عدل و انصاف ہمیشہ قوموں کی بقا، خیر و برکت، سکون و عافیت کا سبب رہا ہے۔ کسی قوم نے انصاف سے پہلوتہی برتی تو ہلاک و برباد ہوئی اور خدا تعالیٰ کے غیظ و غضب اور ناراضی سے دوچار ہوئی۔ ایک پرانی کہاوت چلی آرہی ہے کہ قومیں اُس وقت تک باقی اور پھلتی پھولتی رہتی ہیں جب تک وہ انصاف پر قائم رہتی ہیں۔ انصاف ہی کے ذریعے حق داروں کو حق ملتا اور معاشرے کو امن و امان نصیب ہوتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
آسمانی پیغاموں میں اہم ترین مقاصد میں عدل و انصاف کا قیام رہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور جب لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو‘‘۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کروں‘‘۔
اسلام کا نمایاں اور امتیازی وصف اللہ کی زمین پر عدل و انصاف قائم کرنا ہے تاکہ ظلم و جور سے انسانی بستی پاک و صاف ہوجائے اور امن و آشتی اور محبت و اخوت کا گہوارہ بن جائے۔ چنانچہ قرآن پاک اور احادیثِ نبویؐ میں جگہ جگہ عدل قائم کرنے اور اپنوں اور غیروں کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم اور تلقین کی گئی ہے۔
آیاتِ ربانی میں عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی تلقین
اس ضمن میں چند آیتیں پیش خدمت ہیں:
٭ بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہلِ حقوق کو ان کے حقوق پہنچا دیا کرو، اور یہ کہ جب لوگوں کا تصفیہ کیا کرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سنتے، خوب دیکھتے ہیں۔
٭ اور جب تم بات کیا کرو تو انصاف رکھا کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو۔
٭ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لیے پوری پابندی کرنے والے، انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو، اور خاص لوگوں کی عداوت تمہارے لیے اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔
منصف یا قاضی کا بلند مقام
عدل و انصاف میں اپنا بھائی اور غیر، دشمن، چھوٹا بڑا، مرد عورت اور بچہ سب یکساں اور برابر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کرنے والے انسان، حاکم اور جج کو بڑے توصیفی الفاظ میں یاد فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’قیامت کے روز جب سورج سوا نیزے پر آجائے گا اور لوگ دھوپ اور تپش سے بلبلاتے پھررہے ہوں گے اور کسی کو سایہ نصیب نہ ہوگا صرف سات قسم کے انسانوں کے لیے خدا کا سایہ حاصل ہوگا، ان میں انصاف اور عدل قائم کرنے والا شخص بھی شامل ہوگا‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرماچکے ہیں، مدینہ پر اسلام سایہ فگن ہے، اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑچکی ہے، اسلامی قوانین نافذالعمل ہوچکے ہیں، احکام الٰہی رگ و پے میں سرایت کرتے جارہے ہیں، طاعت و عبادت گزاری کا ذوق و شوق ہے، اگر بھول چوک سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو خودبخود سزا کے لیے دربارِ نبویؐ میں حاضر ہوکر کَفّارے کا مطالبہ ہوتا ہے۔
