غصہ، اسباب، نقصانات، بچنے کی تدبیریں

حکیم قاضی ایم۔ اے۔ خالد
غصہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان میں اس کے مزاج کے خلاف بات یا کام سے طاری ہوتی ہے۔ یہ ایک ہذیانی کیفیت ہے جو اس قدر تیزی سے پیدا ہوتی ہے کہ بدنِ انسانی کا تمام نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، خاص طور پر نظامِ اعصاب اور نظامِ ہضم زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بدن میں ایسے کیمیائی اجزا کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو کسی شدید حملے کی صورت میں بدن اپنے بچائو کے لیے پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں دیگر علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔
اسباب:
غصے کے چند اہم اسباب درج ذیل ہیں:
1۔نیند کا پورا نہ ہونا، 2۔کسی کام میں ناکامی،3۔معاشی تنگی، 4۔تنائو بھری زندگی، 5۔لگاتار طویل بیماری،6۔ مایوسی یا ناامیدی، 7۔ شور زدہ ماحول
بعض اوقات انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے اور گالی گلوچ پر اُتر آتا ہے۔ غصے کی کیفیت سے باہر آنے پر تھکاوٹ ہوجاتی ہے اور بدن ٹوٹتا یا جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔
غصہ ایک فطری، نفسیاتی کیفیت ہے، لیکن جب یہ بار بار ہوتی ہے تو اس سلسلے میں پیدا ہونے والے کیمیائی اجزا کی مقدار بدن میں بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں قلب کی حرکت اور بلڈ پریشر بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے امراض بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
غصے سے ہضم و جذب کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ذیابیطس بھی ہوسکتی ہے۔ غصے پر تحقیقات کرنے والوں کے مطابق غصہ مندرجہ ذیل امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
٭معدے کے زخم کی شکایت ہوجاتی ہے۔
٭خون میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
٭صفراوی مزاج والوں میں غصہ یرقان پیدا کرسکتا ہے۔
٭خون کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سکڑ کر کئی دیگر امراض بھی پیدا کرسکتی ہیں۔
٭دل کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔
٭غصے سے آنتوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
٭قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے۔
٭غصہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔
٭غصہ حملۂ قلب کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
٭اس سے سر کا درد بڑھ جاتا ہے۔
٭غصہ نظام اعصاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
٭غصہ زیادہ کرنے سے انسان قوتِ یادداشت کھو سکتا ہے۔
٭غصے سے فالج کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
٭غصہ غور و فکر کی صلاحیت کو کم کردیتا ہے۔
بچنے کی تدبیریں:
غصے کو دورکرنے کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کرنے چاہئیں:
1۔ماحول میں تبدیلی پیدا کریں، یعنی اشتعال پیدا کرنے والے ایسے حالات سے مریض کو دور رکھنے کی کوشش کریں جو اس کی طبیعت کے خلاف ہوں۔ گھریلو کشیدگی اگر اس کا باعث ہو تو گھر والوں کو سمجھائیں اور مریض کو دوستانہ ماحول فراہم کریں۔
