ملک و قوم کے مسائل کا حل اللہ کے عطا کردہ نظام میں ہے

’’ہم نے الیکشن ہارا ہے مگر اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا، ہم نے الیکشن میں لوگوں کو اسلامی نظام کی طرف بلایا، اپنے ضمیر اور نظریے کو مصلحتوں کا شکار نہیں ہونے دیا۔ جب چاروں طرف باطل کے اندھیرے تھے، سید مودودی ؒ کی تحریک پر چند افراد نے حق کا چراغ روشن کیا، اور آج سید مودودیؒ کی یہ تحریک پوری دنیا میں اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ ہمارا پہلے دن سے آج تک ایک ہی بیانیہ ہے کہ ملک و قوم کے مسائل کا حل اللہ کے عطا کردہ نظام میں ہے۔‘‘
ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے جماعت اسلامی کے 77 ویں یوم تاسیس کے حوالے سے جماعت اسلامی لاہور کے زیراہتمام فلیٹیز ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، پارلیمانی امور سے متعلق بین الاقوامی شہرت کی حامل تنظیم ’’پلڈاٹ‘‘ کے چیئرمین اور جامعہ ہندسیہ لاہور کی طلبہ یونین کے سابق صدر احمد بلال محبوب، امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد اور انجینئر اخلاق احمد نے بھی خطاب کیا۔
تقریب کا آغاز عبدالرحیم چترالی صاحب کی پُرسوز آواز میں تلاوتِ کلام ربانی سے ہوا، جس کے بعد سید محمد کلیم نے اکبر الٰہ آبادی مرحوم کی نعتِ رسولِ مقبولؐ پیش کی ؂

یہ جلوۂ حق، سبحان اللہ، یہ نورِ ہدایت کیا کہنا
جبریلؑ بھی ہیں شیدا ان کے، یہ شانِ نبوتؐ کیا کہنا

تلاوت و نعت کے بعد پلڈاٹ کے چیئرمین احمد بلال محبوب نے نپے تلے الفاظ اور منجھے ہوئے انداز میں اپنی گفتگو میں کہا کہ جماعت اسلامی نے سیاست کو اعتبار بخشا، حالانکہ ہمارے معاشرے میں عموماً اعتبار اور اعتماد کا سیاست میں کوئی تصور موجود نہیں۔ جماعت اسلامی جیسی باوقار تنظیم اور تحریک کا یوم تاسیس دراصل اس کے لیے خوداحتسابی کا دن ہے کہ اب تک کیا کامیابیاں اس کے حصے میں آئیں اور آئندہ کیا چیلنج درپیش ہیں۔ اپنے قیام کے 77، خصوصاً قیام پاکستان کے بعد کے 70 برسوں میں جماعت اسلامی کی نہایت اہم کامیابی یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور قوت کے سرچشموں سے ہمیشہ دور رہنے اور قیام پاکستان کا سہرا بھی سر پر نہ ہونے کے باوجود جماعت اسلامی نے اپنے بیانیہ کی صداقت کو اس ملک میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرایا ہے جو یقیناًایک صدقۂ جاریہ ہے۔ اس بیانیہ کی تیاری میں زبردست دانش، دوراندیشی اور سوچ بچار سے کام لیا گیا اور اسے تسلیم کرانے کے لیے دیگر جماعتوں کا تعاون بھی کامیابی سے حاصل کیا گیا۔ یہ اس بیانیہ کو عوام میں حاصل قبولِ عام کا ثمر ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو تحفظ حاصل ہوا، اور آج یہاں کا دستور اسلامی ریاست کے شایانِ شان دستور کا پرتو ہے، ورنہ تحریکِ قیامِ پاکستان کے دوران ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ‘‘ جیسے نعروں کے باوجود قیام پاکستان کے بعد اس مملکتِ خداداد کو شناخت کے بحران سے دوچار کرنے کی بھرپور اور سوچی سمجھی کوششیں کی گئیں۔ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ملک کو اسلامی شناخت عطا کرنے والی جماعت اسلامی کو آج خود شناخت کا بحران درپیش ہے۔ جماعت نے 77 برسوں میں اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے بحرانوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے مگر اب جس بحران کا سامنا ہے وہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ یہ بے آواز ہے، اس لیے اس کے مقابلے کی سوچ اور احساس کا بھی فقدان ہے۔ عام انتخابات میں سکڑتی ہوئی عوامی تائید اس بات کا مظہر ہے کہ جماعت کے پیغام کو عوامی قبولیت نہیں مل سکی۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد تمام امور پر ازسرنو غور ضروری ہے اور یقیناًجماعت کے ادارے اس پر غور کر بھی رہے ہوں گے۔ ’’خشک سالی‘‘ کوئی انہونی بات نہیں، دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو اس سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جس کی نمایاں مثال برطانیہ میں یورپ کی سب سے بڑی ’’لیبر پارٹی‘‘ ہے، 1979ء سے مسلسل 18 برس تک ناکامیاں جس کا مقدر رہیں، مگر آج پھر یہ برطانوی انتخابی سیاست کی اہم اور متحرک جماعت ہے۔ انجینئر احمد بلال محبوب نے اپنی گفتگو اس تجویز پر سمیٹی کہ جماعت 2018ء اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں 2023ء کے انتخابات کو ہدف بناکر ٹاسک فورس تشکیل دے، جو قیادت اور پیغام کے ابلاغ میں کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کرے، اور ابھی سے 2023ء کے عام انتخابات کی تیاری اور فکر کی جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ انتخابی نتائج کے باعث اگرچہ آج ہمارے دل مایوسی کا شکار ہیں مگر جماعت کبھی ایک دن کے لیے بھی اپنے نصب العین سے نہیں ہٹی۔ جماعت کے کارکن اس کا بہترین سرمایہ ہیں جو ہر طرح کے حالات، ناکامیوں اور مصائب کے باوجود تحریک سے جڑے رہے۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ جماعت اسلامی کی کامیابی ہے کہ یہ ہمیشہ اتحادِ امت کی داعی رہی ہے اور کبھی فرقہ نہیں بنی۔ پاکستان کا دستور، اس کا اسلامی نام، دینی شناخت اور 31 علماء کے 22 نکات کی اساسی حیثیت، ان سب باتوں کا کریڈٹ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی کو جاتا ہے۔ کراچی میں میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان، صوبہ خیبر کی حکومت میں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جماعت کے ارکان کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔ کرپشن کا کوئی داغ الحمدللہ جماعت کے دامن پر نہیں۔ قوم ہمیں بتائے کہ ہماری غلطی کہاں ہے۔۔۔؟ اسلامی ریاست چند اقدامات کا نہیں، اجتماعی انقلاب کا نام ہے اور معاشرے میں یہ انقلاب جماعت اسلامی ہی لائے گی۔۔۔ ان شاء اللہ۔
تقریب کے میزبان لاہور جماعت اسلامی کے امیر ذکر اللہ مجاہد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سفر اگرچہ کٹھن ہے مگر ہم پُرامید، پُردم اور پُرعزم ہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے فوری بعد جماعت کے کارکن عید کے موقع پر اپناآرام اور عید کی خوشیاں چھوڑ کر عوام کی خدمت کے سفر پر گامزن ہیں۔۔۔ جماعت نے ہر آفت اور مصیبت کے وقت سب سے بڑھ کر خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ عام حالات میں بھی جماعت کے ہسپتال، ڈسپنسریاں، اسکول ، اور خدمت کے دیگر منصوبے ہر طرح کے مفادات سے بالاتر ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدمات انجام دیتے ہیں۔ ہمارا سفر اللہ کی رضا کا سفر ہے، ہم اپنے امیر سراج الحق کو وزیراعظم بنانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے رب کا نظام اس کی سرزمین پر غالب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
تقریب کے آخر میں اپنے کلیدی خطاب میں مہمانِ خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ آنے والے چھ ماہ میں سارا گردو غبار بیٹھ جائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ الیکشن کیسا اور کن حالات میں ہوا، ساری دنیا جانتی ہے۔ بہت سے فیصلے الیکشن سے پہلے ہی ہوچکے تھے۔ جو لوگ پرویزمشرف، آصف زرداری اور نوازشریف کے ساتھ تھے، وہی موجودہ نظام کا حصہ ہیں۔ ہم ان کو وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان کی کارکردگی دیکھ لیں۔ اس وقت جب پوری دنیا کی معیشت، سیاست اور نظام تعلیم عالمی اداروں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر ہے، ہم نے حق کا پرچم بلند کیا ہے۔
