محمد انور
تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ اس کے خلاف مخالفین نے ہی نہیں اس کے اپنوں نے بھی آسمان سر پر اٹھالیا ہے۔ خیال تھا کہ تحریک انصاف میں جس طرح کا’’ہجوم‘‘ جمع کیا جارہا ہے وہی اسے نقصان پہنچائے گا۔ وزیراعظم عمران خان یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی تحریک کو دیگر جماعتوں سے آنے والے مشکلات سے دوچار کررہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ عمران خان قوم سے کیے گئے اپنے پہلے خطاب کے دعووں کے چنگل میں پھنس رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ سادگی اپنائیں گے اور سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کریں گے، لیکن بنی گالا سے روزانہ وزیراعظم ہائوس آنے جانے کے لیے وزیراعظم کے خصوصی طیارے کا استعمال، پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی مزار پر حاضری اور اپنے سسر کے گھر آمد کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر میں اڑان، اور وفاقی وزیر ریلوے اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی روایتی پروٹوکول میں آمد ورفت نے مخالفین کے ساتھ عام لوگوں کی زبانوں کو بھی کھول دیا ہے۔ سبھی بولنے لگے کہ پی ٹی آئی تو ’’سونامی‘‘ کی لہروں میں دعووں اور وعدوں کو بہاکر لے جارہی ہے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ ہم قانون کی حکمرانی اور عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ شیخ رشید احمد نے تو اپنے ہی محلے یعنی لال حویلی کے قریب کھڑی کی جانے والی موٹر سائیکلوں کو اپنے راستے میں رکاوٹ بننے پر گراکر اپنا غصہ اتار دیا۔ شیخ جی کا غصہ دیکھ کر لوگ حیران ہوگئے کہ یہ وہی شیخ رشید ہیں جو اپنے آپ کو عوامی لیڈر کہہ کر قریبی ڈھابے پر بیٹھ کر ناشتا کیا کرتے تھے! ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ریلوے کے افسران بھی اُس وقت پریشان ہوگئے جب شیخ رشید مسلسل دو روز تک ریلوے افسران کا اجلاس طلب کرکے وہاں افسران کی ’’ایسی تیسی‘‘ کرتے رہے اور ان سے گفتگو کے بجائے ’’بازاری زبان‘‘ میں بازپرس کرتے رہے۔ واقفانِ حال کا کہنا تھا کہ اس روز اے سی کی ٹھنڈک سے ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور کے میٹنگ روم کا درجہ حرارت کافی ٹھنڈا لیکن میٹنگ روم میں موجود افراد کا موڈ اور ماحول خاصا گرم تھا۔
ریلوے کے نئے وزیر کے ساتھ یہ میٹنگ کا لگاتار دوسرا دن تھا۔ ڈی جی آپریشنز کے بعد جی ایم کمرشل آپریشن حنیف گل کھڑے ہوئے تو شیخ صاحب کا موڈ مزید خراب ہوگیا، اور وہ ان سے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے ’’او گل صاحب تسی فیر شروع ہوگئے او…‘‘ یہ بات شیخ صاحب نے اس لیے کہی کہ حنیف گل کی پریزنٹیشن کی شروعات سے پہلے ہی وہ اپنی ناپسندیدگی اور بیزاری کا اظہار کرچکے تھے، جس پر سیکریٹری ریلوے نے شیخ رشید کے کان میں کچھ سرگوشی کی تو شیخ صاحب نے توجہ نہیں دی۔
بریفنگ دینے والے افسر نے کہا کہ سر مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ پچھلے پانچ سال میں ہم نے اپنا ریونیو 18 ارب سے بڑھاکر 55 ارب کرلیا ہے،کارگو ٹرینیں جو مکمل بند ہوچکی تھیں ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 25 بند روٹ دوبارہ آپریشنل کیے جا چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق صاحب کی کوششوں سے آن لائن ٹکٹ، ریلوے کی زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے تحت کراچی تا پشاور ڈبل لائن کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوچکا ہے، ٹرین کی رفتار80 سے بڑھ کر 120 کلومیٹر پر جا چکی ہے، اگلے مرحلے میں اسے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک لے جانے کے لیے خواجہ سعد رفیق صاحب کے حکم پر پاکستان ریلوے اب چین کے تعاون سے……‘‘ یہ سب کچھ صدرِ مجلس سے برداشت نہ ہوا تو انہوں نے ریلوے کے کمرشل افسر کی بات کاٹ کر کہا کہ ’’او گل صاحب! یہ رضیہ بٹ کا ناول بند کرو‘‘۔ اور پھر مزید کچھ بولتے رہے۔ اسی دوران چیئرمین ریلوے نے کھڑے ہوکر کہا کہ “Sorry sir, we are really sorry.”
