نام مجلہ : نعت رنگ (شمارہ 27)
نعتیہ ادب کا کتابی سلسلہ
مرتب : سید صبیح الدین رحمانی
صفحات : 536، قیمت فی شمارہ 500 روپے
ناشر : نعت ریسرچ سینٹر، 13-306، بلاک 14 گلستان جوہر کراچی پاکستان
موبائل نمبر : 0333-5567941
ای میل : sabeehrehmani@gmail.com
سید صبیح الدین رحمانی پر اللہ پاک کا خاص فضل ہے کہ اس نے ان کو نعتیہ ادب کا قافلہ سالار بنایا ہے اور ان کی سرداری میں یہ ادبی قافلہ رواں دواں ہے۔ نعت رنگ ایک ایسا مجلہ ہے جس نے اپنے تخصیصی، تحقیقی اور تنقیدی مقالات اور مضامین سے جہانِ ادب میں جہانِ نو پیدا کیا ہے اور اس نے نعت کے ادبی مقام کو منوالیا ہے۔
جناب رئیس امروہوی نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتے ہیں:
نعت کیا ہے؟ نغمۂ پر کیفِ روحانی ہے نعت
نعت کیا ہے؟ اہلِ حق کی زمرمہ خوانی ہے نعت
نعت کیا ہے؟ ایک آہنگِ صداقت روح کا
نعت کیا ہے؟ نغمہ سازِ عقیدت روح کا
جناب سیّد صبیح الدین رحمانی حفظہ اللہ نے جوش و ہوش کی آمیزش سے اپنے بلیغ خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اس عہد میں بعض اہلِ نظر کے یہاں یہ احساس نمایاں طور پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے کہ اس وقت تہذیب و روایت کا وہ نظام اور قدریں مکمل طور سے معرضِ خطر میں ہیں جن کا ذرا سا بھی تعلق ہمارے مذہبی افکار و تصورات سے ہے۔ یہ خیال غلط نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، عصرِ حاضر میں اسلام کا معاملہ بہ یک وقت کئی طرح کی متحارب قوتوں سے ہے۔ ایک طرف وہ مذہب دشمن قوتیں ہیں جو اُسے ہر ممکن مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ قوتیں عالمی سطح پر کام کررہی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے کسی نہ کسی طرح یکسر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد یہ دنیا اُن کے لیے آسان ہدف ہوجائے گی اور دنیا بھر کے انسانوں کو اخلاق و عدل سے عاری نظام حیات کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے باسہولت استعمال کیا جاسکے گا۔ ان کے پس منظر میں وہ لوگ اور ادارے کارفرما ہیں جو زرپرست ذہنیت رکھتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار دنیا کے نمائندے ہیں اور اس کے جال کو بچھانے میں مشغول ہیں۔
دوسری طرف وہ نظریات و افکار ہیں جو زرپرست ذہنیت کو تو بے شک رد کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی کسی گہری بنیادی غلط فہمی کی بنا پر مذہب کو بھی انسانی ترقی اور سماجی مساوات و استحکام کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حالات و واقعات نے اس مفروضے کو اس عہد تک آتے آتے کلیتاً غلط ثابت کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی غلط فہمی کسی طرح رفع نہیں ہوتی، اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ جس مساوات، عدل، استحکام اور خوش حالی کی بات کرتے ہیں، اس کا حصول مذہبی نظام سے ہم آہنگی میں بدرجہا بہتر اور قدرے جلد ممکن ہے۔ اس لیے کہ مذہب تو ان سب امور کو انسانی سماج کے لیے ایک بنیادی تقاضے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ مذہب کے حلیف بن کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آرا ہوں تو نتائج دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوجائیں گے۔ تیسری طرف حقیقی روحِ اسلام سے ناواقف مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اسلام کی اصل تصویر کو ذاتی تاویل و تفسیر کے ذریعے دانستہ نادانستہ مسخ کررہا ہے، اور اس کے تعمیری اور انقلابی پیغام کو غیر مؤثر بنانے میں دشمنوں کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے۔
