دوران سعی اچک کر چلنا!۔

پچھلے سے پچھلے شمارے میں عبدالخالق بٹ نے ہند اور ہندو کے حوالے سے تحقیقی مقالہ لکھ ڈالا ہے۔ ہندو کالے کو کہتے ہیں، اس پر شیخ ابراہیم ذوق کا ایک شعر سن لیجیے:

خط بڑھا، کاکل بڑھے، زلفیں بڑھیں، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

پہلے مصرع میں جن چار چیزوں کا ذکر ہے وہ سب کالی ہوتی ہیں، کم از کم جوانی میں۔ پھر تو چونڈا سفید ہوجاتا ہے۔ کہاں کی زلفیں اور گیسو۔ شعر استاد کا ہے لیکن کبھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ذوقؔ کے محبوب کا ’خط‘ سے کیا تعلق؟ اگر وہ کاکلوں اور زلفوں والا ہے تو اس کا مطلب ہے کوئی خاتون ہے، جب کہ خط کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے جو باریش ہوں تو نائی کی دکان پر جاکر یا نائی کو گھر بلا کر خط بنواتے ہیں۔ مرزا غالب نے بھی ’سبزہ خط‘ کو سراہا ہے۔ یہ وہ سبزہ خط ہے جو بالائی لب پر رویں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ لیکن یہ رواں خود خواتین کو پسند نہیں، چنانچہ وہ کئی جتن کرکے صاف کروا دیتی ہیں۔ لڑکوں میں اسے مسیں بھیگنا کہتے ہیں۔ اس میں میم پرزبر ہے، زیر نہ کہا جائے۔
اسلام آباد ہی کے ایک عالم، ادیب اور شاعر جناب شفق ہاشمی نے جو بطور انکسار خود کو طالب علم کہتے ہیں ’’ہند، ہندی اور ہندوستان‘‘ کے عنوان سے ایک جامع تحقیقی مقالہ لکھا ہے جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سب سے حیرت انگیز بات ’ہندو‘ کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ برصغیر کی یہ اکثریتی قوم جو خود کو ہندو اور اپنے دھرم کو ہندو مت کہتی ہے اب تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ نام اور نسبت انہیں (اسے) کہاں سے ملی، کیونکہ نہ چاروں ویدوں میں، نہ اپنشد، پران، رامائن یا بھگوت گیتا میں کسی رام، کرشن، منو اور مہارشی نے کبھی انہیں اس نام سے موسوم کیا اور نہ انہیں تلقین کی کہ تمہارا دھرم ہندومت ہے۔ قدیم آریائی زبانوں سنسکرت اور پالی زبانوں میں ہند، ہندو یا ہندوستان نام کے کسی لفظ کا کھوج کوئی بڑے سے بڑا ہندو ودوان لگا سکا ہے، نہ کبھی لگا سکے گا کہ یہ سرے سے مقامی زبانوں کے الفاظ ہی نہیں‘‘۔
شفق ہاشمی مزید لکھتے ہیں ’’اب آخر میں لفظ ہند کے لسانی پہلو پر گفتگو ہوجائے۔ المنجد یا کسی بھی مستند عربی قاموس پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلیتاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ ابتداً صحرائی عرب سو (100) یا اس سے اوپر اونٹوں کے گلّے کے لیے ہند کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ گلّہ چھوٹا ہوتا تو اس کی تصغیر ’ہُنیدہ‘ استعمال کی جاتی۔ بعد کے ادوار میں ہند اور ہندہ ہر اُس چیز کو کہا جانے لگا جو محبوب اور دل پسند ہو۔ یہ لفظ عربوں میں بطورِ خاص خواتین کے نام کے طور پر مقبول ہوگیا۔ عرب جہازرانوں کی جولان گاہ جب ساحلِ مکران، مالابار، سراندیپ (سری لنکا) اور مشرقِ بعید میں جاوا اور سماٹرا تک وسیع ہوئی تو انہوں نے اس سرزمین کو جہاں سے انہیں گرم مسالے، لوبان، اور سب سے بڑھ کر ان کی شہ زوری کا نشان تلوار حاصل ہوتی تھی، ہند کے نام سے یاد کرنا شروع کردیا۔ مگر چونکہ ہند بجائے خود نہ کسی جغرافیائی وحدت کا نام تھا، نہ کوئی سیاسی وجود، انہوں نے اس خطے کو ’’بلاد الہند والسند‘‘ کا نام دیا۔ واضح رہے کہ سندھ مقامی زبان ہی کا لفظ ہے جو دریا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘‘۔
جی تو چاہتا ہے کہ یہ علمی و تحقیقی مقالہ پورے کا پورا نقل کردیا جائے، لیکن ممکن ہے کہ پبلشر ناراض ہوجائیں۔ حسبِ عادت ایک دو غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ کالم کے عنوان کے تقاضے پورے ہوجائیں۔ شفق ہاشمی کو عربی پر بھی عبور حاصل ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ’’وتیرہ‘‘ عربی کا لفظ ہے، اسے وطیرہ لکھ کر مزید معرب کرنے کی ضرورت نہیں۔ ’’اغلباً‘‘ لکھنے پر مزید حیرت ہوئی۔ یا تو غالباً لکھا ہوتا یا اغلب۔ اس پر تنوین جائز نہیں۔ ایک بار پھر معذرت۔
