خارجہ امور، سلگتے مسائل اور نئی حکومت کی بوکھلاہٹ

تحریک انصاف وفاق میں حکومت بناچکی ہے، اب اسے ریاست کے مفادات، عوام کے تحفظ اور ملک کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے معیشت سمیت حکومت کے ہر شعبے میں بہتری لانا اور صوبوں کے ساتھ قابلِ عمل رابطہ کاری قائم کرنے کی آئینی ذمے داری نبھانی ہے، بطور انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہونا ہے۔ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے اپنے پہلے سودنوں کا پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا تھا، ان میں پہلے تیرہ دن گزر چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں فی الحال نومنتخب حکومت کو سنبھلنے کا موقع دے رہی ہیں اسی لیے پالیسی پر تنقید اور فیصلوں پر ردعمل کے لیے ازخود زبان بندی کیے ہوئے ہیں، تاہم متعدد امور ایسے ہیں جن پر ضرور بات ہونی چاہیے، خارجہ امور کو قومی سلامتی کا اہم ترین جز سمجھا جاتا ہے، اس معاملے میں وزیراعظم عمران خان ناتجربہ کاری اور اناڑی پن کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ٹیلی فون کال ایک غیر معمولی واقعہ ہے، جس نے خارجہ امور کی حساسیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے وزیراعظم ہائوس سے براہِ راست رابطہ کرکے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ وزیراعظم عمران خان کو مبارک باد کے لیے فون کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اسٹاف کے ذریعے انہیں دو گھنٹے بعد کا وقت دے دیا۔ دفتر خارجہ نے اپنی رائے دی کہ وزیراعظم کو امریکی وزیر خارجہ کی مبارک باد کی کال نہیں لینی چاہیے کہ یہ سفارتی آداب کے منافی ہے، سفارتی آداب یہ ہیں کہ وزیراعظم کو امریکی صدر یا کم از کم نائب صدر مبارک باد کے لیے فون کریں۔ لیکن دفتر خارجہ کی رائے مسترد ہوئی اور امریکی وزیر خارجہ نے ٹیلی فون پر مبارک باد دی اور اسی کال میں اس خطہ میں دہشت گردی سے متعلق اپنے مفادات سے جڑے ہوئے ایشوز حل کرنے کی بات کردی۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو شاید قابلِ قبول تھا، لیکن امریکی دفتر خارجہ نے فون پر جو گفتگو ہوئی اسے پریس نوٹ کی صورت میں جاری کردیا۔ امریکی دفتر خارجہ کے اس پریس ریلیز نے دفتر خارجہ کو ہلا کر رکھ دیا، پھر معاملے کی تہ تک پہنچا گیا کہ ٹیلی فون کال میں کیا ہوا، سفارتی آداب کے منافی یہ کال کیوں ہوئی۔ دفتر خارجہ کے حکام نے اپنی صفائی پیش کردی اور کہا کہ ٹیلی فون کال لینا وزیراعظم کا اپنا فیصلہ تھا۔ اس ٹیلی فون کال نے اس قدر گرد اڑائی ہے کہ ابھی تک یہ گرد بیٹھی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی ریاست سے ریاست کے مابین ہوگی، انفرادی اور شخصی تعلق کی بنیاد پر نہیں ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ کی سفارتی آداب کے منافی ٹیلی فون کال لے کر وزیراعظم نے وزیر اطلاعات کے اس اعلان کی نفی کردی۔ وزیر خارجہ اور دفتر خارجہ اگرچہ اب اپنے مؤقف کا دفاع کررہے ہیں، اور کہا گیا ہے کہ امریکی وزارتِ خارجہ کا پریس نوٹ حقائق کے برعکس ہے، سینیٹ میں بھی وزیر خارجہ نے یہی بات کی ہے، تاہم وزیراعظم عمران خان اس معاملے پر اب بالکل خاموش ہیں، وہ سینیٹ میں آئے لیکن حاضری لگا کر چلے گئے، اپوزیشن نے بھی ان کے اناڑی پن کی وجہ سے کچھ لحاظ کیا، لیکن چونکہ امریکہ مسلسل اپنے مؤقف پر قائم ہے اور امریکی وزیر خارجہ پاکستان بھی آنے والے ہیں، وہ ضرور اسلام آباد میں اپنی حکومت کا مؤقف بیان کریں گے، اُس وقت وزیراعظم عمران خان کے پاس کہنے کو کیا ہوگا؟ امریکی وزیر خارجہ کا دورۂ اسلام آباد پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث آئے گا، لہٰذا اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے حکومت کے مؤقف کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ یہ معاملہ شاید دب جاتا لیکن امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلی فونک کال کے بعد وزیراعظم ہائوس نے بھی پریس نوٹ جاری کیا۔ دفتر خارجہ اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ نے وزیراعظم سے گفتگو کے دوران پاک، امریکہ تعلقات کی مضبوطی کی ضرورت پر زور دیا اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں کے لیے پاکستان کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔ پومپیو نے وزیراعظم کو کامیاب انتخابی مہم اور حکومت بنانے پر مبارک باد دی اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے کیے گئے ان کے وعدوں کی تکمیل کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ترجمان کے مطابق عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن کا قیام ضروری ہے۔ دونوں رہنمائوں نے افغانستان کے تناظر میں امن کو دونوں ممالک کے لیے اولین ترجیح قرار دینے پر اتفاق بھی کیا۔ اس پریس نوٹ کے بعد دفتر خارجہ نے سفارتی زبان میں جواب دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بیان نہیں بلکہ ٹوئٹ کیا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان پاکستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری یہ بیان حقائق کے برعکس ہے اور اس کی فی الفور تصحیح کی جائے۔ جواب میں امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ہیدر نورٹ نے پھر اپنے بیان کو دہرایا کہ ’’امریکہ مائیک پومپیو اور وزیراعظم عمران خان کی بات چیت سے متعلق اپنے بیان پر قائم ہے جس میں تمام دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی فیصلہ کن کارروائی کی اہمیت پر بات کی گئی تھی‘‘۔ لیکن اب مائیک پومپیو ستمبر میں پاکستان آرہے ہیں، اسلام آباد میں وہ کیا گفتگو کرتے ہیں اور اسلام آباد سے واشنگٹن کو کیا جواب ملتا ہے، ہم اس کے منتظر ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کو امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلی فون کال کی اڑائی ہوئی گرد سنبھالنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے جڑا معاملہ بھی سنبھالنا پڑا ہے۔ ملکی خارجہ پالیسی میں بھارت ایسا ملک ہے جسے اس کے مکروہ عزائم کی وجہ سے کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں اپنی پہلی بریفنگ کے بعد مژدہ سنایا کہ بھارت سے سندیسہ آیا ہے جس میں مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس بیان کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارت کا ردعمل آیا کہ مذاکرات شروع کرنے کی کوئی پیش کش نہیں کی۔ دفتر خارجہ اس بات پر بھی پریشان ہے کہ وزیراعظم نے مشاورت کیے بغیر ہی بھارت کو کیرالہ کے سیلاب زدگان کے لیے مدد فراہم کرنے کی پیش کش کردی، جب کہ اس پیش کش سے پہلے ہی بھارت کسی بھی ملک سے مدد نہ لینے کا اعلان کرچکا تھا۔ دفتر خارجہ کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے بھارت کو ایسی پیش کش نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اوپر تلے ہونے والے ان دو واقعات پر دفتر خارجہ کے پالیسی ساز اور سفارت کار حکومت کے اس اناڑی پن سے بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے اپنے پہلے سو دنوں میں آزاد، خودمختار خارجہ پالیسی بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن بھارتی اور امریکی مؤقف کے جواب میں حکومت نے جس کمزور طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے کسی طرح بھی آزاد، خودمختار خارجہ پالیسی کی عکاسی نہیں ہورہی۔ حکومت کو امریکہ اور بھارت کے بچھائے ہوئے جال کو سمجھنا چاہیے تھا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان کوئی نئی بات نہیں، یہ اس کا متعصبانہ، جھوٹا اور پرانا مؤقف ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، پاکستان کی جانب سے یہ مؤقف کبھی تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن ہماری حکومتیں ڈومور پر سر خم ضرور کرتی رہی ہیں، اسی لیے امریکہ ہمیں دبائو میں لاتا رہتا ہے۔ اب پاکستان میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت آتے ہی اُس نے اپنا یہ پرانا مؤقف دہرا دیا ہے۔ اس کا مقصد اسلام آباد پر دبائو بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اُس کی خواہش پر اُس کی مدد کرے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان کو اس کا کریڈٹ ملے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ کا مؤقف بدلتا رہتا ہے، کبھی وہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردیتا ہے اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹیڑھی کھیر ہے تو مذاکرات کی بات چھوڑ کر طاقت کے ذریعے افغان مسئلہ حل کرنے کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ سالِ رواں کے شروع میں امریکی صدر ٹرمپ نے اِس بات پر زور دیا تھا کہ افغان مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کیا جائے گا اور امریکہ دشمنوں کو سبق سکھایا جائے گا، لیکن جب کابل سمیت افغانستان کے حالات پہلے سے زیادہ دِگرگوں ہوگئے اور مزید علاقے طالبان کے کنٹرول میں جانے لگے تو اس نے ایک بار پھر مذاکرات کی بات شروع کردی۔ طالبان اگر مذاکرات کی میز پر نہیں آتے تو وہ جھنجھلا کر اِس ضمن میں پاکستان کوگھسیٹنا شروع کردیتا ہے، غالباً امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا پاکستان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں،لیکن پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ طالبان کو زبردستی مذاکرات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔جب یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے تو پھرامریکہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ پاکستان چونکہ خلوصِ نیت سے کوشش ہی نہیں کررہا اِس لیے طالبان مذاکرات نہیں کرتے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چاہے اور طالبان مذاکرات نہ کریں! یہیں سے طالبان کے بارے میں غلط اندازے لگائے جاتے ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کا بیان بھی اسی سوچ اور پالیسی کا مظہر ہے، جسے کھل کر مسترد کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ میں اس پر مکمل بحث ہونی چاہیے۔

صدارتی انتخاب

ملک میں صدارتی انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا، تحریک انصاف نے عارف الرحمن علوی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہےجب کہ پیپلزپارٹی نے اعتراض اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل نے مولانا فضل الرحمن کو نامزد کیا ہے۔ صدر کے انتخاب کے لیے آئین کی آٹھویں ترمیم کی روشنی میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں الیکٹورل کالج ہیں، اس سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان ہی صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالتے تھے۔ یوں فضل الٰہی چودھری اس ملک کے پہلے اور آخری صدر تھے جو 1973ء کے آئین کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ووٹ سے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد ضیاء الحق دور میں عبوری آئینی پیکیج تیار ہوا جس کی توثیق غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب قومی اسمبلی اور سینیٹ نے کی تو آٹھویں ترمیم میں یہ فارمولا طے پایا کہ صدر کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ ساتھ چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی الیکٹورل کالج کا حصہ ہوں گی۔ آئین میں اس ترمیم کے بعد جنرل ضیاء الحق نے سب سے پہلے اس الیکٹورل کالج سے اپنے لیے اعتماد کا ووٹ لیا، بعد ازاں غلام اسحاق خان جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد صدر منتخب ہوئے، پھر سردار محمد فاروق خان لغاری، اُن کے بعد محمد رفیق تارڑ، پرویزمشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین… اور اب ان کے بعد نئے صدر منتخب ہوں گے۔ الیکٹورل کالج میں اس وقت قومی اسمبلی کے342 ارکان میں سے330 ارکان موجود ہیں، سینیٹ کے104 ارکان ہیں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے مساوی ارکان ووٹ ڈالیں گے۔ بلوچستان کے ووٹ 65 ہیں، یوں پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان میں 5.7 ارکان کا ایک ووٹ ہوگا، سندھ کے 168 ارکان میں2.5 ارکان کا ایک ووٹ ہوگا، کے پی کے میں 124 ارکان میں1.90 ارکان کا ایک ووٹ ہوگا۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے 176 ارکان ہیں، متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد150 ہے، سینیٹ میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کی تعداد11 ہے، اور اپوزیشن کے پاس52 ووٹ ہیں، پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے ووٹ189 ہیں اور اپوزیشن کے پاس171 ووٹ ہیں، سندھ میں تحریک انصاف کے پاس26 ووٹ ہیں، یہاں ایم کیو ایم کے ووٹ بھی حکومت کو ملیں گے، اپوزیشن کے پاس38 ووٹ ہیں، کے پی کے میں تحریک انصاف کے پاس45 ووٹ ہیں، یوں اس وقت قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں موجودہ ارکان کی تعداد کے اعتبار سے تحریک انصاف اور اپوزیشن کے مابین ووٹوں کا فرق صرف چار ووٹ کا ہے، تحریک انصاف اور اپوزیشن کے لیے فاٹا اور آزاد ارکان کے ووٹ اہمیت اختیار کر گئے ہیں، یہ ووٹ جس کو بھی مل گئے، صدارتی انتخاب کا معرکہ بھی وہی جیت جائے گا۔ یہ معرکہ سر کرنے کے لیے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد تشکیل دیا۔ اتحاد کا اعلان شکست کھانے والی جماعتوں کے کارکنوں کے لیے امید کی کرن تھا، لیکن یہ کرن کہیں کھوگئی ہے۔

چودھری نثار کی پراسرار خاموشی

اکثر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے ناراض رہنما چودھری نثار علی خان، پنجاب اسمبلی کی نشست جیت جانے کے باوجود کیوں اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہورہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کی طرح چودھری نثار علی خان بھی اپنے انتخابی نتیجے سے مطمئن نہیں ہیں، انہیں بھی شکایت ہے کہ انتخابی نتیجہ تبدیل کیا گیا ہے، مگر وہ حکمت عملی کے تحت خاموش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں حصہ لوں اور کامیاب بھی ہوجائوں۔ انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ اگر وہ انتخابی نتیجے کے بارے میں بولے تو پھر ضمنی انتخاب میں کامیابی مشکل ہوسکتی ہے۔ انہیں یہ بھی خیال تھا کہ مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ نہ لینے پر تحریک انصاف ان کی سپورٹ کرے گی، جب کہ تحریک انصاف سمجھتی رہی کہ اگر انہیں کامیاب کرانے کے لیے سپورٹ کی گئی اور انہوں نے جیت کر تحریک انصاف کا ساتھ نہ دیا تو خرابی ہوگی، اسی لیے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا کیا گیا۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے، ضمنی انتخاب میں چودھری نثار علی خان حصہ لیتے ہیں تو انتخاب سے قبل شرائط طے کرنے کے بعد ہی تحریک انصاف ان کی کھل کر یا خاموش حمایت کرے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ چودھری نثار علی خان اور تحریک انصاف میں کن شرائط پر معاملہ طے ہوتا ہے۔ شرائط طے ہوگئیں تو وہ قومی اسمبلی کے لیے ضمنی انتخاب میں حصہ لیں گے، دوسری صورت میں جیتی ہوئی صوبائی نشست بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ بہت بہادر، دلیر اور حق اور سچ بات کہنے والے رہنما ہیں، لیکن اپنے انتخابی نتیجے کے بارے ان کی پراسرار خاموشی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ انہیں علم ہے کہ کب کھڑا ہونا اور کب لیٹ جانا بہتر ہے، لیکن اس بار وہ تحریک انصاف اور اپنے دوستوں سے بھی دھوکا کھا گئے۔