کھیل کا میدان اور تبدیلی کا امکان

۔25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود پذیر تبدیلی سیاست اور اقتدار کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی کھیل کے میدانوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تبدیلی اس لیے بھی لازم تھی کہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی عالم گیر شہرت کا آغاز بھی 1992ء کے عالمی کرکٹ کپ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے ہوا، چنانچہ ان کے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ان کا یہ استعفیٰ بظاہر ازخود اور رضاکارانہ ہے، تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ استعفیٰ ناگزیر تھا، اور 2013ء کے عام انتخابات کے دوران بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب جناب نجم سیٹھی کا کردار وزیراعظم عمران خان کی رائے میں سخت مشکوک اور جانب دارانہ رہا تھا، اور اُن پر ’’پینتیس پنکچر‘‘ کا الزام بھی اسی تناظر میں عائد کیا گیا تھا۔ اس لیے توقع یہی کی جارہی تھی کہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج واضح ہوجانے کے بعد نئی حکومت کے وجود میں آنے کا انتظار کیے بغیر نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے سبکدوش ہوجائیں گے، مگر واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ استعفیٰ دینے سے قبل انہوں نے اپنی سی پوری پوری کوشش کی کہ انہیں کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے طور پر کم از کم چند ماہ مزید کام جاری رکھنے کا موقع دے دیا جائے۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے اخبارات اور چینلز میں اپنے دوستوں کے ذریعے بطور چیئرمین کرکٹ بورڈ اپنے کارہائے نمایاں کو خوب اجاگر کرایا کہ شاید کرکٹ بورڈ کے سرپرستِ اعلیٰ وزیراعظم عمران خان کا دل پسیج جائے، مگر دوسری جانب ان کے لیے درگزر کی کوئی گنجائش موجود نہ ہونے کے باعث آخر انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور بورڈ کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔
چیئرمین کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کی شدید خواہش کے پس منظر میں ایک جانب تو بورڈ کے وافر مالی وسائل اور چیئرمین کے بے پناہ اختیارات ہیں، جن سے جناب نجم سیٹھی نے عہدے پر رہتے ہوئے بھرپور استفادہ کیا، دوسرے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر حاصل وہ اہمیت بھی ہے جس کے سبب آئے روز کے غیر ملکی دورے چیئرمین پی سی بی کے شیڈول کا معمول ہوتے ہیں، اور ان بین الاقوامی دوروں کے دوران چیئرمین کو سربراہانِ مملکت کے برابر کا پروٹوکول دیا جاتا ہے، بہترین گاڑیوں میں گھمایا جاتا ہے اور اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں ٹھیرایا جاتا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی کرسی سے ہر قیمت پر چمٹے رہنے کی تمنا اور خواہش کا تیسرا پس منظر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بطور چیئرمین انہوں نے بورڈ کے وسائل کو جس طرح شیرِ مادر سمجھ کر پیا اور ہضم کیا ہے حکومت نے اگر ان معاملات کی سنجیدگی سے تحقیقات کروانے کا فیصلہ کرلیا تو بہت سے دوسرے بااختیار لوگوں کی طرح نجم سیٹھی صاحب کو بھی جیل کی ہوا کھانا پڑسکتی ہے۔
وزیراعظم نے پی سی بی کے سرپرستِ اعلیٰ کی حیثیت سے بین الاقوامی شہرت کے حامل کرکٹر احسان مانی کو نیا چیئرمین نامزد کیا ہے۔ پی سی بی گورننگ بورڈ کے ارکان کے طور پر احسان مانی اور اسد علی خان کی تین سال کے لیے نامزدگی بھی کردی گئی ہے۔ احسان مانی کے بطور چیئرمین انتخاب کی باقاعدہ توثیق 4 ستمبر کو انتخابی عمل کے بعد ہوگی، اُس وقت تک بورڈ کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) افضل حیدر قائم مقام چیئرمین ہیں۔ انہوں نے چیئرمین کے انتخاب کی رسمی کارروائی کی تکمیل کے لیے شیڈول جاری کردیا ہے جس کے مطابق بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی وصولی، ان پر اعتراضات، جانچ پڑتال، اعتراضات کی سماعت اور گورننگ بورڈ کے ارکان کی رائے دہی تک کے تمام مراحل 4 ستمبر کی صبح گیارہ بجے سے شروع ہوکر ڈیڑھ بجے تک مکمل ہوجائیں گے۔ تاہم توقع یہی کی جارہی ہے کہ احسان مانی کے مقابل کوئی دوسرا امیدوار سامنے نہیں آئے گا، اور یوں بلامقابلہ انتخاب کی صورت میں انتخابی عمل کے بہت سے مراحل کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے نامزد چیئرمین احسان مانی کی صلاحیتوں کے بارے میں دو آراء ہیں اور نہ کسی کو کوئی شبہ ہے، کہ وہ اپنی ان خداداد صلاحیتوں کا لوہا بطور چیئرمین آئی سی سی عالمی سطح پر منوا چکے ہیں۔ وہ بیک وقت انتظامی اور مالیاتی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ان کی کرکٹ کے لیے خدمات اور دیانت داری بھی مسلمہ ہیں۔ ان کی انہی صلاحیتوں کے سبب پاکستانی قوم ان سے بہت بلند توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے کہ وہ بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نہ صرف پاکستانی کرکٹ کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں گے بلکہ اسے عالمی سطح پر عروج کی بلندیوں سے روشناس کرائیں گے تاکہ پاکستانی قوم اپنا سر فخر سے اونچا کرکے چل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سے یہ توقع بھی بے جا نہیں ہوگی کہ وہ کرکٹ بورڈ کے اندرونی معاملات کی اصلاح کے لیے بھی ٹھوس، جان دار اور نتیجہ خیز اقدامات کریں گے اور ماضی میں روا رکھی گئی وسائل کی بندر بانٹ اور بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کرواکر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