۔21 اگست کو صدر ٹرمپ کی جارحانہ افغان پالیسی کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ اس دوران سارے ملک پر وحشیانہ بمباری نے افغانستان میں قبرستانوں کو آباد کردیا ہے۔ نئی امریکی حکمت عملی کے تحت نیٹو افواج کی نقل و حرکت چھائونیوں تک محدود کردی گئی ہے، جہاں یہ ماہرین افغان سپاہیوں کو تربیت دیتے ہیں اور میدان میں سینہ سپر سرکاری سپاہ کو مواصلاتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈرونز اور بمباروں کا کنٹرول بھی ان ماہرین کے ہاتھ میں ہے، جبکہ میدان میں طالبان کا مقابلہ کابل فوج کا کام ہے۔
تباہ کن بمباری سے شہری نقصان تو بہت ہے لیکن گوریلا جنگ کے 40 سالہ تجربے کی بنا پر طالبان نے بمباری سے بچائو کے طریقے سیکھ لیے ہیں۔ افغانستان کا بڑا حصہ چھوٹے بڑے پہاڑوں پر مشتمل ہے، جن کے غاروں میں طالبان نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ لڑائی کے دوران بھی وہ ’’مارو اور دوڑ جائو‘‘ (Hit and Run) کے قائل ہیں، یعنی وہ جم کر نہیں لڑتے بلکہ اچانک حملہ اور دشمن کی چوکیوں کو تاراج کرکے امریکی بمباروں کے آنے سے پہلے ہی وہ علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ سے طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے اور ان کے حملے زیادہ مؤثر و مہلک ہوگئے ہیں۔ طالبان کو افغانستان میں برتری تو ایک عرصے سے حاصل ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی نیٹو فوج کو چھائونیوں تک محدود رکھنے کی حکمت عملی نے افغان سپاہیوں کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ 30 دنوں میں طالبان کے ہاتھوں ایک ہزار سے زیادہ سرکاری فوجی مارے گئے۔ غیر جانب دار عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ کابل حکومت اور اس کی فوج عملاً مفلوج ہوچکی ہے، اور اب سارے کا سارا افغانستان طالبان کے رحم و کرم پر ہے۔
صرف ایک ہفتے کے دوران:
٭بغلان میں دو فوجی اڈوں پر طالبان کے حملوں میں سیکورٹی فورسز کے کم از کم 40 اہلکار مارے گئے اور بھاری مقدار میں گولہ بارود پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔
٭صوبہ غزنی کے دارالحکومت پر حملے میں سرکاری فوج چند گھنٹے بھی کھڑی نہ رہ سکی۔ درجنوں سپاہیوں کی ہلاکت کے بعد افغان فوجی پسپا ہوگئے اور بہت آسانی سے سارا شہر ملاّئوں کے آگے سرنگوں ہوگیا۔ حسبِ توقع کابل انتظامیہ نے نیٹو فضائیہ کو طلب کیا، لیکن طیاروں کے آنے سے پہلے ہی طالبان نے جنوب کی جانب پسپائی اختیار کرتے ہوئے کابل سے زارنج جانے والی مرکزی شاہراہ پر قبضہ کرلیا۔ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے آنے والی شاہراہ زارنج سے جڑی ہوئی ہے، یعنی طالبان نے کابل کا چاہ بہار سے رابطہ منقطع کردیا۔ غزنی و میدان وردک کے آس پاس مرکزی شاہراہوں پر قبضہ کرکے ملاّئوں نے افغانستان میں ٹریفک کا نظام مفلوج کردیا ہے۔ نیٹو طیاروں نے غزنی اور اس کے مضافات پر شدید بمباری کی لیکن طالبان وہاں سے پہلے ہی کھسک چکے تھے۔
٭بمباری میں ناکامی کے بعد زمینی دستے حرکت میں لانے کا منصوبہ بنا، لیکن بند شاہراہوں نے راستہ روک لیا۔ چنانچہ غزنی کے پڑوسی صوبے پکتیا کی چھائونی سے کمک بھیجی گئی، اور یہ قافلہ مرکزی شاہراہ بند ہونے کی بنا پر کچی سڑکوں سے لوگر اور میدان وردک کے راستے غزنی کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن شاہین صفت ملاّ غضب کی نظر رکھتے ہیں۔ ابھی یہ قافلہ غزنی سے 85 کلومیٹر دور وردک کے شہر سید آباد میں تھا کہ طالبان نے اسے گھیر لیا۔ اس حملے میں 50 سے زیادہ سرکاری فوجی مارے گئے۔ وہ تو خیر رہی کہ امریکی بمبار بروقت پہنچ گئے ورنہ پورا قافلہ صا ف ہوجاتا۔