اسی اثناء میں ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ رہتی دنیا تک کے لیے روشنی کا مینار اور انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ قبیلہ قریش کے ایک اعلیٰ خاندان بنومخزوم کی ایک خاتون چوری کا ارتکاب کرتی ہیں اور موقع پر پکڑلی جاتی ہیں۔ انہیں سزا کے لیے پیش کردیا جاتا ہے۔ قریش کو سخت صدمہ اور ذلت کا احساس ہوتا ہے، کسی طرح اس خاتون کو سزا سے بچانا چاہتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کون کرے؟ یکدم انہیں خیال آتا ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز اور پیارے ہیں، اگر وہ اس سلسلے میں بات کریں گے تو ان کی سفارش قابلِ قبول ہوگی۔ حضرت اسامہؓ قریش کے کہنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارش لے کر حاضر ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا، فرمایا ’’اسامہؓ تم اللہ کی مقررہ سزا کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو‘‘! اس کے بعد منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا:
’’تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ اگر ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور اگر کمزور و کمتر آدمی چراتا تو اسے سزا دیتے۔ خدا کی قسم اگر فاطمہؓ بنتِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) چراتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
یہ عدل و انصاف کا اٹل اور بے لاگ و لپٹ فیصلہ ہے جو امتِ مسلمہ کی ہمیشہ رہنمائی کرتا رہے گا۔
٭امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت ہے۔ سلطنت، عدالت، فوج اور انتظامیہ کی تنظیم ہورہی ہے، ہر ہر قدم پر اخوت، مساوات اور عدل و انصاف پیش نظر ہے۔ کوئی امتیاز، کوئی تفریق اور بھید بھائو نہیں ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ امیرالمومنین کے ایک صاحبزادے نشے کی حالت میں پائے جاتے ہیں، کشاں کشاں یہ خبرالمومنین کو پہنچتی ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ صاحبزادے کو حاضر کیا جائے۔ تحقیق سے خبر درست ثابت ہوتی ہے، کوڑے لگانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ صاحبزادے بیمار ہیں، لوگ سفارش کرتے ہیں کہ شفایابی تک سزا ملتوی رکھی جائے، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ اور حکم نافذ کردیا جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد غالباً کوڑوں کے اثر سے وہ خدا کو پیارے ہوجاتے ہیں۔
٭انصاف پروری کا ایک واقعہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِ خلافت کا ہے۔ حضرت علیؓ کوفہ میں رعایا کی خبرگیری کے لیے گشت پر ہیں، اچانک ان کی نظر ایک عیسائی پر پڑتی ہے، اُس کے پاس اپنی زرہ نظر آتی ہے، وہ اس کو لے کر قاضی شریح کے پاس جاتے ہیں اور ایک عام آدمی کی طرح اس کے خلاف مقدمہ پیش کرتے ہیں: ’’یہ زرہ میری ہے اور میں نے نہ اسے فروخت کی ہے اور نہ ہبہ کی ہے‘‘۔ قاضی شریح نے عیسائی سے دریافت کیا کہ امیرالمومنین جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی بابت تمہیں کچھ کہنا ہے؟ عیسائی نے کہا: زرہ تو یقینا میری ہے اور امیرالمومنین بھی میرے نزدیک جھوٹے آدمی نہیں ہیں۔ شریح نے حضرت علیؓ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ امیرالمومنین کوئی ثبوت ہے؟ حضرت علیؓ ہنس دیئے اور فرمایا ’’اس نے ٹھیک کہا، میرے پاس کوئی ثبوت تو ہے نہیں‘‘۔ چنانچہ قاضی شریح نے فیصلہ سنایا کہ زرہ عیسائی کو دے دی جائے۔ عیسائی اسے لے کر جانے لگا اور امیرالمومنین اسے دیکھتے رہے، چند قدم جاکر وہ عیسائی واپس آیا اور رقت بھری آواز میں کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ انبیاء کے احکام ہیں، امیرالمومنین مجھے اپنے قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور وہ ان کے خلاف فیصلہ دیتا ہے۔ عیسائی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے اور کہتا ہے ’’امیرالمومنین خدا کی قسم یہ زرہ آپ کی ہے، جب آپ نے صفین کی جانب کوچ کیا تو میں آپ کے لشکر کے پیچھے ہولیا، یہ زرہ آپ کے بادامی والے اونٹ پر سے نکلی‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’جب تم ایمان لے آئے تو یہ زرہ تمہاری ہے۔‘‘
٭عباسی خلیفہ مہدی بن ابی جعفر منصور کے مقرر کردہ کوفہ کے قاضی شریک بن عبداللہ نجفی نے بڑی مشکل اور ابوجعفر منصور کی گزارش پر کوفہ کا قاضی ہونا منظور کرلیا۔ بعض مخلص دوستوں اور خلافت تک رسائی رکھنے والے اعیان سے قضاء کے عہدے سے گلوخلاصی کی کوشش کی مگر ابوجعفر اور اس کے بعد مہدی نے گوارا نہ کیا کہ اس دور کا اتنا بڑا عالم، فقیہ اور انصاف پرور (جو خدا کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتا ہو اور نہ کسی کے جاہ و منصب کے سامنے جھکتا ہو) کی بے پایاں صلاحیتوں سے ملتِ اسلامیہ محروم رہے۔ قاضی صاحب ایک دن عدالت میں بیٹھے ہیں، آخری مقدمہ ان کے سامنے پیش ہے، فیصلہ کرکے اٹھنا چاہتے ہیں کہ ایک خاتون دروازے سے داخل ہوتی ہے، چال ڈھال اور انداز سے خوف زدہ لگتی ہے۔ قاضی شریک کے سامنے کھڑے ہوکر ہلکی آواز میں کہتی ہے: میں اللہ تعالیٰ سے، پھر اس کے بعد آپ سے اے مظلوموں سے ظلم کو دور کرنے والے قاضی، انصاف چاہتی ہوں۔ قاضی نے پوچھا: تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟ خاتون نے جواب دیا: کوفہ کے امیر اور امیرالمومنین مہدی کے چچازاد بھائی موسیٰ بن عیسیٰ نے۔ قاضی نے کہا: پوری بات صاف صاف بتائو۔ خاتون نے بیان کرنا شروع کیا: محترم قاضی! دریائے فرات کے کنارے مجھے اپنے والد سے وراثت میں ایک باغ ملا تھا، اس میں کھجور کے درختوں کے علاوہ کھیتی اور پیداوار بھی ہوتی ہے، میں نے اس باغ کو اپنے بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کرلیا تھا اور ان کے اور اپنے باغ کے درمیان ایک دیوار اٹھالی تھی اور ایک فارسی شخص کو جو باغ اور کاشت کے فن کا ماہر تھا، اپنا کارندہ مقرر کرلیا تھا۔ اس فارسی شخص نے چند برس باغ میں خوب محنت کی۔ باغ سے کافی غلہ اور کھجور حاصل کرتی اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی۔ کچھ عرصہ قبل امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے میرے بھائیوں کا باغ خریدلیا اور میرا باغ خریدنا چاہا، اس نے بڑی پیشکش کی اور مجھے لالچ دلائی، مگر میں اپنا باغ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ امیر غصہ ہوا اور اس نے مجھے دھمکی دی، مگر میں پھر بھی خوف زدہ نہ ہوئی۔ آج رات اس نے اپنے پانچ سو غلام اور کارندے بھیج کر میری دیوار ڈھادی اور اس کے نشانات اس طرح مٹادیے کہ میرے اور اس کے درخت اور کاشت گڈمڈ ہوگئی ہے اور پہچاننا اور تمیز کرنا دشوار ہوگیا ہے۔‘‘