اسلامی افکار و احکام سے صریح دشمنی اور دیدہ دانستہ ہر ممکن ضرر رسانی کی اس فضا میں مذہبی افکار کی حقانیت اور سربلندی کے لیے کام کرنا اور دینی رشتوں سے اپنے آپ کو منسلک رکھنا، توحید و رسالت کا اثبات و اعلان کرنا، محبتِ رسولؐ کے نغمے چھیڑنا معمولی بات نہیں، لیکن دل کشا حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مذہبی شعور اور اس کے نظام اقدار سے گہری اور پُرخلوص وابستگی کے مظاہر بھی یہاں سے امریکہ تک جہاں جہاں اسلامی معاشرہ قائم ہوا ہے وہاں وہاں واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اس لیے کہ مسلمان کی انفرادی زندگی میں ختمی مرتبت نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفیؐ کی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے تو اجتماعی دائرے میں آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اسلام کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ محبت اور تقاضا دونوں مل کر ایک ایسی مضبوط اساس اور مستحکم رابطے کی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں جس پر اسلامی عقائد و عبادات ہی نہیں، بلکہ باہمی انسانی اخوت و اخلاص کی عمارت بھی استوار ہوتی ہے۔ بقول اقبالؔ:
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرعِ دیں بت کدئہ تصورات
٭
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
اس تناظر میں ہم ایسے مسلمانوں کی زندگی اور اُن کی شعری تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں جو ساری عمر عشقِ نبیِ کریمؐ کو بصد خلوص نہ صرف نبھاتے رہے، بلکہ اپنے افکار و خیالات میں اعلانیہ اپنے ایمان کی اس اساس اور مستحکم سماجی رابطے اور عشق و شوق کے اس تسلسل کا والہانہ اقرار و اظہار بھی غیر مشروط طور پر کرتے رہے۔ یہ وہ خوش بخت لوگ ہیں جو ایک طرف تو اس اقرار و اظہار سے اپنے اور اُمتِ مسلمہ کے دینی جذبات و احساسات کی تکمیل و تسکین کا سامان کرتے رہے اور دوسری طرف انہوں نے اسلام دشمن قوتوں، تحریکوں اور نظریات کی پھیلائی ہوئی فکری تیرگی کے انسانیت دشمن ماحول میں عشقِ نبی کریمؐ کے وسیلے سے عزم و ہمت اور وفاداری و جاں نثاری کے چراغوں کو فروزاں کرکے حقِ غلامی بھی ادا کیا۔ اسلامی تہذیب سے آراستہ معاشروں، ملکوں اور زبانوں میں نعت گوئی انہی جذبات و احساسات کا بلیغ ترین مظہر ہے‘‘۔
’’عربی و فارسی کے بعد اُردو زبان میں بھی نعتیہ شاعری کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ اُردو میں نعتیہ شاعری کی ایک طویل روایت ہے، اور یہ روایت صرف اظہار کے پیرایوں اور پیمانوں کی نہیں، بلکہ اس کا تعلق ان آداب اور محتاط رویوں سے بھی ہے جو مضامینِ مدحت کو تخیلی پیکر دینے اور برتنے میں نزاکتیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اُس بارگاہ میں نہ تو بے باکیوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی غیر معتدل مبالغے کی پذیرائی۔ اس لیے نعتیہ شاعری روایتی شاعری سے کہیں زیادہ مشکل ہے، لیکن ان مشکلات اور پابندیوں کے باوجود نعتیہ شاعری کو رسمی طرزِ سخن کے خانے میں رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، کیوں کہ نعتیہ شاعری گہری ارادت اور عقیدت سے تحریک تو ضرور پاتی ہے، لیکن اسے محض عقیدت و محبت کا اظہار سمجھنا اس کی فکری و فنی قدر و قیمت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غزل، نظم یا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کی طرح ایک ایسی صنفِ اظہار ہے جس میں نازک خیالات اور گہرے افکار کو سہارنے کی پوری سکت ہے۔ نعت کا تخلیقی تناظر اس امر کی صداقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