2۔مریض کی سوچ اور عادات میں تبدیلی پیدا کریں۔ غصے کے مریض کو سمجھایا جائے کہ وہ اکیلے بیٹھ کر اپنی منفی سوچوں کو مثبت سوچوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ احساسِ برتری کا شکار ہے تو اسے دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے سے احتراز برتنا ہوگا۔ عموماً اعلیٰ عہدوں پر فائز بعض ایسے افراد دفتر کے علاوہ گھر اور روزمرہ معاملات میں احساسِ برتری کا شکار ہوتے ہیں اور طبیعت کے خلاف عمل یا قول پر فوراً غصے میں آ جاتے ہیں۔
3۔مریض کے جسم کو تسکین اور ٹھنڈک پہنچانے والی ادویہ کھلائیں۔
4۔مریض کے نظام ہضم، خصوصاً جگر کے کام کرنے کی صلاحیت پر توجہ دیں۔
غصے کا علاج اور جدید تحقیق:
امریکہ میں ایک حالیہ تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ غصے کی حالت میں ایک گلاس لیموں کے شربت میں ایک چمچہ چینی ملا کر پینے سے انتہائی کم وقت میں طبیعت کی اشتعال انگیزی دور ہوجاتی ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق چینی ملا شربت خون میں فوراً شامل ہوکر دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے، کیوں کہ غصے کی حالت، مزاج کی برہمی یا اشتعال کی صورت میں خون میں شامل گلوکوز میں کمی ہوجاتی ہے، جس سے دماغ کو توانائی نہیں ملتی۔
تحقیق کے معاون سربراہ اور اوہائیو اسٹیٹ یونی ورسٹی میں شعبہ ٔابلاغیات و نفسیات کے پروفیسر بریڈ بشمین کا کہنا ہے کہ غصے یا اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے اور ہر فرد کو اپنے مزاج پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ گلوکوز آپ کے دماغ کو زیادہ توانائی فراہم کرسکے۔
ایک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے کہ غصہ آجائے تو بیٹھ جائیے۔ اگر زیادہ غصہ آجائے تو لیٹ جائیے۔
ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ غصے میں خاص قسم کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں، جو انسانی افعال میں تبدیلی لاتے ہیں اور ان پر قابو پانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور دماغ کے اہم حصے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق بھی اس امر کی نشان دہی ہوئی ہے کہ غصے کا فوری علاج بیٹھ جانے اور لیٹ جانے میں ہے، جس سے یہ کیفیت اعتدال پر آجاتی ہے۔
غصے کی حالت میں بیٹھ جانے یا لیٹ جانے سے دل کی دھڑکن میں کمی آجاتی ہے۔ بلڈ پریشر نارمل ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سچے ہیں، جن کی تائید آج جدید طبی سائنس بھی کررہی ہے۔
٭ پانی پی لیں، غصہ آگ ہے اورآگ کو بجھانے کے لیے پانی کافی ہے۔
٭ وضو کرلیں، وضو اندرونی آگ کو خودبخود بجھا دے گا۔
٭ تعوذ پڑھیں، جب شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں تو غصہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔

پیشاب کا نظام کس طرح کام کرتا ہے؟۔

انسانی جسم میں پیشاب کے نظام کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ تحول غذا یعنی غذا کے جسم کا حصہ بننے کے بعد اس کی جو ضمنی پیداوار ہوتی ہے اور جسم میں اس کی موجودگی فساد کا باعث بن سکتی ہے، انہیں وہ جسم سے باہر خارج کردے۔ اس عمل کی کئی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر یہ نظام دو گردوں، پیشاب کی دو نلکیوں (Ureters)، مثانہ، دو عضلاتی چھلوں (Sphineters) جن میں سے ایک اندرونی اور ایک بیرونی ہوتا ہے اور ایک نائزہ (Urethra) پر مشتمل ہوتا ہے، اور یہ تمام چیزیں آنتوں، پھیپھڑوں اور جلد کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور جسم سے فاضل پیداواری مادے کو خارج کرنے میں معاونت کرتی ہیں۔ پیٹ کے نچلے حصے میں خون کی جو موٹی نالی یا آورطہ (Aorta) ہوتی ہے، وہ اس نظام کے لیے ایک اہم شریان سمجھی جاتی ہے، کیونکہ خون کی یہی نالی پیشابی شریان اور ورید کو خون بہم پہنچاتی ہے جن سے گردوں کو خون پہنچتا ہے۔ ہمارے دونوں گردے اس خون کو چھان کر یا فلٹر کرکے فاضل مادوں کو الگ کرتے ہیں جیسے کہ یوریا (Urea) ہے جو اس وقت بنتا ہے جب امینو ایسڈ تحول غذا میں شامل ہوتا ہے۔ جسم کے دیگر حصوں مثلاً دماغ کے ایک حصے ’’ہاپو تھلامس‘‘ سے رابطے کے ذریعے گردے جسم میں پانی کی سطح کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ یہی گردے جسم میں دیگر الیکٹرولائٹس کے ساتھ سوڈیم اور پوٹاشیم کی سطح بھی ایک حد کے اندر رکھتے ہیں، بلڈ پریشر اور خون میں تیزابیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہارمون (Erythropoletin) کی تخلیق اور اخراج کے ذریعے خون کے سرخ خلیات کی پیداوار میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب گردوں کے ذریعے خون میں موجود فاسد زہریلے مادے چھان کر الگ کردیے جاتے ہیں تو یہ فاضل پیداوار پیشاب کی نلکیوں کے راستے مثانے تک پہنچا دی جاتی ہے۔ مثانے میں پیشاب جمع کرنے کے لیے مثانے کی دیواریں پھیل جاتی ہیں اور جب مثانہ بھرنے کے قریب ہوتا ہے تو دماغ جسم کو پیشاب کے اخراج کی ہدایت کرتا ہے، جس کے بعد ہم واش روم کا رخ کرتے ہیں اور نائزے کے راستے پیشاب کا اخراج مکمل ہوتا ہے۔ مثانے کے اندرونی اور بیرونی عضلاتی چھلے اس دوران پیشاب کے اخراج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر یہ Sphineters کام نہ کریں تو پیشاب کو روکے رکھنا یا خارج کرنا ممکن نہ ہو۔ اوسطاً ایک عام انسان صرف ایک دن میں ڈھائی لیٹر سے تین لیٹر تک پیشاب تیار کرسکتا ہے، تاہم اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے اور اس کا انحصار بیرونی عوامل مثلاً کتنا پانی پیا گیا، پر ہوسکتا ہے۔
گردوں کا پیچیدہ نظام:
ہمارے گردے ایک دن میں اندازاً ایک سو پچاس سے ایک سو اسّی لیٹر خون صاف کرتے ہیں، لیکن خون سے جو فاسد مادے وہ باہر نکالتے ہیں ان کی مقدار تقریباً دو لیٹر ہوتی ہے جو پیشابی نلکیوں کے راستے مثانے میں جمع ہوتے ہیں اور پھر وہاں سے باہر خارج ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گردے خون کی ایک بڑی مقدار کو فاسد مادوں سے الگ کرنے کے بعد واپس دل کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان میں دوبارہ آکسیجن شامل ہوسکے اور ایک بار پھر آکسیجن سے لبریز خون پورے جسم میں گردش کرسکے۔ گردے جس طرح یہ کام کرتے ہیں اس کو آپ یوں سمجھیں کہ گردوں میں بہت ہی چھوٹے فلٹرنگ یونٹ ہوتے ہیں جنہیں نیفرون (Nephron) کہتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی چھلنیوں سے ہمارا خون گزرتا ہے۔ ہر گردے میں ان چھلنیوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہوتی ہے۔ یہ فلٹرنگ یونٹس خون کی بے شمار چھوٹی چھوٹی باریک نالیوں اور ایک ٹیوب پر مشتمل ہوتے ہیں جسے Renal Tubule کہتے ہیں۔ خون کی یہ باریک نالیاں خون سے نارمل خلیات اور پروٹینز دوبارہ جسم میں گردش کرنے کے لیے چھان لیتی ہیں اور جو فاضل پیداوار ہوتی ہے، اسے ’’رینل ٹیوبول‘‘ (Renal Tubule) میں بھیج دیتی ہیں۔ یہ فاضل مادہ جو ابتدائی طور پر یوریا پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں پانی شامل ہوکر پیشاب کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے بعد یہ پیشاب ’’رینل ٹیوبول‘‘ سے گزر کر پیشاب کی نلکیوں سے ہوتا ہوا مثانے میں جمع ہوجاتا ہے۔