٭اسی دوران صوبہ لوگر کے ایک بڑے شہر عذرا کی فوجی چھائونی کو طالبان نے تاراج کردیا اور مدد کو آنے والے اتحادی طیاروں نے بدحواسی میں افغان فوج کی چوکی کو ہی نشانہ بنادیا جس سے 9 سرکاری سپاہی مارے گئے۔
٭ابھی نیٹو جنوب میں بند شاہراہوں کو کھولنے اور قبضہ کی ہوئی چوکیاں واپس لینے کے لیے کمک بھیجنے کی تیاری ہی کررہا تھا کہ طالبان ترکمانستان کی سرحد پر فریاب صوبے کے مرکزی شہر غورمچ پر چڑھ دوڑے۔ شمال مغربی شہر غورمچ چند سال پہلے تک بادغیس صوبے کا حصہ تھا۔ طلوع نیوز کے مطابق شدید لڑائی اور کمک کے راستے مسدود ہونے پر افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور شہر پر طالبان کے جھنڈے لہرا دیے گئے۔ فریاب کے فارسی بان علاقوں میں عبدالرشید دوستم اور صدراشرف غنی کی چپقلش سے صورت حال پہلے ہی بہت کشیدہ ہے جس کی بنا پر کابل سے آنے والی کمک کو ان علاقوں میں گلم جم ملیشیا کے چھاپہ مار حملوں کا سامنا ہے۔ کابل انتظامیہ نے غورمچ کا قبضہ چھڑانے کے لیے نیٹو سے مدد طلب کی لیکن حسبِ توقع امریکہ زمینی دستے بھیجنے پر تیار نہیں بلکہ بمباری کے زور پر طالبان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ یہ اور بات کہ مولوی مالِ غنیمت سمیٹ کر وہاں سے کوچ کرچکے ہیں۔
٭غورمچ پر حملے کے دوسرے ہی روز طالبان نے بغلان سے متصل خواجہ گھر کے فوجی اڈے پر حملہ کردیا۔ یہ علاقہ صوبہ تخار کا حصہ ہے۔ حملے میں 30 فوجی ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان سنت اللہ تیموری کے مطابق حملے میں ’ سرکشوں‘ نے افغان نیشنل آرمی کے اڈے سے سارا اسلحہ ’چرا‘ لیا۔ علاقے پر اتحادی طیاروں کی شدید بمباری سے درجنوں شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ افغان فوج کا یہ اڈہ جو تخار اور قندوز کی سرحد پر واقع ہے، پلِ مومن کہلاتا ہے۔ پل مومن قندوز کے شہر دشتِ آرچی کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے، اور اب کسی بھی وقت قندوز پر طالبان کا حملہ متوقع ہے۔
٭نیٹو کے مطابق طالبان نے رات کے حملے کے لیے ایک خصوصی دستہ ترتیب دیا ہے۔ اس فوج کو حزب الاحمر یا سرخ فوج کہا جاتا ہے۔ سرخ فوج کے سپاہی تاریکی میں دیکھنے والی عینک یا ’نائٹ وژن گوگلز‘ سے آراستہ ہیں، اور اب رات کے گھپ اندھیرے میں تُکّے چلانے کے بجائے افغان سپاہیوں کو تاک تاک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
طالبان حملوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 14 اور 15 اگست یعنی صرف اڑتالیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں سو سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ دارالحکومت کابل، جنوب میں ننگرہار، پکتیا، زابل اور غزنی سے لے کر شمال میں فاریاب، قندوز، بلخ، بدخشاں اور تخار… ہر جگہ ملاّ دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں۔
