وزیراعلیٰ جام کمال کا بلوچستان اسمبلی سے پہلا خطاب

نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان عالیانی نے 19 اگست کو منصب کا حلف اُٹھا لیا۔ 27 اگست کو گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر پہلے مرحلے کی گیارہ رکنی کابینہ سے بھی حلف لیا۔ کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے میر محمد عارف، محمد حسنی، نور محمد دمڑ، سردار سرفراز چاکر ڈومکی، نواب زادہ طارق مگسی، ظہور احمد بلیدی، ضیاء اللہ لانگو، سلیم احمد کھوسہ اور سردار صالح محمد بھوتانی، جبکہ تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری اور عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی شامل ہیں۔ یعنی کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 9، اور اتحادی جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔ جبکہ رکن اسمبلی مٹھا خان کو وزیراعلیٰ بلوچستان کا مشیر مقرر کردیا گیا۔ نومنتخب وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی نے ہفتہ 18 اگست کو قائدِ ایوان منتخب ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اپنی پالیسی بیان کی۔ ان کی یہ تقریر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جس میں انہوں نے اچھی حکمرانی اور صوبے و عوام کی ترقی و خدمت کے عزم کا اظہار کیا۔ جام نے کہا:
’’صوبے میں بلا امتیاز احتساب کیا جائے گا، سو دن میں تبدیلی لائیں گے، جھوٹے وعدوں کا دور گزر چکا، عوام عملی کام دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا بلوچستان کے مسائل کا حل ہے جس کے لیے ہم سب مل کر جدوجہد کریں گے، ہم صوبے میں سیاسی اور معاشی طور پر تبدیلی لائیں گے، پاکستان کی ترقی بلوچستان سے وابستہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان کو نظرانداز کیا جائے، یہ وقت بلوچستان میں کام کرنے کا ہے، آج اگر تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر کام نہیں کیا تو 2023ء کے انتخابات میں عوام ووٹ نہیں دیں گے، گورننس کو بہتر بنانا ترجیح ہے، شفافیت اور احتساب کی اہلیت رکھنے والا نظام ہو تو پھر ہم صوبے کو ترقی دے سکیں گے، کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے لیے چھ یا سات ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے، بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کے عمل کو بہتر بنائیں گے، سی پیک کے لیے صوبے میں ایک الگ سیکشن ہونا چاہیے تھا جو سی پیک کے حوالے سے کام کرتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آج جو منتخب نمائندے یہاں موجود ہیں ان پر عوام نے بھاری ذمے داریاں عائد کی ہیں۔ عوام کے مسائل بڑے پیچیدہ ہیں، موقع ملا تو ان کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ قائدِ ایوان اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے مراحل جمہوری انداز میں مکمل ہونے پر عوام کو مبارک باد دیتا ہوں، بلوچستان میں دوسری اسمبلیوں کے مقابلے میں یہ تمام مراحل جمہوری انداز میں مکمل ہوئے، بلوچستان کے عوام نے 25 جولائی کے انتخابات میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے حقِ رائے دہی استعمال کیا اور اپنے نمائندوں کو منتخب کیا، عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں گھروں سے نکل کر ووٹ دیے اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر اپنے نمائندے منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجے، اب ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ ان کی زندگیوں میں بہتری لانے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدام اٹھائیں۔ بلوچستان کی پارلیمانی جماعتوں نے انتخابات میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کیا، بدامنی کے کچھ واقعات بھی ہوئے، سانحہ مستونگ میں ہماری پارٹی کے رہنما نواب زادہ سراج خان رئیسانی شہید ہوئے، ان کے ساتھ دو سو دیگر بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ آج ہم یہاں پہنچے ہیں تو اس میں ان شہداء کا لہو بھی شامل ہے۔ انتخابات کے دن کوئٹہ میں ایک افسوسناک سانحے میں بڑی تعداد میں بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں تو شاید آج ہم یہاں نہ ہوتے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ہر قوم اور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہوں۔ یہ نقصانات ہم نے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اٹھائے ہیں اور ہم انہیں دور کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔ ہم اور ہمارے اتحادی جتنا وقت بھی یہاں گزاریں، ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔ پاکستان ایک فیڈریشن ہے، اس میں وفاق اور صوبوں کا رشتہ انتہائی اہم ہے۔ ماضی میں اس رشتے کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔ مرکز اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت کا ہونا بہتر تعلقات کے لیے کافی نہیں، بلکہ ان کے درمیان ایسے تعلقات ہوں جن سے صوبے کے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے۔ بلوچستان کے عوام ہم سب کے لیے یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ جو آج ہمارا ووٹر ہے وہ کل کسی اور جماعت کا، اور جو کسی اور جماعت کا ووٹر ہے وہ کل ہمارا ہوسکتا ہے۔ ہمیں عوام کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آچکی ہے، صوبے میں پی ٹی آئی ہماری اتحادی ہے، ان کے تعاون سے وفاق سے تعلقات کو بہتر بنائیں گے، معاشی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں گے۔ بلوچستان میں آج بھی عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوئے، کیونکہ ان کے حل کی باتیں تو کی گئیں مگر عملی کوششیں نہیں ہوئیں۔ یہاں ایوانوں میں باتیں ہوتی رہیں، مجبوریاں بیان کی جاتی رہیں اور حکومتیں جاتی رہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ہم اور ہمارے دوست یہ محسوس کررہے تھے کہ ہماری باتوں کو کسی سطح پر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، حالانکہ صوبے میں ایسی جماعتیں بھی اقتدار میں آئیں جن کی وفاق میں بھی حکومت تھی، یا وفاق میں ان کی اتحادی جماعتیں تھیں، مگر مسائل حل نہ ہوئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہماری سیاست میں ایک گھٹن ہے، اس کے بعد ایک سوچ پیدا ہوئی، ہم نے ضرورت محسوس کی اور بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام عمل میں لائے۔ انتخابات میں دوسری جماعتوں کی طرح عوام نے ہماری جماعت کو بھی بھرپور مینڈیٹ دیا، اور آج ہماری جماعت قومی اور صوبائی اسمبلی میں بلوچستان کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ عوام کے مینڈیٹ نے ہم پر بڑی ذمے داریاں عائد کی ہیں کہ ہم کس طرح ان ذمے داریوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، اگرچہ دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ہماری جماعت کا تجربہ کم ہے مگر ہمارے ساتھ انتہائی تجربہ کار سیاست دان اور پارلیمنٹیرین ہیں جن کی ایک طویل سیاست، سوچ اور وژن ہے جس کو ساتھ لے کر آگے چلیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ تمام ایوان کو ساتھ لے کر بہتری کی طرف جائیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ یہاں ماضی میں برسر اقتدار آنے والی بعض حکومتوں کو اس بات کا ادراک تک نہ تھا کہ ہم این ایف سی میں کہاں کھڑے ہیں، وفاق میں ہمارا کتنا حصہ بنتا ہے، ہمیں کیا لینا اورکیا دینا ہے۔ ہم اچھی پالیسیاں اور منصوبے بنا سکتے ہیں، عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکتے ہیں، مگر بہتر پالیسیاں اُس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوسکتیں جب تک گورننس نہ ہو۔ اگر گورننس میں احتساب اور اہلیت نہ ہو تو کرپشن کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا کے بہترین منصوبے بنائے جائیں لیکن گورننس نہ ہو تو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سینئرز پر جونیئر افسران کو مسلط کیا گیا۔ نظام میں اس طرح تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ گورننس اور بہتر اسٹرکچر بنانے کے لیے نہ صرف ہماری جماعت بلکہ تمام سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی اور عوام کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب حکومت اور اپوزیشن مل کر اپنی ذمے داریاں ادا کریں گی تو ہمارا نظام بھی ایک پٹڑی پر چل پڑے گا۔ ہم پانچ سال میں تمام مسائل کے حل کا دعویٰ نہیں کرتے، ترقی بڑی مشکل چیز ہے، ہم اسے ترقی کی راہ پر بھی ڈال سکے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ ہمارے ایجنڈے پر وفاق کو ہمارے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ تعلیم، صحت اور امن وامان اہم شعبے ہیں، امن نہ ہو تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھنا ہوگا کہ دس سال کے دوران ہم نے اپنی پولیس اور لیویز کی بہتری کے لیے کیا قانون سازی کی، انہیں سہولیات کی فراہمی اور ان کا مورال بہتر بنانے کے لیے کچھ کیا ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ دس سال میں یہ کام نہیں ہوئے۔ سرکاری افسران کو اندرون صوبہ بھیجنے سے قبل انہیں وہاں سہولیات بھی فراہم کرنی ہوں گی، ورنہ وہ واپس کوئٹہ آجائیں گے۔ صحت، تعلیم اور سیکورٹی ایسے شعبے ہیں جن کے عوام کی معاشی اور معاشرتی زندگی دونوں پر براہِ راست اثرات ہوتے ہیں۔ ہمیں صحت کے شعبے میں ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال کی استعدادِ کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لوگوں کو ایسے ہسپتالوں کی ضرورت ہے کہ انہیں کوئٹہ اور کراچی نہ جانا پڑے۔ اس عمل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کرنا اہم مسئلہ ہے، سی پیک کا اعلان تو ہوگیا لیکن بلوچستان کے لوگوں کے پاس اس طرح کے ہنر اور فنی تعلیم نہیں کہ وہ سی پیک منصوبے سے آنے والی معاشی سرگرمیوں سے استفادہ کرسکیں۔ ہم نے پچھلے پانچ سال میں پانچ پولی ٹیکنک ادارے بھی نہیں بنائے۔ صوبے میں خالی اسامیوں کا مسئلہ بھی گمبھیر ہے۔ خالی اسامیوں کی اصل تعداد اب تک معلوم نہیں، لیکن ہمیں اس حوالے سے بھی پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے کہ کن محکموں میں کتنی اسامیوں کی ضرورت ہے۔ ہم ایک پی ایس ڈی پی میں تین چار ہزار اسکیمیں ڈال دیتے ہیں جن میں سے کچھ تو بیس بیس سال چلتی ہیں، ہم اس حوالے سے جائزہ لیں گے اور ایوان کی قائمہ کمیٹیوں اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو ہدف دیں گے کہ ایسی تمام اسکیموں کی نشاندہی کریں اور آئندہ آنے والی اسکیموں کے حوالے سے ایک باقاعدہ سسٹم تشکیل دیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مالداری ہے، اگر یہاں پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ستّر فیصد لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے زراعت میں ماسوائے ٹیوب ویل لگانے کے کوئی کام نہیں کیا۔ ایسی بات نہیں کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرنا چاہتے، ہمارے پاس ایسے افسران موجود ہیں جو اپنی خدمات بہتر انداز میں دینے کے لیے تیار ہیں، ہم ایسے ہی لوگوں کو مواقع فراہم کریں گے۔ ہم تعلیم، صحت، بلدیات اور گورننس کے معاملات میں دیگر صوبوں اور پوری دنیا کو دیکھتے ہوئے یہاں کا نظام بہتر بناسکتے ہیں۔ بلوچستان کے بہت سے شہر آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں، کوئٹہ ہمارے پاس واحد بڑا شہر ہے، اس کی حالت انتہائی ابتر ہے، یہاں دس ارب روپے کس مد میں خرچ ہوئے؟ معلوم نہیں۔ ہم ایک خصوصی کمیٹی بناکر کوئٹہ پیکیج کا بھی جائزہ لیں گے۔ کوئٹہ شہر میں پارکنگ پلازے بنانے کی ضرورت ہے۔ بلڈنگ کوڈ پر بھی عمل درآمد ناگزیر ہوچکا ہے، اس حوالے سے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کچھ لوگوں کو مثال بنادیں جن سے لوگ عبرت حاصل کرسکیں۔ اگر ہم نے کوئٹہ میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا تو یہاں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے، پٹ فیڈر سے پانی لانے کا منصوبہ میری نظر میں ناممکن دکھائی دیتا ہے، اس میں بہت سے مسائل پیش آسکتے ہیں۔ ہمیں مسائل کی نشاندہی کرکے ان کا حل نکالنا ہوگا۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر وزیراعلیٰ، وزراء اور بیوروکریسی ایوان میں نہیں آئیں گے تو اراکین بھی ایوان کی کارروائی میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ اس ایوان کا تقدس ہمیں بحال کرنا ہے۔ آئندہ ہر اجلاس میں بیوروکریسی کے افسران موجود ہوں گے، جو نہیں ہوگا اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ تمام حالات کا ازسرنو جائزہ لے کر سب کچھ ٹھیک کریں۔ بلوچستان اسمبلی میں کمیٹیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ کمیٹیاں فعال ہونے سے حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی، اور ان کمیٹیوں میں خواتین اور اقلیتوں کو بھی موقع دیا جائے گا تاکہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اٹھارہویں ترمیم کو دوبارہ دیکھنا ہوگا، اگر کوئی کمی بیشی ہوئی تو اسے دور کرنے کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے چاہئیں، ایوان اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دے جو اس حوالے سے تمام معاملات کا ازسرنو جائزہ لے۔ بلوچستان کو زیادہ حق دینا چاہیے۔ سی پیک منصوبے پر اراکین کی جانب سے جو باتیں ہوئی ہیں ان کو ضرور دیکھا جائے گا، سو دن میں تبدیلی لائیں گے اور صوبے میں بلاامتیاز احتساب کریں گے۔ اگر ہم نے احتساب نہ کیا تو پھر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پی ایس ڈی پی عوام کا پیسہ ہے اور پی ایس ڈی پی کا پلان اور اس کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دیں گے، تمام تر ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے کے حوالے سے کمشنر اور ضلع افسران سے ماہانہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر رپورٹ لیں گے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ماضی میں چار چھ اضلاع میں دس دس ارب روپے خرچ ہوئے، جبکہ باقی اضلاع میں دس دس کروڑ بھی خرچ نہیں ہوئے، یہ کوئی طریقہ کار نہیں۔ بلوچستان ہم سب کا ہے اور اس کی پسماندگی کو مدنظر رکھ کر برابری کی بنیاد پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ نصیر آباد بلوچستان کا زرعی علاقہ ہے، وہاں پر پٹ فیڈر کینال کا مسئلہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے ساتھ چلا آرہا ہے، اس پر بھی چیف سیکرٹری اور ایری گیشن حکام سے بات کریں گے، اگر ضرورت پڑی تو پنجاب اور سندھ کی حکومتوں سے بھی اس مسئلے پر بات کریں گے۔ معدنیات کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بلوچستان کا یہ ایک بڑا سیکٹر ہے جس پر ہم توجہ مرکوز کریں گے۔ سرکار اور مالکان پر ذمے داریاں ہیں۔ ہم روڈ مشینری فراہم کرسکتے ہیں تاکہ اس شعبے کی بھی مدد کی جاسکے۔ ہمیں اضلاع کی حد بندیوں پر بھی کام کرنا ہوگا۔ اے اور بی ایریاز کی وجہ سے قوانین کا اطلاق مختلف ہوجاتا ہے، جبکہ سی ٹی ڈی بھی بی ایریا میں جاکر کارروائی نہیں کرپاتی۔ ہم لیویز اور پولیس کی بہتری کا نظام لائیں گے۔ اگر سی پیک آبھی جائے تو حکومت اور بلوچستان کے عوام کیا اس سے استفادہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ہمیں سی پیک کے حوالے سے ایک سیکشن بنانا ہوگا جس میں مستقل طور پر سینئر بیوروکریٹ ہوں جو چین جاکر ہمیں سی پیک کے حوالے سے معلومات فراہم کریں، اور پھر ان پر عمل درآمد کے لیے بھی کوششیں کریں۔ سی پیک کوئی بارش نہیں جس کا موسم آئے گا اور ہوجائے گی۔ ہمیں اس کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر موقع ملا تو ہم اسلام آباد میں منی سیکرٹریٹ بنائیں گے جس میں بیوروکریٹس تعینات کیے جائیں گے جو صوبے کے مفادات اور مسائل کے حل کے لیے وفاق میں اقدامات اٹھائیں گے اور ضروری امور انجام دیں گے‘‘۔