پاکستان میں 2018کے انتخابات کے حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے ۔ کچھ اس کی حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں بول اور لکھ رہے ہیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں انتخابات کی اہمیت ہوتی ہے اور یہ عمل ملک کے شہریوں کو اپنی نئی سیاسی قیادت منتخب کرنے کا حق دیتا ہے ۔اسی لیے جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سیاسی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرکے انتخابی معرکہ جیتنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ یہی کچھ صورتحال انتخابات 2018کے تناظر میں موجود تھی۔ اس انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور بالخصوص مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان پنجاب کے سیاسی منظر نامہ میں ایک بڑی سیاسی جنگ کا میدان سجا تھا۔ دونوں قوتیں ایک دوسرے پر سیاسی برتری حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں اور دونوں اچھی طرح جانتی تھیں کہ پنجاب کو فتح کیے بغیر کوئی بھی مرکز میں اپنی حکومت نہ تو قائم کرسکے گا اور نہ ہی سیاسی برتری حاصل کرسکے گا۔
2018کے انتخابی نتائج پر اگرچہ سیاسی قوتیں یا فریقین تقسیم ہیں اور ایک مخصوص طبقہ انتخابی نتائج کی شفافیت کو چیلنج کرریا ہے ۔ ان کے بقول یہ نتائج شفافیت پر مبنی نہیں اور پس پردہ قوتوں نے انتخابی نتائج میں ردوبدل کرکے عوامی مینڈیٹ کی نفی کی ہے ۔اس الزام میں کہاں تک صداقت ہے مگر یہ بحث کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔کیونکہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روایت ہمارے سیاسی کلچر کا بدنما حصہ ہے ۔لیکن انتخابی دھاندلی کے مسئلہ سے ہٹ کر اگر ہم ان انتخاب میں حصہ لینے والی قومی اور علاقائی یا مذہبی جماعتوں کی کارکردگی کا تجزیہ ووٹوں اور سیٹوں کے تناسب سے کریں تو یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ انتخابی معرکہ 2018میں سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں ۔
مثال کے طور پر تحریک انصاف نے 2013کے عام انتخابات میں پورے ملک سے 76لاکھ 79ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن2018 کے انتخابات میں ان کے ووٹوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی نے 1کڑور 66لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔جبکہ مسلم لیگ ن نے 2013کے انتخابات میں 1کڑور 48لاکھ جبکہ 2018کے انتخابات1کڑور28لاکھ ووٹ حاصل کیے ، یعنی ان کے ووٹ 2013کے مقابلے میں کم ہوئے ہیں ۔پیپلز پارٹی نے 2013میں 69لاکھ 11ہزار جبکہ 2018میں 69لاکھ 1ہزار ووٹ حاصل کیے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بینک وہیں کھڑا ہے او رکوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا۔آزاد امیدواروں نے 2013کے انتخابات میں 58لاکھ 80ہزار جبکہ 2018میں 60لاکھ 18ہزار ووٹ حاصل کیے ۔
2018کے انتخابات میں ایک بڑا عنصر مذہبی سیاست کا تھا ۔ اس میں ایک طرف پانچ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘ تھا تو دوسری طرف تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ نے بھی مذہبی انتخابی سیاست میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا، ان انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو 25لاکھ 69ہزار ، تحریک لبیک کو حیران کن طور پر 22لاکھ 34ہزار ووٹ اسی طرح ملی مسلم لیگ نے بھی کچھ لاکھ ووٹ حاصل کیے ۔یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی ووٹ بینک موجود ہے ، لیکن اس کی حیثیت اتنی زیادہ نہیں کہ یہ لوگ تن تنہا انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرسکیں ۔ لیکن ان مذہبی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں نے دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو کمزور کیا اور بعض نشستوں پر ان بڑی جماعتوں کے امیدواروں کی ہار میں مذہبی ووٹ نے بھی کردار ادا کیا ۔