ہمارے عہد تک آتے آتے اُردو میں نعتیہ شاعری عظمت، رفعت، علمی وقار، لسانی بلندی و لطافت کی مقبولیت کی کئی منازل طے کرچکی ہے اور آج یہ اپنے موضوع کے لحاظ سے اُردو شاعری میں ایک امتیازی شان سے جلوہ گر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اُردو نعت گوئی میں فکری اور تخلیقی اعتبار سے جو توانا رجحانات سامنے آئے ہیں، وہ خوش کن ہی نہیں فکر افروز بھی ہیں۔ عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا نظام فکر و وجدان، قرآنی تعلیمات اور اسلامی اقدار و شعائر کے تحت تشکیل پاکر سامنے آتا ہے۔ آج کا نعت نگار اجتماعی، انفرادی اور کائناتی دکھوں کے مداوے کے لیے سیرتِ اطہر سے روشنی کشید کررہا ہے۔ یوں ہماری نعت اسلام اور روحِ اسلام، کائنات اور مقصدِ کائنات، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حیاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیم کا ایک وسیلہ بن کر محض عقیدت کا معاملہ نہیں رہی، بلکہ فکری و فنی سطح پر بھی ادب و تہذیب کا معتبر حوالہ بن گئی ہے‘‘۔
سیّد صاحب نے مبسوط اداریہ لکھا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کے ارادوں کو قوی رکھے اور ان کے قلم کی ضیا باریاں قائم رکھے۔ اللہم زد فزد۔
یہ اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ منفرد مجلہ ہے۔
نام مجلہ: سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی
مدیر مسئول: حضرت مولانا عبدالرئوف بادشاہ
مدیر: منفعت احمد
معاون مدیر: محمد اسلام حقانی
صفحات: 152 قیمت فی شمارہ 80 روپے
رابطہ: دفتر سہ ماہی الصدیق۔
معہدالصدیق للدراسات الاسلامیہ
بام خیل، صوابی، خیبرپختون خوا
فون: 0313-9803280-0345-9506009
ای میل: alsiddiq 2016@gmail.com
سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی تحقیق میں ندرت اور تنوع کا حامل علمی، تحقیقی اور اصلاحی مجلہ ہے جس میں گراں قدر تحقیقی اور علمی و دینی مقالات و مضامین شائع ہوتے ہیں۔ زیر نظر شمارہ بھی سابقہ شماروں کی طرح عمدہ و اعلیٰ افکار کا حامل ہے۔ مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
’’حالاتِ حاضرہ کی منظر کشی (نظم)‘‘اکبر الٰہ آبادیؒ، ’’علمی اختلاف مگر باہمی تصادم اور انتشار سے اجتناب‘‘ منفعت احمد(مدیر)، ’’فکرِ غامدی کے متعلق چند اہم مباحث‘‘ حافظ محمد موسیٰ بھٹو، ’’خروج علی الحکام اور امام ابوحنیفہؒ‘‘ مولانا محمد اسماعیل ریحان، ’’شریعت، سائنس اور عقل‘‘ مولانا توقیر بدر قاسمی، ’’لڑکی کی پیدائش میں عورت کا کردار‘‘ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ’’مولانا امین اورکزئی شہیدؒ کے ساتھ میری علمی سرگزشت‘‘ مولانا سجاد الحجابی، ’’زینب کیس، قسامۃ کا قانون‘‘ ڈاکٹر سید خالد جامعی، ’’ایل سی تعارف اور اس کے احکام و مسائل‘‘ مفتی شاد محمد شاد، ’’وراثت کی تقسیم میں کوتاہیاں‘‘ مولانا عبدالرئوف بادشاہ، لبرل سرمایہ دارانہ انقلاب کی بنیادیں‘‘ ڈاکٹر عبدالوہاب سوری، ’’مسلم دنیا اور جدید فکری و تہذیبی چیلنجز‘‘ ڈاکٹر سید حسین نصر، ’’بیٹ کوین اور ڈیجیٹل کرنسیز کے ثمنیت کا تحقیقی جائزہ‘‘ مفتی ثناء اللہ، ’’امام بخاریؒ بحیثیت مفسر‘‘ مولانا محمد کامران ہوتی، ’’کھانا جمع کرنے کے لیے طلبہ کو گھر گھر بھیجنا‘‘ مفتی عبیدالرحمن، ’’جامعہ کے شب و روز‘‘ مولانا صالح محمد، ’’کتاب شناسی‘‘ مبصر کے قلم سے۔
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔
……٭٭٭……