دنیا بھر میں اسلامی تحریک کے قدم آگے بڑھے ہیں۔ عالمی استعمار جمہوری طریقے سے بھی اسلامی تحریکوں کو اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا، جس کی واضح مثالیں ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا خاتمہ اور فلسطین میں حماس کی انتخابات میں کامیابی تسلیم نہ کرنا ہے، اس کے باوجود ہم اقتدار تک پہنچنے کے لیے کسی غیر جمہوری طریقے اور زیرزمین سرگرمی کے قائل نہیں۔ ہمارے نزدیک اسلامی نظام کے لیے پُرامن راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ہمارے ہاں کامیابی کا اصل معیار وہ ہے جو اللہ نے ہمیں دیا ہے۔ ہم دوسری جماعتوں کی طرح بین الاقوامی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی غلامی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں، اور یہ غلامی ہماری پہچان اور سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ ہم انتخابات میں بھی لوگوں کو ذاتی اقتدار یا اپنی ذات کی طرف نہیں بلکہ اللہ کے نظام کی طرف بلاتے ہیں۔ لوگ سیاست دولت کمانے اور جمع کرنے کے لیے کرتے ہیں، جبکہ ہمارا کارکن لوگوں پر خرچ کرنے اور عوام کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے کرتا ہے۔ دنیا ہماری امانت و دیانت اور صلاحیت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہم نے صوبہ خیبر کی حکومت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور کراچی میں سٹی حکومت میں بھی۔
ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اپنی جان، مال، اولاد اور عزت، ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ ہم ان کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ ہالینڈ کے سفیر کو بلانا اور احتجاج کرنا کافی نہیں، اسے فوری طور پر نکالا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور 57 اسلامی ممالک ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ ہالینڈ کے سفیر کو فوری طور پر ملک سے نکالا اور اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔
سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستا ن کی بقا اور سلامتی کے لیے کشمیر کی آزادی ضروری ہے، اور ہم کشمیر کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ کشمیر اور فلسطین سمیت مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے عالم اسلام کو متحد ہونا پڑے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے اپنی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر واضح کیا کہ ہم دنیا اور اس کے اقتدار کی خاطر اللہ کی رضا اور اسلامی نظام کے ایجنڈے کو ترک نہیں کرسکتے، اس کام میں جتنی بھی دیر لگے ہماری زبان سے شریعت ہی کی بات نکلے گی۔ انہوں نے تقریب میں موجود کارکنوں کو تلقین کی کہ مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے لیے مسجد سے تعلق مضبوط بنائیں، باجماعت نماز کی خود بھی پابندی کریں اور بچوں کو بھی کرائیں، مطالعہ قرآن کو روزانہ کا لازمی معمول بنائیں کہ اس کی روشنی کے بغیر دل ویران ہوجاتے ہیں، والدین کا احترام خود پر لازم کریں، رزقِ حلال کمائیں اور سادگی اپنائیں۔ تھوڑا کھائیں مگر حلال و طیب کھائیں۔ کارکن ’’تفہیم القرآن‘‘، ’’خطبات‘‘، ’’دینیات‘‘ اور ’’کامیابی کا راستہ‘‘ ہاتھوں میں لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور اپنی دعوت کو گھر گھر پہنچائیں۔