سندھ میں پیپلزپارٹی نے اس دفعہ 2013کے مقابلے میں زیادہ قومی اور صوبائی نشستیں جیتی ہیں ۔لیکن2013میں اس نے سندھ سے 44لاکھ 68ہزار جبکہ 2018میں 38لاکھ 71ہزارووٹ حاصل کیے یعنی ان کا ووٹ بینک کم ہوا ہے ۔جبکہ ایم کیو ایم جس نے 2013میں 24لاکھ 6ہزار جبکہ 2018میں ان کا ووٹ بینک داخلی بحران کے تناظر میں کم ہوا جو کم ہوکر محض 5لاکھ 54ہزار رہ گیا ہے ۔جبکہ تحریک انصاف نے 2013میں 8لاکھ 52ہزار جبکہ 2018 میں 16لاکھ 99ہزار ووٹ حاصل کیے ۔اسی طرح خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے 2013میں 15لاکھ 62ہزار جبکہ 2018میں ان کے ووٹ بینک میں بڑا اضافہ ہوا یعنی 26لاکھ 45ہزار ووٹ حاصل کیے ۔سندھ میں اس دفعہ پیپلز پارٹی کو صوبائی سطح پر ایک مضبوط حزب اختلاف کا بھی سامنا ہے ، جہاں پی ٹی آئی ، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد64کے قریب ہے ۔خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی کی صورتحا ل عملی طور پر ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک انصاف کے حق میں رہی اور اس نے کراچی میں غیر متوقع طور پر 14قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرکے مخالفین کو حیران کردیا ۔ اس کی وجہ ایک طرف ایم کیو ایم کی داخلی تقسیم اور گروپ بندی تھی تو دوسری طرف کراچی کے نوجوان اور کاروباری طبقہ کی عمران خان کی طرف پزیرائی تھی ۔ کراچی میں لوگ کافی دہائیوں سے ایم کیو ایم کی پر تشدد سیاست سے نالاں تھے اور ان کو لگا کہ ایم کیو ایم کے داخلی بحران کی وجہ سے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ کراچی میں عمران خان کو موقع دیں تاکہ وہ واقعی یہاں کچھ تبدیل کرسکیں۔ اب عمران خان کراچی کی سیاست میں کیا کچھ تبدیل کرسکیں گے وہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
2018کے انتخابی معرکہ میں مخصوص نشستوں کو چھوڑ کر براہ راست انتخاب میں پی ٹی آئی کو 116، مسلم لیگ ن کو 64 ، پیپلزپارٹی کو 43، ایم ایم اے کو 12، مسلم لیگ ق کو 4، ایم کیو ایم کو 6، بلوچستان عوامی پارٹی کو 4،جی ڈی اے کو 2، عوامی نیشنل پارٹی کو 1، بلوچستان نیشنل پارٹی کو 3،جمہوری وطن پارٹی کو 1،عوامی مسلم لیگ کو 1جبکہ آزاد امیدواروں کو 13نشستیں ملی ۔ایک عمومی تاثر یہ دیا گیا تھا کہ ان انتخابات میں آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیت کر آئیں گے او ران کو کسی نہ کسی شکل میں پس پردہ قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ، یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا۔ان انتخابات میں عورتوںکی مخصوص قومی اور صوبائی نشستوں پر بڑے بڑے سیاسی خاندان کی اجارہ داری قائم رہی اور سب ہی جماعتوں نے ان عورتوں کی نشستوں کی تقسیم پر میرٹ کا بری طرح استحصال کیا ، جو سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوری سیاست کی کمز وری کی نشاندہی کرتاہے ۔
پنجاب جہاں واقعی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں پانی پت کی جنگ تھی اور یہاں کانٹے دار مقابلہ ہوااور دونوں جماعتوں میں قومی اور صوبائی سطح پر نشستوں کے حصول میں بہت کم مارجن رہا ۔پنجاب میںقومی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے 61جبکہ مسلم لیگ ن نے 60نشستیں حاصل کیں ۔جبکہ صوبائی سطح پر پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد اپنی تعداد139جبکہ مسلم لیگ ن کی 128نشستیں ہیں ۔جبکہ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں مجموعی طور پر 1کڑور13لاکھ 97ہزار541ووٹ حاصل کیے ،جبکہ تحریک انصاف نے 1کڑور17لاکھ 9ہزار358 ووٹ حاصل کیے ۔پنجاب میں پیپلز پارٹی اس دفعہ بھی کوئی خاص برتری حاصل نہ کرسکی اس نے 22لاکھ 19ہزار 664ووٹ حاصل کیے ۔پنجاب میں2013میں پی ٹی آئی کو شہری سطح پر ووٹ ملے تھے ، جبکہ اس دفعہ اس کا موثر اثر دیہی اور شہری دونوں سطح کے ووٹروں میں نظر آیا، جو ان کی بڑی کامیابی کا سبب بنا ہے ۔البتہ وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی برتری بدستور قائم رہی ۔
