پیشکش:ابو سعدی
جس شخص کے دل میں ایمانِ راسخ موجود ہوگا اور جو اللہ سے ایسا ڈرنے والا ہوگا جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اُس کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے اور اُسے راہِ حق کی دعوت نہ دے۔ کہیں بدی کا وجود پائے اور اُس کو مٹانے کی کوشش نہ کرے۔ طبیعتِ مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مُشک، کہ رائحہ [خوشبو] ایمان اُس کے جسم تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی ہے جہاں تک پھیلنے کا اُسے موقع ملے، یا چراغ کہ نورِ ایمان سے جہاں وہ منور ہوا، اور اُس نے آس پاس کی فضا میں اپنی شعاعیں پھیلا دیں۔ مشک میں جب تک خوشبو رہے گی، وہ مشامِ جاں کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا، روشنی کرتا رہے گا۔ مگر جب مُشک کی خوشبو قریب سے قریب سونگھنے والے کو بھی محسوس نہ ہو، اور چراغ کی روشنی اپنے قریب ترین ماحول کو بھی روشن نہ کرے، تو ہر شخص یہی حکم لگائے گا کہ مُشک، مُشک نہیں رہا اور چراغ اپنی چراغیت کھو چکا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے، کہ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے، نیکی کا حکم نہ دے، بدی کو برداشت کرے اور اِس سے روکے نہیں، تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ اُس میں خوفِ خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہوگئی ہے… ایک وقت وہ آئے گا کہ کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہوں گے مگر اُن کی شمعِ ایمان میں اتنی روشنی بھی نہ ہوگی کہ اپنے قریبی ماحول ہی کو منور کرسکیں، بلکہ ظلمتِ کفر کے غلبے سے خود اُن کے اپنے نور کے بجھ جانے کا خوف ہوگا۔ لہٰذا ایسی حالتوں کے لیے اُس نے فرمایا کہ تمھارے اندر کم از کم ایک ایسی جماعت تو ضرور ہی موجود رہنی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دینے والی اور بدی کا مقابلہ کرنے والی ہو۔ کیونکہ اگر تمھارے اندر ایک ایسی جماعت بھی نہ رہے، تو پھر تم کو عذابِ الٰہی اور قطعی ہلاکت و تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔
(’اشارات‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد 40، عدد2، ذی الحجہ131ھ، ستمبر1953 ء، ص 8۔9)
ایک شعر جسے احمد فراز نے خود قلمبند کیا
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
پھول روئے تو اسے خندہ شاداب س سمجھ
دعا کی قبولیت
ایک دفعہ حضرت ادھم بلخی سے سوال کیا گیا:کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا؟
آپ نے فرمایا: اس وجہ سے کہ تم خدا کو جانتے ہو، مانتے ہو، مگر اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتے ہو مگر ان کی پیروی نہیں کرتے۔ قرآن کریم پڑھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کھاتے ہو مگر اس کا شکر نہیں کرتے۔ جانتے ہو کہ دوزخ گناہ گاروں کے لیے ہے مگر اس سے نہیں ڈرتے۔ شیطان کو دشمن سمجھتے ہو مگر اس سے نہیں ڈرتے، اس سے نہیں بھاگتے بلکہ اس سے دوستی کرتے ہو۔ خویش و اقارب کو اپنے ہاتھوں زمین میں دفن کرتے ہو مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ موت کو برحق جانتے ہو مگر عاقبت کا کوئی سامان نہیں کرتے بلکہ دنیا کا سامان جمع کرتے ہو۔ اپنی برائیوں کو ترک نہیں کرتے، لیکن دوسروں کی عیب جوئی کرتے ہو۔
بھلا ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو!
(ماہنامہ سرگزشت، کراچی۔ جنوری2006ء)
فلسفی سقراط کے اقوال
٭اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔
٭خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔
٭سب سے مہربانی سے ملو، کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔
٭میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں لوگوں کو صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔
٭ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔
٭اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
٭بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔
٭علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔
٭سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔
٭اگر تم وہ حاصل نہ کرسکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے، کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔
٭تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔
٭میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔
٭حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔
٭موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔
٭تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔
٭میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