مسلمان اور اسلام پسند ایک ایسے براعظم میں جمع ہورہے ہیں، جس کی مقامی آبادی اور تہذیب ختم ہورہی ہے۔ یورپ کو ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں، بصورتِ دیگر یورپ میں خلافتِ اسلامیہ کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ یورپ نے جو تہذیب صدیوں تک تشکیل دی، وہ سیکولرائزیشن کے ہاتھوں مسمار ہورہی ہے۔ ہر جگہ گرجا گھر ویران ہیں۔ برسلز، میلان، لندن، ایمسٹرڈیم، اسٹاک ہوم، اور برلن سب ہی زد میں ہیں۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے یورپ پر بات کرنے سے انکارکردیا ہے، گویا وہ یورپ سے مایوس ہوچکے۔ لوگوں کو جنسی لذت، باڈی کیئر، اورمادی آسائشات کی افیون دے دی گئی ہے۔ عرب دنیا میں 2015ء تک مسلمان آبادی 37 کروڑ80 لاکھ ہوچکی تھی۔ صرف افریقا میں 2050ء تک مسلمان 95 کروڑ سے تجاوز کرجائیں گے۔ اس دوران یورپ میں ضبطِ ولادت اور طبعی اموات سے ہی کروڑوں کی ابادی گھٹ جائے گی۔ اسلام بحیرہ روم کے دونوں جانب سرعت سے پھیل رہا ہے، یورپ کو دوبارہ اپنے اندر سمورہا ہے۔ ہم اسلام سے سنجیدہ جنگ نہیں لڑرہے، ہم الٹا اپنے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ دہشت گردی (اسلام) کے ساتھ جینا سیکھو۔ بلاشبہ یورپ اسلام سے خوفزدہ ہے، اوراپنی ذمے داری سے راہِ فرار اختیارکررہا ہے‘‘۔
یہ ہے یورپ کی وہ اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی حالت، جس میں ہالینڈ کا ایک شکست خوردہ ملعون وزیر گیرٹ ولڈرز (جس کی اپنی جماعت کا ساتھی Arnoud van Doorn بھی اسلام قبول کرچکا ہے، گیرٹ ولڈرزکی اشتعال انگیزی پرلعنت بھیج چکا ہے) اسلام دشمنی کا احمقانہ اظہار کررہا ہے۔ اس شیطانی کھیل کے شرکا کی تعداد اور معیارکا اندازہ مذکورہ رپورٹس اور اقتباسات سے بخوبی ہورہا ہے۔ اب تک شانِ محمدیؐ میں گستاخیوں کے دو ہی نتیجے سامنے آئے ہیں۔ ملعون رشدی اور گیرٹ ولڈرز کی مانند زندگی اور زمین تنگ ہوئی ہے، اور عشقِ مصطفیؐ کی وسعت وشدت کچھ اور دوچند ہوئی ہے۔ سورہ مائدہ کی آیات رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف پر حرفِ آخر ہیں کہ ’’اے پیغمبر! جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو ان لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو تمہارے مقابلے میں کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ صاف کہہ دو کہ ’’اے اہلِ کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں۔‘‘ مسلمان ان آیات کی حکمت و دعوت کو سمجھیں، اشتعال انگیزیوں پر عمدہ حکمت عملی اختیار کریں۔ ہالینڈ میں توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب اسلام کے مقابل کسی معقول اور سنجیدہ دلیل سے تہی دست ہوچکا ہے۔