اس دفعہ خلاف توقع پنجاب میںبڑے بڑے مضبوط الیکٹ ایبلز جن کا بڑا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا وہ ان انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنی برتری قائم رکھی او ریہ جو تاثر تھا کہ الیکٹ ایبلز کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا، غلط ثابت ہوا۔البتہ ان انتخابات میں جو ایک بڑا اثر ووٹ کے تناظر میں پڑا وہ نوجوان ووٹروں کا تھا ۔ تحریک انصاف نے جو اپنے ووٹوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ پورے ملک میں کیا اس کی بڑی وجہ نوجوان ووٹروں کا تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف جھکاؤ تھا ۔مسلم لیگ (ن) جسے اس دفعہ 2018کے انتخابی معرکہ میں بہت زیادہ تنظیمی، داخلی سیاسی مسائل ، قانونی پیچیدگیاں اور بالخصوص پانامہ کا مقدمہ او راس میں نواز شریف کی سزا کا سامنا تھا ۔ اس صورتحال میں بھی مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں حکومت تو نہیں بناسکی مگر اس کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد بہت بہتر ہے ۔
عمران خان کی کامیابی کے پیچھے ایک بڑا فیکٹر پانامہ کا مقدمہ اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ تھا ۔ اسی طرح نظام کی موثر تبدیلی ، احتساب ، کرپشن جیسے نعروں کو بہت زیادہ پزیر ائی کا ملنا بھی تھا ۔پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری عدالتی محاذ آرائی سمیت اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف جاری مہم کو بھی اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور بہت سے ووٹروں نے نواز شریف کے بیانیہ کی حمایت نہیں کی ،جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف بیانیہ کی تقسیم نے بھی انتخابی سیاست میںمسلم لیگ کی دو عملی سیاست کو قبول نہیں کیا۔شہباز شریف کسی بھی صورت میں خود کو نواز شریف کا متبادل ثابت نہیں کرسکے اور ان کو عوام میں بطور لیڈر تسلیم بھی نہیںکیا گیا ۔شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے حوالے سے سامنے آنے والی سیکنڈل ، کمپنیوںکے اسکینڈل، میگا پراجیکٹ میں مبینہ کرپشن ، صاف پانی اور میڑو بس ملتان کے مالی اسیکنڈل بھی سامنے آئے جس نے مسلم لیگ کو کافی دفاعی پوزیشن پر کھڑ ا کردیا ۔
2018کے انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میںپہلی بار دوجماعتی نظام یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جاری اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل ختم ہوا۔ پہلی بار ایک تیسری قوت تحریک انصاف نے بطور جماعت خود کو ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر پیش کیا ، جو عمومی طور پر دنیا میں جاری مضبوط دو جماعتی نظام میں ممکن نہیں ہوتا۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف اپنی اس متبادل سیاسی قوت اور برتری کو کب تک قائم رکھتی ہے ۔کیونکہ دو بڑی جماعتیں چاہیں گی کہ تحریک انصاف کی یہ برتری مستقل نہیں بلکہ عارضی برتری ہو او رجلد یہ ہی دو بڑی قوتیں دوبارہ انتخابی سیاست میں اپنی برتری کو حاصل کرسکیں ۔اس کا بڑا انحصار تحریک انصاف کی اپنی حکومتی کارکردگی سے جڑا ہے کیونکہ اگر یہ نئی حکومت عوامی توقعات پر پورا نہ اترسکی تو جلد ہی لوگ اس سے بھی نالاں ہونگے اور اس کا فائدہ ان کے سیاسی مخالفین اٹھائیں گے اور حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرکے نئی بحرانی کیفیت کو پیدا کرسکتے ہیں۔