پھر شیخ رشید نے کہا کہ ’’اور گل صاحب،
“You get lost from here. We don’t need people like you in our tea”
20 گریڈ کا افسر اپنی اس تذلیل پر شرم سے پانی پانی ہوتے ہوئے میٹنگ روم سے باہر نکل گیا۔ اگلی صبح حنیف گل نے اپنی طویل 730 دن کی چھٹی کی درخواست چیئرمین ریلوے کو ارسال کردی۔
یقین ہے کہ حنیف گل درخواست لکھنے اور جمع کرانے کے دوران یہی بڑبڑا رہے ہوں گے کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے‘‘۔
یہ تو تھی وفاقی وزیر ریلوے کی کہانی۔
اب سنیے تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے 27 اگست کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کی روداد۔ یہ نوٹیفکیشن حکومت کے محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کرکے انہیں پولیس ہیڈ آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ رضوان گوندل کے فوری تبادلے کے حکم کی وجہ اطلاعات کے مطابق یہ بنی کہ انہوں نے عمران خان کی تیسری بیوی کے پہلے شوہر خاور مانیکا اور ان کے بچوں کی شکایت پر ان کی توقعات کے مطابق فوری کارروائی نہیں کی تھی۔ بشریٰ مانیکا کے بچوں کے ساتھ پولیس نے بدتمیزی کی یا اپنا معمول کا رویہ اختیار کیا جو انہیں ناگوار گزرا، جس پر فوری طور پر ڈی پی او کو ہی ہٹادیا گیا۔ اگر پولیس کی جانب سے بدتمیزی کی گئی تھی تو پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق ایسی شکایات پر سخت کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ مثبت امر ہے۔ لیکن ایکشن صرف وزیراعظم کی اہلیہ کے رشتے داروں کی شکایات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عام افراد کی شکایات پر بھی اسی طرح کی فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔
تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد کپتان عمران خان کی مخالفت میں نومنتخب رکن قومی اسمبلی اور ٹی وی اینکر عامر لیاقت نے تو منگل کو ’’چھکا‘‘ ہی مار دیا۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’عمران خان مجھ سمیت کراچی سے منتخب ہونے والے 14 اراکین قومی اسمبلی کو نظرانداز کررہے ہیں۔ انہوں نے شکایتی انداز میں یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان حلف اٹھانے کے بعد سات دن گزر جانے کے باوجود روایت کے مطابق قائداعظم کے مزار پر حاضری دینے نہیں آئے جبکہ میں بھی انہیں مسلسل کراچی آنے کی دعوت دے رہا ہوں مگر وہ مجھے اور میری دعوت کو نظرانداز کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہم حکومتی بینچوں پر نہ بیٹھنے پر غور کررہے ہیں۔ عامر لیاقت نے یہ بیان گورنر ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں مدعو نہ کرنے پر دیا ہے اور اپنے غصے کا اظہار کردیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ عمران خان میرا لیڈر ہے، میں ہی انہیں سیدھا کروں گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو ’’سیدھا‘‘ کرتا ہے۔