افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا اثر افغان حکومت میں اعلیٰ سطح پر پیدا ہونے والے اختلافات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس کا تازہ ثبوت قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر کے علاوہ وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی، وزیر داخلہ واعظ برمک اور افغان انٹیلی جنس چیف معصوم ستانکزئی کی جانب سے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا ہے۔ افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان استعفوں کا سبب متذکرہ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں پر طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی روک تھام میں ناکامی بتایا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب غیر جانب دار افغان ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ استعفے امریکی دبائو پر دیئے گئے ہیں، جس کا مقصد افغانستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو جواز بناکر افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کو نہ صرف جائز ثابت کرنا ہے بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق عین ممکن ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے بجائے یہاں اپنی افواج میں مزید اضافہ کرنے کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے جس کا واحد مقصد دنیا کے اس اہم ترین خطے میں اپنی موجودگی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کا استعفیٰ تو قبول کرلیا ہے لیکن انھوں نے وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور انٹیلی جنس چیف کو اپنے استعفے واپس لیتے ہوئے کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ حنیف اتمر کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ قومی سلامتی کے معاملے پر افغان قومی اتحادی حکومت کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات ہیں۔ افغان اتحادی حکومت میں پائے جانے والے اختلافات اس قدر شدید ہیں کہ کوئی بھی فریق اصل حقائق پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس سے امن و امان کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگڑتا جارہا ہے۔ افغان حکومت میں ملکی سلامتی سے متعلق اختلافات پچھلے دنوں اُس وقت کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے جب طالبان نے کابل قندھار مرکزی شاہراہ پر واقع ایک اہم جنوب مشر قی صوبے غزنی کے دارالحکومت غزنی پر ہلہ بولتے ہوئے نہ صرف افغان سیکورٹی فورسز کو پسپائی پر مجبور کرنے کے بعد اس قبضے کو چار دن تک بر قرار رکھ کر جہاں افغان سیکورٹی فورسز کی کارکر دگی اور ان کی ملکی معاملات پر کنٹرول کی اصل حقیقت کوآشکارا کردیاتھا وہیں دنیا کو بھی ایک بار پھر یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ وہ آج بھی نہ صرف ایک زندہ حقیقت ہیں بلکہ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دور دراز کے علاقوں کے علاوہ دارالحکومت کابل کے درودیوار بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ طالبان پچھلے کچھ عرصے سے کابل کے جس حساس سے حساس اور ریڈ زون قرار پانے والے علاقے کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں وہ بلاروک ٹوک ان علاقوں کو نشانہ بناکر امریکہ اور افغان حکومت کو اپنے توانا وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ وزارتِ دفاع، داخلہ، مختلف سفارت خانوں اور کابل ائرپورٹ کو بار بارنشانہ بنائے جانے کے علاوہ گزشتہ دنوں قصرِ صدارت کو طالبان کی جانب سے اُس وقت راکٹ کا نشانہ بنایاگیا جب افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی یوم استقلال کے سلسلے میں قوم سے میڈیا پر براہِ راست خطاب کررہے تھے۔ گو اس راکٹ حملے سے اشرف غنی یا اُن کے عملے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن قصرِ صدارت میں منعقد ہونے والی ایک قومی تقریب پر دن کی روشنی میں طالبان کا راکٹ حملہ افغانستان کی سیکورٹی کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں، اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ غزنی پر طالبان کے حالیہ حملے اور قبضے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس قبضے کو چھڑانے کے لیے امریکی فضائیہ حرکت میں نہ آتی تو یہ قبضہ چھڑانا افغان سیکورٹی فورسز کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یاد رہے کہ طالبان اس سے پہلے قندوز اور لشکرگاہ کے صوبائی دارالحکومت پر بھی اسی نوعیت کے حملے کرکے وقتی طور پر ان شہروں کا قبضہ سنبھالتے رہے ہیں اور اس نوع کے واقعات کے تناظر ہی میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کا عملاً ملک کے پچاس فیصد رقبے پر قبضہ ہے، اور امریکہ اگر اپنے 48 اتحادیوں کی ڈیڑھ لاکھ افواج کے ساتھ طالبان کا خاتمہ نہیں کرسکا ہے تو اب وہ اپنی دس پندرہ ہزار فوج کے ساتھ ایسی حالت میں طالبان کو کیونکر شکست دے سکے گا جب ایک جانب اس کے اکثر اتحادی ایک ایک کرکے افغان دلدل سے اپنی فوجیںنکال چکے ہیں اور دوسری جانب طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کو امریکہ کی دو حریف قوتوں روس اور ایران کی طرف سے امداد ملنے کے بعض واضح شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے روس اور ایران پر طالبان کی پشتی بانی کے سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، اور دوسری جانب پچھلے کچھ عرصے سے چین اور روس افغان قضیے کے حل کے لیے امریکی اعتراضات کے باوجود بین الاقوامی سطح پر جس طرح متحرک ہوئے ہیں اس سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ طالبان بین الاقوامی سطح پر نہ صرف اپنا وجود منوانے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ وہ اپنی کامیاب ڈپلومیسی کے ذریعے خطے کے تین اہم ممالک روس، چین اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات سفارتی اور سیاسی طور پر بھی بہتر بناچکے ہیں، جس کا واضح ثبوت چین کی جانب سے افغان امن عمل کے لیے چار فریقی اجلاسوں کے تسلسل سے انعقاد کے علاوہ روس کی طرف سے 14 ممالک پر مشتمل ورکنگ گروپ کا قیام، اور اس گروپ کے ماسکو میں منعقد ہونے والے اجلاس ہیں۔ واضح رہے کہ اس ورکنگ گروپ کا ایک اجلاس جو 4 ستمبر کو ماسکو میں منعقد ہونا تھا اور جس کے لیے تمام شرکاء کو دعوت نامے بھی جاری ہوچکے تھے، کو گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی کی درخواست پر ملتوی کردیا گیا ہے۔ افغان قصرِ صدارت سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس افغان صدر کی روس کے وزیر خارجہ سر گئی لاروف سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کی روشنی میں ملتوی کیا گیا ہے جس میں افغان صدر نے روسی وزیر خارجہ سے درخواست کی تھی کہ اس اجلاس کو کارآمد بنانے کے لیے پہلے ایک وسیع البنیاد افغان ڈائیلاگ کا اہتمام ہونا چاہیے، اس کے بعد ہی ماسکو طرز کی پیش رفت کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔
اسی اثناء افغان تاجک سرحدی صوبے تخار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دو دن قبل افغان تاجک بارڈر پر واقع دشت قلعہ ضلع میں تاجک طیاروں کی بمباری سے 8 مشتبہ افراد ہلاک جبکہ 6 زخمی ہوگئے ہیں، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ طالبان جنگجو تھے۔ جبکہ دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان پڑوسی ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور تاجکستان کے بارڈر پر طالبان کی نہ تو تاجک فورسز سے کوئی جھڑپ ہوئی ہے اور نہ ہی تاجک طیاروں کی بمباری سے طالبان مجاہدین جاں بحق ہوئے ہیں۔ دوسری جانب روس کی وزارتِ دفاع نے بھی روسی نیوز ایجنسی RIA کے توسط سے ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ روسی جیٹ طیاروں نے افغان تاجک بارڈر پر کسی قسم کی بمباری کی ہے۔ روسی وزارتِ دفاع کو یہ تردیدی بیان ان اطلاعات کے بعد جاری کرنا پڑا ہے جن میں کہا گیا تھاکہ افغان تاجک سرحد پر ہونے والی بمباری روسی جنگی طیاروںنے کی تھی جس میں آٹھ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ بمباری چند روز قبل دو تاجک سرحدی گارڈز کی منشیات کے بین الاقوامی اسمگلروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں ہلاکت کے بعد کی گئی ہے جس کے بارے میں صوبہ تخار کے گورنر کے ترجمان محمد جاوید ہجری اور پولیس ترجمان خلیل اثیر کا کہنا ہے کہ دو دن قبل ہونے والی جنگی طیاروں کی بمباری درقد ضلع میں دو تاجک سرحدی گارڈز کی اسمگلروں کے ہاتھوں ہلاکت کے ردعمل میں کی گئی ہے جس میں مبینہ طور پر آٹھ اسمگلروں کی ہلاکت اور چھ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اس تمام تر بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ افغانستان کی صورت حال جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے، کا تقاضا ہے کہ افغان حکومت اور بالخصوص امریکہ کو جتنا جلدی ہوسکے اس بات کا ادراک کرلینا چاہیے کہ پُرامن اور مستحکم افغانستان کا خواب تبھی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب وہ طالبان کو ایک ٹھوس برسرِ زمین حقیقت سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ نہ صرف برابری کی بنیاد پر مذاکرات کی میز بچھائیں گے، بلکہ اس ہمہ گیر عمل میں روس، چین، ایران اور پاکستان سمیت وسطی ایشیا کے اُن ممالک کو بھی برابر کی نمائندگی دیں گے جن کا اپنا امن اور استحکام بھی افغانستان کے امن اور استحکام سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ایسی کسی صورت کے بغیر افغان امن کے حوالے سے اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ناپائیدار اور غیر فطری تصور ہوگا۔
امریکی سینیٹر جان مک مکین کی موت
امریکی سیاست دان اور سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان مک کین 81 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کے دماغ میں جولائی 2017ء میں رسولی کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کے بعد سے وہ علاج کروا رہے تھے۔ مک کین چھ بار سینیٹر رہے اور ری پبلکن پارٹی کی طرف سے 2008ء میں بارک اوباما کے مقابلے پر صدارتی انتخاب لڑا لیکن ناکام ہوگئے۔ مک کین کے والد اور دادا دونوں نیوی میں ایڈمرل رہے ہیں۔ خود مک کین ویت نام جنگ میں فائٹر پائلٹ رہے۔ اس دوران ان کا جہاز مار گرایا گیا اور وہ پانچ سال تک ویت نام کی قید میں رہے۔
مک کین دوسری جنگ ِ عظیم کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ زندگی بھر امریکہ کا دفاع کرتے رہے۔ اپنے آخری دور میں وہ کئی بار صدر ٹرمپ سے نبرد آزما ہوئے۔ انھیں ری پبلکن پارٹی کی سمت سے بھی اختلاف تھا، لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی حکمتِ عملی پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں واشنگٹن کی سولہ سالہ فوجی موجودگی کے بعد بھی امریکہ کے پاس وہاں سے نکلنے اور افغانستان کی جنگ کو ختم کرانے کے لیے ابھی تک کوئی واضح اسٹریٹجی نہیں ہے۔ امریکہ کو اب افغانستان میں بندگلی سے باہر نکلنے کے لیے ایک اسٹریٹجی اپنانا ہوگی۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جان مکین نے مشرق وسطیٰ کے ممالک، افغانستان اور پاکستان کے متعدد دورے کیے اور ان کی تجاویز امریکی پالیسیوں کی صورت میں سامنے آتی رہیں۔ مثلاً جان مکین اور لنڈسی گراہم نے دورۂ عراق کے موقع پر بغداد میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران یہ تجویز پیش کی کہ امریکہ سے باہر کے سنی مسلمان جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کیا جائے، جس میں کم سے کم ایک لاکھ جنگجو شامل ہوں۔ انہیں شام اور عراق میں سرگرم ’’داعش‘‘ کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جائے۔ ایران میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے2017ء میں ان کا بیان سامنے آیا تھا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ ایرانی عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کے واسطے ایران میں نظام کو تبدیل کیا جائے‘‘۔
بین الاقوامی تعلقات اور قانون کے ماہر پروفیسر جوناتھن گراؤپارٹ نے مک کین کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ایک جنگی مجرم ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ایسی شخصیت جو سیاسی میدان میں خوفناک افعال کو سراہتی رہی۔ جان مک کین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ویت نام میں گرفتاری کے دوران میں مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں، میں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میں نے خواتین اور بچوں پر جان بوجھ کر بمباری کی تھی، مجھے نہیں اندازہ تھا کہ میں یہ سب کچھ بتادوں گا، لیکن میں نے بتایا۔