سعودی عرب نے امام کعبہ شیخ صالح الطالب کو گرفتارکرلیا، الجزیرہ کا دعویٰ

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ امام کعبہ شیخ صالح الطالب کو سعودی عرب میں گرفتار کرلیا گیا ہے، شیخ صالح الطالب مکہ میں جج کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے بھی شیخ صالح الطالب کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے، تاہم سرکاری سطح پر تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
دوسری جانب عرب ویب سائٹ ’خلیج آن لائن‘ نے انکشاف کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے امام کعبہ نے حال ہی میں اپنے ایک خطبے میں میوزیکل کنسرٹس اور تقریبات میں نامحرم مردوں اور خواتین کے گھلنے ملنے کو غیر اسلامی قرار دیا تھا، البتہ امام کعبہ نے اپنے اُس وعظ میں شاہی شخصیات اور حکومتی پالیسی کو براہِ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا۔ امام کعبہ شیخ صالح الطالب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی خاصے متحرک تھے، تاہم ان کی گرفتاری کے بعد سے اُن کے انگریزی اور عربی ٹوئٹر اکائونٹس کو بھی بند کردیا گیا ہے، جس سے اُن کی گرفتاری کی تصدیق ہوتی ہے۔

حج تحائف کی سب سے زیادہ شاپنگ سعودی کرتے ہیں!

فریضۂ حج کی ادائی کے بعد تمام حجاج کرام اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے دوست احباب اور اقارب کے لیے تحائف کی خریداری کرتے ہیں۔ زیادہ تر تحائف ملتے جلتے ہوتے ہیں جن میں کھجوریں، آبِ زم زم، جائے نمازیں، تسابیح، کپڑے، پرفیومز اور بچوں کے کھلونے وغیرہ شامل ہیں۔ سعودی عرب میں حج کمپنیوں کی رابطہ کونسل کے رکن سعدالقرشی نے کہا ہے کہ مملکت کے اندر سے آنے والے حجاج مکہ مکرمہ سے قریباً 4 کروڑ ریال کی شاپنگ کرتے ہیں۔ حج کے سفر کے دوران حجاج کرام منیٰ سے زیادہ چیزیں خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس کو جہاں سے کوئی چیز پسند آجائے وہ وہیں سے خرید لیتا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اندرون ملک سے رواں سال 6 لاکھ 12 ہزار 953 مقامی اور غیرملکی شہریوں نے فریضہ حج ادا کیا۔ ان میں سعودی عرب کے باشندوں کی تعداد 2 لاکھ 11 ہزار 736 تھی۔العربیہ کے مطابق مقامی اور غیرملکی شہری اوسطاً 65.25 ریال حج کے تحائف کی خریداری پر صرف کرتے ہیں، تاہم اگر بات صرف سعودی شہریوں کی ہو تو وہ اوسطاً 189 ریال کی شاپنگ کرتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے خطے کے حجاج کرام کی نسبت حج تحائف کی خریداری کی یہ سب سے بڑی رقم ہے ۔

امریکی صدر کا مواخذہ؟

ٹرمپ ایک بلی کی طرح ہیں۔ وہ ایک کے بعد دوسری چھلانگ لگاتے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کے مواخذے کی باتیں انھیں فائدہ پہنچائیں گی اور ان سے اُن کے ڈیموکریٹ حریفوں کو نقصان پہنچے گا۔
یہی سبب ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں اقلیتی لیڈر، تجربہ کار سیاست دان نینسی پیلوسی نے اپنے ساتھی ڈیموکریٹس کو خبردار کیا ہے کہ وہ مواخذے سے متعلق بیان بازی سے گریز کریں، کیونکہ اس طرح ری پبلکن بھی میدان میں آجائیں گے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کے لیڈر کو ایک گندی سازش کا سامنا ہے جس کا مقصد انھیں اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ چنانچہ وہ صدر کی اقتصادی کامیابیوں کے پیش نظر اپنی حمایت کا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔
اسی تناظر میں صدر ٹرمپ نے فاکس نیوز کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر ان کا مواخذہ کیا جاتا ہے تو پھر ملکی معیشت دھڑام سے نیچے آگرے گی، اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جائے گی اور غربت پھیل جائے گی۔ وہ اپنے مواخذے کا اس افراتفری اور خوف و ہراس سے تعلق جوڑ رہے ہیں، جو اس کے نتیجے میں پھیلے گا۔ اس طرح وہ اپنے حامیوں کو بھی پیغام دے رہے ہیں۔ وہ آئندہ وسط مدتی انتخابات اور 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل سڑکوں پر آسکتے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ایسا ہتھیار جس کا رخ صدر ٹرمپ کے سر کی جانب تھا، اب ان کے اپنے ہاتھ میں آچکا ہے۔
(ممدوح المہینی۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ، 26اگست2018ء)