اب علمی باتوں سے گریز کرتے ہوئے کچھ عوامی باتیں کرلیں۔ حیدرآباد سندھ کے ایک بڑے قدآور کالم نگار، صحافی اور عالم ہیں۔ ان کا ایک مضمون حج کے حوالے سے جسارت میں شائع ہوا ہے۔ اچھا مضمون ہے لیکن موصوف نے بی بی ہاجرہ کو حلوے والی ’ح‘ (ہائے حطی) سے ’’حاجرہ‘‘ لکھا ہے۔ ذرا سا غور فرما لیتے کہ حاجرہ کا مادہ تو حجر یعنی پتھر ہوگا، جب کہ ’ہاجرہ‘ ہجر اور ہجرت سے ہے۔ ہاجرہ کو حاجرہ لکھنے کی غلطی بہت عام ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنی اہلیہ کا نام بھی حاجرہ لکھتے ہیں، ممکن ہے ان پر یہ حجر بھاری ہو۔ یہی موصوف سعی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سبز روشنیوں کے درمیان ’’تیز قدم اُچک اُچک کر چلا جائے گا کہ یہ بی بی حاجرہ کا طریق ہے‘‘۔ یقینا موصوف نے بھی سعی کی ہوگی اور خود اچک اچک کر چلے ہوں گے۔ ہمیں بھی کئی بار یہ سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ہم نے تو کسی کو اچک اچک کر چلتے نہیں دیکھا، اور نہ ہی یہ بی بی ہاجرہ کا طریق تھا کہ وہ اچک اچک کر چلتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کو اچکنے یا اچک کر چلنے کا مفہوم نہیں معلوم، اور ایسا کوئی حکم بھی نہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان میں ایک مقام ایسا ہے جہاں تیزی سے چلنے کی ہدایت ہے۔ اس مقام کی نشاندہی کے لیے سبز رنگ کی روشنیاں لگا دی گئی ہیں۔ حضرت ہاجرہ اپنے پیاسے لختِ جگر کے لیے پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتی تھیں کہ شاید کوئی قافلہ آرہا ہو… پھر وہ دوسری پہاڑی پر چڑھتیں۔ مگر جب نشیب میں آتیں تو انہیں اسماعیلؑ نظر نہ آتے اس لیے وہ تیزی سے چل کر دوسری پہاڑی پر پہنچتی تھیں۔ ان کی سنت کی یاد میں سعی کرنے والوں کو بھی تیزی سے چلنے (نہ کہ اچکنے) کی تاکید ہے، اور خواتین کے لیے تیز چلنا بھی لازم نہیں ہے۔ برسبیل تذکرہ عربی میں بی بی ہاجرہ کا املا ’ہاجَر‘ (’ج‘ پر زبر) ہے۔
ایک بہت ہی سینئر صحافی جناب آصف جیلانی بہت اچھی زبان لکھتے ہیں اور اردو پر مکمل دست رس ہے۔ تاہم جسارت میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وہ ایک معروف محاورے میں سہو کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے ’’دو قلب ایک جان‘‘۔ اس محاورے میں قلب نہیں بلکہ قالب ہے۔ ’یک جان دو قالب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ اور لوگ بھی قالب (’ل‘ بالکسر) اور قلب میں فرق نہ کرتے ہوں۔ قالب (بروزن غالب) کا مطلب ہے تن، بدن، جسم۔ چنانچہ محاورے کا مطلب ہوا کہ بظاہر تو دو جسم ہیں مگر یکجان ہیں، یا دونوں میں ایک ہی روح ہے۔ دو افراد میں گہری انسیت و محبت کے موقع پر یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’قالب خالی کرنا‘‘ یعنی روح کا جسم کو خالی کرنا۔ قالب میں ڈھالنا کا مطلب ہے سانچے میں ڈھالنا۔ قالب کے اور بھی کئی معانی ہیں۔ برسبیل تذکرہ، قلب دل کو تو کہتے ہی ہیں لیکن اس کا لغوی معنیٰ ہے کسی چیز کو الٹ دینا، اس واسطے کہ یہ سینے میں الٹا لٹکا ہوا ہے۔ اس کے اور بہت سے معانی ہیں جیسے قلبِ ماہیت یعنی ماہیت بدل جانا۔ قلب مکدّر بھی ہوجاتا ہے۔ کھوٹی چاندی یا سونا۔ کھوٹا سکہ کو بھی سکہّ قلب کہتے ہیں۔
امریکہ سے سید محسن نقوی صاحب کا مراسلہ عبدالمتین منیری کے توسط سے موصول ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’آرسی مصحف کی رسم یوپی کے مسلمان گھرانوں میں عام ہے۔ اس میں دلہن، جو کہ گھونگھٹ میں ہوتی ہے، اور اس کی نظریں جھکی ہوئی ہوتی ہیں، اس پر اور دولہا پر ایک سرخ چادر (جو عام طور سے دولہا کی بہنیں یا پھوپھیاں، خالائیں وغیرہ) تان دیتی ہیں، اس سرخ چادر کے نیچے دولہا اور دلہن کے سامنے قرآن کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور ایک آئینہ بھی۔ پہلے دولہا دلہن قرآن کی آیت پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر ایک ساتھ آئینہ میں (پہلی دفعہ) ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ خیر آج کل تو دولہا دلہن شادی سے پہلے ہی ملاقات بھی کرلیتے ہیں اور گفت و شنید بھی۔
اس رسم کا نام اسی لیے آرسی مصحف رکھا گیا ہے کہ ایک طرف قرآن رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف آئینہ۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کا محاورہ البتہ اس بڑی سی انگوٹھی سے مستعار ہے جس میں نگینہ کی جگہ ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوتا ہے۔ یہ اس لیے کہ دلہن کو سسرال پہنچ کر اپنے میک اپ کے لیے کسی سے آئینہ نہ مانگنا پڑے، وہ آرسی اس کا پرائیویٹ آئینہ ہوتا ہے۔‘‘