قاضی نے اسی وقت پرچہ لکھا ’’صلوٰۃ و سلام کے بعد، خدا امیر کو سلامت رکھے اور اپنی نعمتوں سے مالامال کرے، میرے پاس فلاں خاتون آئی اور اس نے بتایا کہ امیر نے کل اس کا باغ غصب کرلیا ہے، اس لیے امیر اسی وقت عدالت میں حاضر ہو یا اپنا مختار بناکر بھیجے۔ والسلام‘‘۔
عدالت کے چپراسی کو مہربند مراسلہ دے کر امیر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس بھیجا۔ امیر نے خط پڑھا تو غصے سے سرخ ہوگیا اور چپراسی کو حکم دیا کہ فوراً کوتوال شہر کو بلا لائو۔ کوتوال حاضر ہوا تو امیر نے اس سے کہا کہ قاضی شریک کے پاس جائو اور ان سے میری جانب سے کہو کہ سبحان اللہ تمہارا عجب حال ہے کہ ایک احمق عورت کے میرے خلاف دعویٰ کرنے پر فیصلہ دیتے ہو جبکہ اس کا دعویٰ درست نہیں ہے۔
کوتوال نے پوچھا کہ کیا قاضی نے فیصلہ سنادیا ہے؟ امیر نے کہا کہ یہی کیا کم ہے کہ میں اس عورت کے ساتھ عدالت میں کھڑا کیا جائوں۔ کوتوال نے کہا کہ امیر کی بڑی مہربانی ہوگی کہ مجھے اس کام سے معاف رکھیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ قاضی شریک کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔ امیر نے مشتعل ہوکر کہا: خدا تمہارا ناس کرے تم بلاتردد جائو۔ کوتوال بڑے شش و پنج میں تھا کہ اب کیا کرے، پھر سوچا کہ اگر میں نے امیر کا پیغام قاضی شریک کو پہنچا دیا تو مجھے کیا نقصان پہنچے گا۔ لیکن پھر بھی تردد میں تھا کہ یقینی طور پر قاضی مجھے امیر کے اس کام میں شریک سمجھیں گے۔ اس نے اپنے خدام کو آواز دی اور ان سے کہا کہ تم کچھ کھانے پینے اور اوڑھنے بچھانے کا سامان جیل میں پہنچادو۔ پھر کوتوال قاضی شریک کی خدمت میں حاضر ہوا اور بڑے ادب اور نرمی سے امیر کا پیغام پہنچایا، کیونکہ اسے اپنے اس اقدام کے غلط ہونے کا احساس تھا۔ قاضی شریک نے کوتوال سے کہا: میں نے امیر کو عدالت میں طلب کیا تو اُس نے تمہارے ذریعے ایسا پیغام بھیجا ہے جس کا عدالت سے کوئی واسطہ نہیں۔ تمہیں اس سے کیا غرض اور کیوں آئے؟ پھر چپراسی کو آواز دی اور کہا کہ اسے جیل میں بند کردو۔ کوتوال نے سن کر کہا کہ خدا کی قسم مجھے اس کا علم تھا کہ آپ مجھے جیل بھیجیں گے، اس لیے میں اپنا انتظام کرکے آیا ہوں۔ امیر موسیٰ کو کوتوال کی گرفتاری کی خبر پہنچی تو اس نے اپنے دربان سے کہلا بھیجا کہ کوتوال تو میرا پیغام لے گیا تھا، اس کی کیا غلطی؟ قاضی صاحب نے دربان کو بھی جیل بھجوا دیا۔ امیر موسیٰ کو دربان کی گرفتاری کا بھی علم ہوا تو اس نے عصر کی نماز پڑھ کر اسحاق بن اششی اور کوفہ کے دوسرے اعیان اور سربرآوردہ لوگوں کو بلوایا اور ان کو قاضی شریک اور اپنے دونوں ایلچیوں کی توہین کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں عوام میں سے نہیں کہ وہ میرے ساتھ عام مجرموں جیسا برتائو کریں۔ قاضی شریک جب حسب معمول عصر کی نماز پڑھ کر مجلس میں جلوہ افروز ہوئے تو کوفہ کے یہ سربرآوردہ حضرات تشریف لائے اور امیر کی گفتگو نقل کی، مزید کچھ باتیں ایسی کیں جن سے اُن کے خیال میں قاضی شریک نرم پڑجائیں گے۔ قاضی صاحب نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: آپ لوگ ایک اسی بات کے بارے میں کہنے آئے ہیں کہ جس میں مَیں حق کے سوا کچھ کرہی نہیں سکتا، کیا عدالت صرف عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہے اور انہی کے خلاف فیصلہ کے لیے بنائی گئی ہے؟ انصاف کے سلسلے میں عام و خاص کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
