تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد لوگ اس کی کارکردگی اور نتائج کے حوالے سے بہت جلدی میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد ہی ان کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی پیدا ہوجائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود تحریک انصاف کی قیادت نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی عوام میں بہت زیادہ امیدیں باندھ دی تھیں اور دعویٰ کیا تھا کہ اقتدار ملتے ہی عوام کی زندگیوں میں ترقی اور خوشحالی کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ اب لوگ جہاں جلدی میں ہیں وہیں وہ حکومت کی کارکردگی کو بھی باریک بینی سے دیکھ کر فوری تبصرے کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہت جلدی عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دراصل پاکستان کی سیاست کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ اس میں عوام اور حکمران طبقات سمیت ریاست کے درمیان ایک واضح خلیج نظر آتی ہے۔ اس خلیج نے حکمران طبقات کو طاقت ور اور عام آدمی کو انتہائی کمزور کردیا ہے۔ عام طبقات میں شامل بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت اور حکمرانی کا جو نظام یہاں پر چلایا جاتا ہے اُس سے ہمیں اپنی لاتعلقی کا احساس ہوتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ حکمرانی کے اس نظام میں ہماری حیثیت بس ایک یرغمالی فرد یا طبقے کی ہے جس کی بنیاد پر طاقت ور طبقات نہ صرف حکمرانی کرتے ہیں بلکہ وسائل پر بھی ان ہی کا قبضہ ہے۔
ہمیں بہت سے وزرائے اعظم اور فوجی ڈکٹیٹروں کی عوام سے کی جانے والی تقریروں کو سننے کا موقع ملا ہے۔ بالخصوص اقتدار ملنے کے بعد کی جانے والی تقاریر عملی طور پر روایتی ہوتی ہیں۔ کیونکہ حکمران طبقات عمومی طور پر اپنے میڈیا ماہرین کی لکھی ہوئی تقریریں پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ میڈیا کے یہ ماہرین حکمران کو ایک ایسی تقریر تھما دیتے ہیں جو عوامی جذبات و خیالات سے خالی ہوتی ہے۔کیونکہ ایک عمومی تصور یہ ہوتا ہے کہ حکومت سے باہر اور حکومت میں آنے کے بعد تقاریر کا متن تبدیل ہوتا ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان روایتی سیاست سے بالکل علیحدہ نظر آئے۔ قوم سے پہلا خطاب واقعی کمال کا تھا۔ ایک روایتی اور لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر انہوں نے محض اپنے ہی ہاتھ سے لکھے گئے نوٹس کی بنیاد پر ایک ایسی تقریر کرڈالی جو اس سے قبل کسی وزیراعظم کے حصے میں نہیں آسکی۔ ان کی تقریر عام اور بالخصوص کمزور طبقات کے جذبات، خواہشات، ان کے دکھ اور احساسات سے بھرپور تقریر تھی۔ عام آدمی کو لگاکہ یہ وزیراعظم نہیں بلکہ وہ خود بول رہا ہے، اور وزیراعظم عمران خان کی باڈی لینگویج ظاہر کرتی تھی کہ اس میں بناوٹی پہلو کم اور دل کی باتیں زیادہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس میں عام آدمی کے مسائل کا احاطہ نظر آتا تھا، یعنی یہ خطاب کمزور طبقات کو معاشی طاقت فراہم کرنا، سرکاری تعلیم اور صحت کے مسائل، بیوہ اور غریب عورتوں کے دکھ اور مسائل، گلیوں میں پھرنے والے بچے اور بچیاں، جنسی زیادتی کے شکار بچے اور بچیاں، ماحولیات، صاف پانی، علاج، سماجی انصاف، ادارہ سازی، حکومتی سادگی کا کلچر، حکمران طبقات کی جانب سے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال، بڑی بڑی ریاستی اور سرکاری رہائش گاہوں کی بندر بانٹ، حکمران طبقا ت کے پروٹوکول، نوجوان طبقات، کسان، مزدور، معذور، حکومت میں رہتے ہوئے کاروبار نہ کرنے کا اعلان، سرکاری وسائل اور مالیات کا درست استعمال، پولیس اورعدالتی نظام کی اصلاحات، بیوروکریسی کا عوام کے تناظر میں اختیار کیا جانے والا طرزعمل، احتساب، شفافیت اور جوابدہی پر مبنی نظام کی عکاسی کرتا تھا۔ وزیراعظم کے ذہن میں مدینہ کی ریاست سے مراد ایک بہتر فلاحی ریاست کا تصور ہے، اور اس کی انہوں نے بہت بہتر عکاسی کرکے بہت سے لوگوں سے داد وصول کی، اور لوگوں کو حوصلہ ملا کہ حالات تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ اس تقریر میں داخلی اور خارجی مسائل سمیت بہت سے مسائل کا احاطہ نہیں ہوسکا، اس پر وزیراعظم کو تنقید بھی سننے کو مل رہی ہے۔ مگر کسی ایک تقریر میں سب باتوں کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا، لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ ان کے پہلے عوامی خطاب کا بڑا حصہ داخلی سیاست اور مسائل کا ہی احاطہ کرتا تھا۔ ممکن ہے ان کی تقریر کی یہی ترجیحات ہوں۔ جیت کے بعد کی جانے والی ان کی پہلی تقریر میں خارجی مسائل کی جھلک نمایاں تھی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو باتیں تقریر میں رہ گئی ہیں وہ بھی کردی جاتیں تو ان کے مخالفین تنقید کے کچھ اور نئے پہلو سامنے لے آتے۔ کیونکہ جو لوگ عمران خان کو وزیراعظم نہ ماننے کی ضد رکھتے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں۔ یہ لوگ بلاوجہ تنقید کرتے رہیں گے اور ان کے منہ حکومت کی بہتر کارکردگی سے ہی بند ہوسکیں گے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ محض جذباتی تقریریں کرنے سے قومیں نہیں بدلتیں، لیکن بعض تقریریں یقینی طور پر تبدیلی کا اشارہ ضرور دیتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر بھی ایک ایسی ہی تقریر تھی جس سے عوام میں ایک امید بندھی ہے۔ ان کو لگا کہ اقتدار سے باہر اور اقتدار میں آنے والے عمران خان کی باتوں میں کوئی تضاد نہیں، اور بالخصوص ان کی سیاست کا محور عام آدمی اور کمزور طبقات ہیں۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کے عام آدمی کے مسائل کا علم نہیں، ان کی یہ دلیل اس تقریر کے بعد یقینی طور پر غلط ثابت ہوئی۔
بنیادی طور پر اس وقت پاکستان جن داخلی اور خارجی مسائل میں گھرا ہوا ہے اس کی کہانی بہت خوفناک ہے۔ ایسے میں قوم کی قیادت کرنے والے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف سب کے سامنے مسائل کی درست تصویر پیش کرے اور دوسری طرف وہ لوگوں میں کچھ کرنے کے لیے اعتماد کا ماحول پیدا کرے۔ کیونکہ عموماً یہاں لوگوں میں حالات کی تبدیلی کے تناظر میں امید کم اور مایوسی زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حکمرانی کے نظام کی تبدیلی یا کسی کے آنے جانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اصل معرکہ یہ ہے کہ حکمران مسائل سے نمٹنے کے لیے خود بھی تیار ہو اور اپنی قوم کو بھی ایک بڑی جنگ لڑنے کے لیے تیار کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں بار بار یہ نکتہ پیش کیا کہ اگرچہ مسائل بڑے ہیں لیکن حالات سے گھبرانا نہیں، ہمیں مل کر مقابلہ بھی کرنا ہے اور ان مسائل کے خلاف جنگ بھی جیتنی ہے۔ عمران خان کی باتوں میں نہ صرف وزن تھا بلکہ یہ ایک ایسے حکمران کی تقریر تھی جو اپنے اندر خود بہت کچھ بدلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر واقعی عمران خان کی ٹیم اُن کے ساتھ کھڑی رہے اور خود بھی یہ ٹیم روایتی سیاست سے باہر نکل سکے تو حالات میں بہتری کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ عمران خان کے پاس جو سیاسی ٹیم ہے اس میں زیادہ تر لوگ وہی ہیں جو مختلف جماعتوں میں ماضی میں روایتی سیاست کرتے رہے ہیں، اور اب ان سے فوری طور پر یہ توقع رکھنا کہ وہ انقلابی ہوگئے ہیں، درست نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کو بہت جلد خارجی چیلنجز سے زیادہ خود اپنی حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں کی سیاست سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان سے نمٹنا وزیراعظم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ممکن ہے نظام کی تبدیلی کی یہ جنگ فوری طور پر کوئی بڑے نتائج نہ دے سکے، لیکن حکمرانی کے نظام میں درست سمت میں حکمت عملی وضع کرنا اور اپنی حکمرانی کے نظام میں کچھ ابتدائی بنیادی تبدیلیوں کے خاکے جو علامتی ہی ہوں، لوگوں میں امید پیدا کرتے ہیں۔ عام آدمی اس وقت اس نظام سے سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔ عام آدمی سے جڑے ہوئے سماجی اور معاشی اعداد وشمار کو دیکھیں تو آپ کو عام اور کمزور آدمی بدحال ہی ملے گا۔ عمران خان عمومی طور پر اپنی تقریروں میں انسانی ترقی یا انسانوں پر سرمایہ کاری کی بہت زیادہ باتیں کرتے تھے، ان کے پہلے خطاب میں وہ سب باتیں سننے کو ملیں جو یہاں سول سوسائٹی کے لوگ کئی دہائیوں سے کررہے ہیں، اس لیے اس کی ہر سطح پر حمایت ہونی چاہیے۔ عمران خان کی حکومت اگر واقعی عام آدمی کی سیاست کو طاقت فراہم کرسکی تو یہ نئی حکمرانی ہوگی۔
عمران خان نے سادگی اپنانے اور حکومتی اخراجات کم کرنے کی جو باتیں کی ہیں وہ درست سمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اگر وہ واقعی غیر ترقیاتی اخراجات کو ترقیاتی اخراجات میں بدل سکیں تو یہ بڑی تبدیلی ہوگی۔تین وزرائے اعلیٰ، چاروں گورنرز، وفاقی وزرا اور خود وزیر اعظم کا بڑے بڑے محلات میں نہ رہنے کا اعلان، سرکاری وسائل سے غیر ممالک میں علاج پر پابندی، کم سے کم بیرونی سفر اور کم سے کم افراد کے ساتھ بیرونی دورے اچھی ابتدا ہے۔اگرچہ یہ علامتی مظاہر ہیں لیکن یہی آگے جاکر بڑی تبدیلی کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