معروف ہندوستانی صحافی اور مصنف کلدیپ نیر کا انتقال

کلدیپ نیر طویل علالت کے بعد جمعرات کی صبح نئی دہلی کے ایک اسپتال میں پچانوے برس کی عمر میں چل بسے۔ کلدیپ نیر کے سوگواران میں بیوی اور دو بیٹے شامل ہیں۔
کلدیپ نیر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ وہ ممتاز صحافی، ایڈیٹر اور مصنف تو تھے ہی لیکن پریس کی آزادی اور ہند پاک دوستی کے لیے خاصے متحرک رہے۔ 2012ء میں انھوں نے اپنی خودنوشت شائع کی تھی جس میں تقسیم کے زخموں کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ یہ زخم بظاہر ان کی شخصیت کا حصہ رہے اور شاید اسی وجہ سے وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن اور دوستی کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ہمیشہ وابستہ رہے۔ وہ ایک مدت کے لیے پارلیمان کے ایوانِ بالا کے رکن رہے اور 1990ء میں، جب وی پی سنگھ ملک کے وزیراعظم تھے، انہیں برطانیہ میں انڈیا کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا۔کلدیپ نیر نے اپنا لمبا صحافتی سفر ایک اردو اخبار ’انجام‘ سے شروع کیا تھا اور اس کے بعد ملک کے کئی سرکردہ اخباروں اور خبررساں ایجنسی یو این آئی سے وابستہ رہے ۔ ان کا کالم ’’بٹوین دی لائنز‘‘ بہت مقبول تھا۔ ان کے کالم پاکستانی اخبارات میں بھی پابندی کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔

اسٹیٹس کو(Status quo)

پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے ساتھ ایک انگریزی لفظ چپک کر رہ گیا ہے جسے “Status quo” کہتے ہیں۔ اب تو یار لوگ اسے اردو میں بھی ’’اسٹیٹس کو‘‘ ہی تحریر کرتے ہیں۔ یوں تو یہ لفظ لاطینی زبان کا ہے جسے انگریزوں نے بھی ترجمہ کرنے کے بجائے صحیح سالم اپنی زبان کا حصہ بنا لیا ہے، لیکن اردو میں جو ترجمے کیے گئے ہیں ان میں ایک ترجمہ اس قدر خوب ہے کہ اصل لفظ ’’اسٹیٹس کو‘‘ سے زیادہ بہتر تفہیم ہوتی ہے اور پاکستانی معاشرے کے حساب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ صورت حال نظر آتی ہے۔ اس کا ترجمہ ’’حالت جوں کی توں‘‘ کیا گیا ہے۔ یہ فقرہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی پر اس قدر خوبصورتی سے چسپاں ہوتا ہے کہ پورے نظام کی تشریح کے لیے کسی دوسرے لفظ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ڈھائی سو سال پر محیط کہانی ہے۔ 1773ء میں جب برطانوی پارلیمنٹ کو یہ خبر ملی کہ برطانوی بنگال میں سیاسی اشرافیہ کی ملی بھگت اور آشیرباد سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بہت زیادہ کرپشن ہوگئی ہے تو انہوں نے ’’انڈین ریگولیشن ایکٹ‘‘ پاس کیا اور ہندوستان میں ایک گورنر جنرل مقرر کردیا۔ وارن ہیٹنگ پہلا گورنر جنرل آیا اور اس نے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ حکمرانی کے اصولوں پر مرتب قوانین کا کتابچہ تیار کیا، جسے 1784ء میں ’’دی انڈیا ایکٹ‘‘ کے طور پر منظور کرلیا گیا۔ لیکن 1786ء میں آنے والا لارڈ کارنیوالس وہ شخص تھا جس نے دراصل اس سول سروس کی بنیاد رکھی اور اسے دو واضح برانچوں میں تقسیم کردیا۔ ایک سیاسی، جو سول انتظامیہ پر مشتمل تھی اور دوسری معاشی سرگرمیوں کے متعلق تھی۔ اُس وقت تک تمام افسران گورے تھے، لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز کو احساس ہوا کہ مقامی افسران کو اگر اپنے ساتھ شریک نہ کیا گیا تو دوسرا غدر بھی برپا ہوسکتا ہے، چنانچہ 1858ء میں ہندوستانی ’’محکوموں‘‘ کو بھی حاکموں کی فہرست میں شامل کیا جانے لگا۔ 1914ء تک ان مقامی افسران کی تعداد صرف 5 فیصد تھی، لیکن جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر گیا تو ہندوستانی افسران کی تعداد 597 اور انگریز افسروں کی تعداد 588 تھی۔ یہ 597 وہ تھے جنہیں انگریز ’’ناریل‘‘ کہتا تھا، یعنی یہ اندر سے گورے ہیں اور باہر سے ’’گندم گوں‘‘۔ ان افسران کو ایچی سن، سول سروس اکیڈمی اور آکسفورڈ سے جہاں انگریزی تہذیب واقدار کی تربیت ملی تھی وہیں برطانوی اقتدار کے استحکام کے لیے ایک لفظ رٹایا گیا تھا ’’اسٹیٹس کو‘‘، یعنی ’’حالت جوں کی توں‘‘ رہنی چاہیے۔ کوئی تبدیلی، انقلاب، تحریک، حرکت انگریز حکومت، معاشرے اور انتظامیہ دونوں کے لیے طوفان کھڑا کرسکتی ہے اور انگریز اقتدار کو متزلزل بھی۔ یہ حالت ’’جوں کی توں‘‘ آج تک قائم ہے۔ ہزاروں طوفان آئے، حکومتیں بدلیں، مارشل لا آئے، ذوالفقارعلی بھٹو کی شدید خواہش اور اس کے خصوصی معاون وقار احمد کی پوری کوشش، پرویزمشرف کی آرزو اور جنرل تنویر نقوی کی پوری جدوجہد نے اس سول سروس کی عمارت کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے، شکل بگاڑ دی، نام، پتا، عہدہ، مرتبہ سب غارت کردیے گئے لیکن آج پوری کی پوری سول سروس ویسی کی ویسی زندہ وجود رکھتی ہے، جیسی اس کو تخلیق کرنے والے اذہان نے 1786ء میں تخلیق کیا تھا۔ ایوب خان کے دور میں قائم ہونے والے بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن اور اس کے بریگیڈیئر ایف آر خان کے حملوں سے لے کر یحییٰ خان کے 303 افسران کو برطرف کرنے، ذوالفقارعلی بھٹو کے چودہ سو افسران کو ذلت کے ساتھ نوکری سے نکالنے، نام، مقام ومرتبہ چھیننے، پرویزمشرف کے جنرل تنویر نقوی کی سربراہی میں بننے والے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے ذریعے مقامی ناظموں کے ہاتھوں ان کو ذلت کا تاج پہنانے کے باوجود اگر یہ سول سروس آج بھی واپس اپنے اصل کی طرف لوٹ چکی ہے تو عمران خان سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے جس نے آتے ہی اس سروس کو تبدیل کرنے اور اسے انقلابی بنانے کا مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کو مقرر کیا ہے جو گزشتہ پندرہ برسوں سے اسی سول سروسز کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کام کرتے چلے آرہے ہیں! سول سروس تو بہتر نہ ہوسکی لیکن ان کی کتابوں اور تحقیقی مقالوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
اور تو کوئی فیض نہیں ہے تجھ سے بے حاصل بے مہر
انشا جی سے نظمیں، غزلیں، گیت، کبت لکھوائی جا
سول سروس سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عشرت حسین جو کبھی اپنے بائیو ڈیٹا میں انتظامی تجربے کے طور پر ’’ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جہلم ‘‘بڑے جلی حروف میں لکھا کرتے تھے لیکن کارپوریٹ کلچر کی وجہ سے اب ان کا تعارف ہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے شروع ہوتا ہے
( اوریا مقبول جان۔روزنامہ 92۔27اگست2018ء)