افغان فوج میں نظم و ضبط کا فقدان ہے اور سپاہیوں میں قومی یگانگت بھی نہیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے فوج میں پشتونوں کی بھرتی بند ہوگئی ہے اور زیادہ تر سپاہی اور جونیئر افسران فارسی بان ہیں جن کی بڑی تعداد نائب صدر عبدالرشید دوستم کی وفادار ہے کہ انھیں دوستم ہی نے بھرتی کیا ہے۔ سینئر افسران اور جرنیل پشتون ہیں جنھیں فارسی بان سپاہی اور چھوٹے افسر پسند نہیں کرتے۔ یہ خبر عام ہے کہ صدر اشرف غنی کے ایما پر دوستم کے وفادار اہلکاروں کو حکومتی نوکریوں سے نکالا جارہا ہے جس کی وجہ سے فارسی بانوں میں سخت بے چینی ہے، اور یہ بددلی فوج کے تاجک و ازبک سپاہیوں میں بھی نظر آرہی ہے۔ فارسی بان سپاہیوں کی اکثریت منشیات کی عادی ہے اور یہ سپاہی چوکیوں اور ناکوں پر نشے میں دھت پڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں طالبان حملہ آوروں کی آمد کی خبر ہی نہیں ہوتی اور یہ بیچارے تاریک راہوں میں بری طرح مارے جارہے ہیں۔ منشیات کی تلاش میں بہت سے سپاہی رات کو چوری چھپے چھائونیوں سے نکل کر منشیات فروشوں کے پاس جاتے ہیں اور بندوق کے زور پر افیون کا مطالبہ کئی بار ڈرگ مافیا اور افغان فوج کے درمیان خونریز تصادم کا سبب بن چکا ہے۔
واشنگٹن کے عسکری نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان کے معاملے میں مایوس ہوچکے ہیں۔ ان کے وزیرخاجہ مائک پومپیو کا بھی یہی خیال ہے کہ اس دلدل سے جتنی جلد نکل جایا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ان کی نائب ایلس ویلز کئی بار افغانستان اور پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں۔ محترمہ کا بھی یہی خیال ہے کہ طالبان کو فوجی شکست دینا ناممکن ہے لیکن اس کمبل سے جان چھڑانا بھی اتنا آسان نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ طالبان سے معاہدے کی کوئی صورت نکل آئے تاکہ نیٹو کے لیے باوقار پسپائی کا راستہ ہموار ہوسکے، تاہم طالبان کا اصرار ہے کہ وہ کابل انتظامیہ سے بات نہیں کریں گے، اور امریکیوں سے بات چیت کی صورت میں بھی وہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل، فوری اور غیر مشروط انخلا سے کم پر رضامند نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں طالبان نے اپنی پوزیشن بہت بہتر بنالی ہے اور ان کا خیال ہے کہ انھیں کسی قسم کی سودے بازی کی کوئی ضرورت نہیں۔
طالبان عسکری قوت کے ساتھ سیاسی و سفارتی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر گزشتہ چند ماہ کے دوران ان کی کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بڑے شہروں پر طوفانی حملے کرکے امریکہ بہادر کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ آپ کی بمباری قطعاً غیر مؤثر ہے اور افغانستان میں ہم جب اور جہاں چاہیں قبضہ کرسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ سفارتی محاذ پر بھی سرگرم ہیں۔ قطر میں ان کا آفس امریکہ اور یورپی یونین سے رابطے میں ہے اور خود افغانستان میں ان کی طرف سے بات چیت پر آمادگی کے اشارے مل رہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ جب بھی ٹوئٹ میں کسی عسکری کامرانی کا ذکر کرتے ہیں اسی کے ساتھ اس عزم کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ افغانستان میں غیر ضروری خونریزی کو روکنے کے لیے ملاّ حضرات بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی میں بھی یہی پیغام پوشیدہ تھا۔ خبر گرم ہے کہ عیدالاضحی پر بھی وہ عارضی جنگ بندی کی پیشکش کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف کابل حکومت کا رویہ بہت ہی غیر واضح ہے اور وہ زمینی حقائق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ طالبان کے ہر حملے کے بعد اس کا الزام پاکستان پر لگایا جارہا ہے۔ ابھی غزنی کے حملے کے بارے میں افغان وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور ان میں پاکستان کے شہری بھی شامل ہیں۔ ان الزامات پر امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں زخمی ہونے والے طالبان کو علاج کے لیے کوئٹہ لایا جارہا ہے۔ یہ الزامات اس اعتبار سے بالکل ہی غیر سنجیدہ اور مہمل لگتے ہیں کہ جنگ زدہ ملک میں شدید زخمیوں کو جیپوں پر سوار کراکے پہاڑی راستوں سے سینکڑوں میل کا سفر ممکن ہی نہیں جبکہ ہر بڑے شہرکے گرد نیٹو سپاہیوں کی چوکیاں ہیں۔
طالبان سے جنگ بندی اور افغانستان سے نیٹو فوج کا انخلا کابل حکومت کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے کہ امریکی فوج کے ہٹتے ہی کابل سمیت سارا افغانستان طالبان کے قبضے میں آجائے گا، اور اشرف غنی انتظامیہ کو ڈر ہے کہ طالبان ان پر غداری اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلائیں گے۔ دوسری طرف طالبان سے لڑنا بھی افغان فوج کے بس کی بات نہیں۔ طالبان کے حملوں میں آنے والی شدت سے ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ دونوں ہی پریشان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ محض فضائی مدد کافی نہیں بلکہ نیٹو کے زمینی دستوں کو افغان سپاہیوں کے شانہ بشانہ طالبان سے لڑنا چاہیے۔ لیکن جب بھی نیٹو کے سپاہی میدان میں اترے، انھیں جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی بار تو طالبان کے حملوں سے جھلاّ کر افغان سپاہی خود ہی اتحادیوں کو نشانہ بنا لیتے ہیں۔ اسی بنا پر صدر ٹرمپ امریکی فوج کو طالبان کے مقابلے پر لانے کو تیار نہیں۔ اس وقت سارے امریکہ میں انتخابی مہم جاری ہے اور وسط مدتی انتخابات کے دنوں میں امریکی پرچموں میں لپٹے تابوتوں کا امریکہ آنا ری پبلکن پارٹی کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ ریت کی دیوار کی طرح بیٹھتی کابل سرکار اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گراکر امریکہ بہادر کو اسلام آباد کے خلاف براہِ راست کارروائی پر اکسا سکتی ہے اور اس سمت میں کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ حالیہ تابڑ توڑ حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف الزامات کی بھرمار ہے۔ کابل کا کہنا ہے کہ طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔ پاکستانی فوج چھاپہ ماروں کو قبائلی علاقوں میں تربیت دے کر افغانستان کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے قوم پرستوں و سیکولر عناصر کی شکل میں کابل انتظامیہ کو وکیل بھی میسرآگئے ہیں۔ حال ہی میں وائس آف امریکہ سے ایک گفتگو میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے پاکستان کے بارے میں افغانستان کے ’تحفظات‘ پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مداخلت کرکے پاکستان قوموں کی برادری میں تنہا ہوتا جارہا ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار اے این پی کے ایک اور رہنما جناب افتخار حسین نے بھی فرمایا۔ اسلام آباد کو اس سلسلے میں حد درجہ چوکنا اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کہ پاکستان کو براہِ راست ملوث کرنے کے لیے طالبان کے تعاقب کا الزام لگاکر افغان فوج کی جانب سے ایک بڑا حملہ خارج از امکان نہیں۔