صوفیہ خان فلاحی
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سیلفی کسی شخص کی ایسی تصویر کو کہتے ہیں جو اُس نے خود کسی اسمارٹ فون یا ویب کیمرہ سے لی ہو، اور جسے سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر کیا گیا ہو۔ لیکن اس تکلف کے بغیر سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ سیلفی کا مطلب ہے اپنی تصویر آپ لینا۔ اور اس تعریف کے مطابق سب سے پہلی سیلفی 1839ء میں امریکی فوٹو گرافر رابرٹ کورنیلیس نے لی تھی۔ لیکن پہلے لوگوں کے، باقاعدہ کیمروں کی مدد سے، خود کی تصویر لینے کے لیے سیلفی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سب سے پہلے اس لفظ کا استعمال ناتھن ہوپ نامی شخص نے 2002ء میں کیا تھا جب اُس نے اپنے زخمی چہرے کی تصویر نکالی اور اسے سیلفی کا نام دیا۔ رفتہ رفتہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ 2013ء میں آکسفورڈ ڈکشنری نے لفظ ’’سیلفی‘‘ کو ورڈ آف دی ایئر کا درجہ دیا۔
سیلفی کی مقبولیت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ یہ زندگی کے خوبصورت لمحات کو محفوظ کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہے۔ سیلفی کے لیے باقاعدہ کسی فوٹو گرافر بلکہ سرے سے کسی دوسرے انسان کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ نہ باقاعدہ کیمرہ اور کھینچی گئی تصاویر کے نگیٹو کو ڈیولپ کرنے کا جھنجھٹ (اور خرچ) ہے اور نہ ہی مہنگے ڈیجیٹل کیمروں کی حاجت۔ بس اپنا موبائل نکالا اور تصویر کھینچ لی۔ لیکن آج سیلفی جیسی بے ضرر نظر آنے والی چیز کے شوق نے بھی خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو سیلفی لینے اور لیتے رہنے کی لت کا شکار ہیں۔ ماہرینِ نفسیات نے اسے باقاعدہ ایک نفسیاتی مرض قرار دیتے ہوئے Selfitis کا نام دیا ہے۔ امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق دن میں تین سے زیادہ سیلفی لینے والے عموماً اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
سیلفائٹس کا شکار انسان جنون کی حد تک سیلفی لیتا ہے اور بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہے۔ اس کے بعد اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ ان سیلفیوں پر کتنے لائکس اور کمنٹس آئے۔ سیلفائٹس کے مریض عموماً خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ دوسروں کا دھیان اپنی طرف کھینچنے، اپنا موڈ اچھا کرنے، یادوں کو محفوظ کرنے، دوستوں کے درمیان اپنی الگ پہچان بنانے، دوسروں سے اپنی تعریف سننے اور خود کو لوگوں میں مقبول بنانے کے لیے سیلفی کی بیساکھی استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے مریض کئی دفعہ Body Dysmorphic Disorder اور Obsessive Compulsive Disorder کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی سیلفی پسند نہ آنے پر اپنے جسم کے کسی حصے کے بارے میں ناخوش ہوتے ہیں، احساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں اور اچھی تصویر کے لیے مختلف زاویوں سے گھنٹوں سیلفی لیتے رہتے ہیں۔ دن بھر میں سینکڑوں سیلفی لینے کے باوجود انہیں اطمینان نہیں ملتا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز تقریباً 10 لاکھ سیلفی لی جاتی ہیں۔ گوگل کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوجوان ایک دن میں اوسطاً پندرہ سیلفیاں بھی لے گزرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سیلفی پوسٹ کرنا اور اس پر لائکس اور کمنٹس کا انتظار کرنا بظاہر ایک معمولی چیز ہے، لیکن دماغ پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لائکس حاصل کرنے کا دبائو رہتا ہے اور امید کے مطابق لائکس نہ ملنے پر لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ کچھ نیا کرنے اور زیادہ لائکس حاصل کرنے کے چکر میں چٹانوں، سمندروں اور دوسرے بہت سے خطرناک مقامات پر جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ نتیجتاً وہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں یا اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ سیلفی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں حادثات اور سینکڑوں اموات ہوچکی ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق ہندوستان میں 2014ء سے 2018ء کے درمیان سیلفی کی وجہ سے 128 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔
نہ جانے کیوں لوگ اپنی تمام سرگرمیوں کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا ضروری سمجھتے ہیں! کسی بھی خاص موقع سے لطف اندوز ہونے کے بجائے سیلفی لینے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیے بغیر ان کی خوشی نامکمل ہے۔ حالانکہ یہ محض ان کی خام خیالی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ خودنمائی کی لعنت سے خود کو محفوظ رکھیں۔ سیلفی کھینچنے کی لت سے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بچانے، اور کوئی اس میں مبتلا ہے تو اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ بھی اپنے اندر سیلفی کھینچنے کی لت پاتے ہیں تو گھبرائیے نہیں۔ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ جیسا اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو بنایا ہے اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے۔ لوگوں کی توجہ کے حریص مت بنیے۔ اپنے وقت کا بہتر استعمال کیجیے۔ ان شاء اللہ آپ اپنی قوتِ ارادی اور فضلِ خداوندی سے اپنی اس کمزوری پر فتح پائیں گے۔