پھر قاضی شریک نے محلہ کے نوجوانوں کو بلایا اور کہا کہ ان میں سے ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر جیل پہنچادو، اور ان عمائدینِ کوفہ سے کہا کہ تم سب فتنہ پرداز، ظالم کے معاون اور سفارشی ہو اس لیے تمہاری سزا جیل ہے۔ وہ سب کے سب جیل پہنچادیے گئے۔ امیر موسیٰ کو اطلاع ملی تو گھبرا گیا لیکن رات کی تاریکی میں اپنے ملازموں کے ساتھ خود جاکر جیل کا دروازہ کھول دیا اور سب کو جیل سے آزاد کردیا۔ صبح کو جیل کے داروغہ نے قاضی صاحب کو عدالت میں جاکر اس کی رپورٹ کی تو قاضی صاحب نے اپنی کتابوں کا بستہ منگوایا اور اپنے گھر بھجوا دیا، خادم سے کہا کہ سامان اٹھائو بغداد چلتے ہیں، خدا کی قسم ہم نے بنو عباس سے یہ عہدہ طلب نہیں کیا تھا، انہوں نے ہمیں اس کے قبول کرنے پر مجبور کیا تھا اور ہمیں آزادی سے فیصلہ کرنے کی ضمانت دی تھی، مگر اب اس کے بعد آزادی ختم ہوگئی۔ پھر قاضی شریک بغداد روانہ ہوگئے۔ امیر کو اس کے جاسوسوں نے خبر دی تو حیران و پریشان ہوکر قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈرا کہ اگر خلیفہ مہدی کو واقعہ معلوم ہوگیا تو اس کی خیر نہیں، چنانچہ اس نے قاضی صاحب سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی۔ قاضی صاحب نے کہا کہ قیدیوں کو واپس جیل بھجوائو اور عدالت میں مقدمے کے لیے حاضر ہو تو میں واپس ہوں گا۔
امیر نے اس حکم کی تعمیل کی اور عدالت میں حاضر ہوگیا۔ قاضی شریک عدالت میں بیٹھے اور دعویدار خاتون کو بلوایا اور کہا کہ دوسرا فریق حاضر ہوگیا ہے۔ امیر نے قاضی صاحب سے کہا: اب تو میں حاضر ہوگیا ہوں اس لیے قیدیوں کی رہائی کا حکم صادر کردیں۔ قاضی صاحب نے سب قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا اور امیر سے پوچھا کہ کیا اس عورت کا دعویٰ درست ہے؟ امیر نے کہا: ’’ہاں عورت سچی ہے‘‘۔ قاضی صاحب نے حکم دیا: ’’تو آپ نے جو کچھ لیا ہے وہ اسے واپس کردیں اور جلد اس کی دیوار بنوادیں‘‘۔ امیر نے جواب دیا: ’’ہاں میں تعمیل کروں گا‘‘۔ قاضی صاحب نے خاتون سے دریافت کیا کہ آیا اور بھی کچھ باقی ہے؟ خاتون نے جواب دیا کہ ہاں فارسی کا گھر اور اس کا سازو سامان۔ امیر نے کہا کہ وہ واپس کردوں گا۔ قاضی صاحب نے خاتون سے دریافت کیا: کیا اور بھی کچھ باقی ہے؟ خاتون نے جواب دیا: نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ قاضی صاحب نے خاتون کو رخصت کیا اور پھر ادب سے کھڑے ہوگئے اور امیر کوفہ کو اپنی نشست پر بٹھایا، سلام کیا اور پوچھا کہ آپ کا کوئی حکم ہے؟ امیر نے جواب دیا: میں آپ کو کیا حکم دوں گا اور ہنس پڑے۔ قاضی شریک نے فرمایا: ’’محترم! وہ اسلام کا حکم اور شریعت کی تنفیذ کا معاملہ تھا اور اب گورنر کوفہ کے ادب و احترام کا حق ہے‘‘۔ گورنر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا ’’جو خدا کے حکم کی تعظیم کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اپنی مخلوق کے بڑے بڑوں کو جھکا دیتا اور سرنگوں کردیتا ہے۔‘‘