دودھ میں پانی

کھانے کا ایک لقمہ اٹھایا تو لگا کہ گڑبڑ ہے۔ پوچھا کہ بیسن کس دکان سے خریدا گیا؟ برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ دودھ کا حال تو سبھی کو معلوم ہے۔ پانی ہی نہیں، خطرناک کیمیکل بھی ملائے جاتے ہیں۔ جانوروں کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ 60 برس ہوتے ہیں، چک 42 جنوبی سرگودھا میں، اسکول کے گرامی قدر استاد نے دودھ، دہی اور چائے کی دکان کھولی۔ عورتیں دانتوں میں انگلیاں دبائے وہاں سے گزرتیں اور کہتیں: بیسویں صدی ہے، دودھ تو اللہ کا نور ہے، وہ بھی بکنے لگا۔ دودھ بیچنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس بے دردی کے ساتھ اسے آلودہ کرنا؟عہدِ رسالت مآبؐ میں عربوں کے ہاں دودھ میں پانی شامل کیا جاتا، اسے تازہ رکھنے اور ہاضم بنانے کے لیے۔ عمرؓ ابنِ خطاب کے دور میں شکایات موصول ہونے لگیں کہ پانی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؓ نے پابندی عائد کردی۔ گاہے آپؓ گلیوں میں گشت کیا کرتے۔ ایک خاتون کو انہوں نے کہتے سنا: ’’بیٹی دودھ میں کچھ پانی ملا دو‘‘۔ ’’عمرؓ نے حکم دیا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’عمرکیا یہاں کھڑا دیکھ رہا ہے؟‘‘ جوانی کی بے ساختگی اور بے نیازی سے لڑکی پلٹ کر بولی ’’اللہ تو دیکھ رہا ہے‘‘۔ اس آواز میں ایسی کوئی بات تھی کہ عربوں کا دائمی سردار ریجھ گیا۔ اپنے فرزندوں سے کہا: ’’تم میں سے کوئی اس سے نکاح کرلے‘‘۔ اسی خاتون کی نسل سے وہ آدمی پیدا ہوا، تاریخ جسے پلٹ پلٹ کر دیکھتی اور حیران ہوتی رہتی ہے۔ عمر بن عبدالعزیزؒ، جنہیں پانچواں خلیفۂ راشد کہا گیا۔ جن کی وفات پر قیصرِ روم نے کہا تھا ’’بادشاہ نہیں، وہ ایک راہب تھا۔ دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کردی گئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔‘‘
(ہارون رشید۔ دنیا، 25 اگست2018ء)

اردو میں ظریفانہ شاعری

اردو میں ظریفانہ شاعری کی طویل تاریخ ہے۔ ہر دور میں شاعروں نے اپنے حالات اور اردگرد کے حالات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ 19ویں اور 20 ویں صدی میں شاعروں نے انگریز حکومت کی جدیدیت کی پالیسی کو ظریفانہ شاعری کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک زمانے میں سرسید کی انگریزی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرنے اور نیچر کے فلسفہ کے خلاف پانچ اخبارات نے محاذ بنایا تھا، پھر اکبر الٰہ آبادی تو اس تناظر میں پورے ہندوستان میں شہرت حاصل کرگئے تھے، مگر ڈاکٹر طارق کلیم نے ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر کی نشاندہی کا فریضہ انجام دے کر اردو ادب کے قارئین کو ایک نئے گوشے سے روشناس کرایا۔ کتاب پانچ ابواب اور 389 صفحات پر مشتمل ہے۔
انجمن ترقی اردو کے مشیر، علمی و ادبی شخصیت اور معروف ادیب و دانشور پروفیسر سحر انصاری کی تحریر ’’حرف چند‘‘ سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مزاحمت اردو کا ایک عام لفظ ہے جس سے مقابلے اور معاونت کے پہلو نکلتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے یورپ کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرلیا اور جرمن افواج کے خلاف علمی، سیاسی اور ادبی جدوجہد کو مزاحمت (Resistance) کا نام دیا گیا تو یہ لفظ ایک اصطلاح بن گیا۔ اردو میں اب مزاحمت ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پروفیسر ابرار حسین دیباچے میں لکھتے ہیں کہ فاضل مصنف نے طنز ومزاح کے حوالے سے نظری مباحث کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تعریفات کے ضمن میں جیسی ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور سے کام لیا ہے، اُس سے اس کتاب کی قدرو قیمت یقینا بڑھ گئی ہے۔
(ڈاکٹر توصیف احمد۔ ایکسپریس، 25اگست2018ء)