ان کے منانے کا جو طریقہ مقرر کیا گیا ہے وہ بھی اتنا پاکیزہ ہے کہ اُس سے زیادہ نفیس، مہذب اور اخلاقی فائدوں سے لبریز طریقہ تصور میں نہیں آسکتا
عرب، ایران، مصر، شام اور دوسرے ملکوں میں جن قوموں نے اسلام قبول کیا ان کے تمام مذہبی اور قومی تہوار اسلام نے چھڑوا دیے، اور ان کی جگہ دو تہوار رائج کیے جنہیں آپ عید اور بقرعید کے نام سے جانتے ہیں۔ ان میں سے پہلا تہوار تو اس خوشی میں منایا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر رمضان کے تیس روزے رکھنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی تعمیل کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا اس تعمیلِ فرمان سے فارغ ہوکر ہم اپنے مالک کا شکر بجا لاتے ہیں۔ رہا دوسرا تہوار، تو وہ اُس بے نظیر قربانی کی یادگار ہے جو اب سے چار ہزار برس پہلے خدا کے ایک سچے فرماں بردار بندے نے اپنے مالک کے حضور پیش کی تھی۔ ان دونوں تہواروں میں آپ صریحاً دیکھ سکتے ہیں کہ کسی مخصوص قومیت یا وطنیت کا لگائو بالکل نہیں ہے بلکہ دو ایسی چیزوں کو تہوار کی بنیاد بنایا گیا ہے جن سے دنیا کے سارے خدا پرست انسانوں کے جذبات یکساں وابستہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح دونوں تہواروں میں خداوندِ عالم کی خالص بندگی کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ کسی قسم کی اکابر پرستی (hero worship) کا یا کسی مخلوق کی پرستاری کا ادنیٰ شائبہ بھی آپ ان میں نہیں پاسکتے۔ پھر ان تہواروں کے منانے کا طریقہ جو مقرر کیا گیا ہے وہ بھی اتنا پاکیزہ ہے کہ اُس سے زیادہ نفیس، مہذب اور اخلاقی فائدوں سے لبریز طریقہ تصور میں نہیں آسکتا۔ بعد کے مسلمانوں نے اسلامی عید کی اصلی شان کو کسی حد تک جاہلیت کے افعال سے داغ دار کردیا ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس طرح عید منائی جاتی تھی اس کا نقشہ میں آپ کے سامنے کھینچتا ہوں جس سے آپ اس تہوار کی پاکیزگی کا صحیح اندازہ کرسکیں گے۔
عید منانے کا طریقہ
عید کے روز صبح کو تمام مسلمان عورت، مرد، بچے سب غسل کرتے تھے اور اچھے سے اچھے کپڑے جو خدا نے ان کو دیے ہوں، پہن کر نکلتے تھے۔ رمضان کی عید میں نماز کے لیے جانے سے پہلے تمام خوش حال لوگ ایک مقرر مقدار میں کھانے کا سامان یا اس کی قیمت غریبوں کو دیتے تھے تاکہ کوئی شخص عید کے روز بھوکا نہ رہ جائے۔ بقرعید میں اس کے برعکس نماز کے بعد گھر واپس آکر قربانی کی جاتی تھی اور اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔ ذرا دن چڑھنے پر سب لوگ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ حکم تھا کہ عورت، مرد، بچے سب نکلیں تاکہ مسلمانوں کی کثرت اور ان کی شان کا اظہار ہو، خدا سے دُعا مانگنے میں بھی سب شریک ہوں، اور اس اجتماعی مسرت میں بھی سب کو شرکت کا موقع مل جائے۔ عید کی نماز مسجد کے بجائے بستی کے باہر میدان میں ہوتی تھی تاکہ بڑا مجمع ہوسکے۔ نماز کے لیے جاتے وقت سارے مسلمان یہ تکبیر پڑھتے ہوئے چلتے تھے:
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
ترجمہ:۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
ہر گلی، ہر کوچے، ہر محلے، ہر بازار اور ہر سڑک پر یہی نعرے لگتے تھے جن سے ساری بستی گونج اُٹھتی تھی۔
عیدگاہ کے میدان میں جب سب لوگ جمع ہوجاتے تو صفیں باندھ کر سارا مجمع رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں پوری باقاعدگی کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے۔ جمعے کی نماز کے برعکس یہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ آدمی اپنے لیڈر کی اُس اہم تقریر کے وقت موجود رہیں جس کا موقع سال میں صرف دو ہی مرتبہ آتا ہے۔ پہلے ایک تقریر مردوں کے سامنے ہوتی، پھر آپؐ میدان کے اُس حصے کی طرف تشریف لے جاتے جہاں عورتیں جمع ہوتی تھیں۔ اور وہاں بھی تقریر فرماتے تھے۔ ان تقریروں میں تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کے علاوہ اسلامی جماعت کے متعلق اُن تمام اہم مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی جو اس وقت درپیش ہوتے تھے۔ کوئی فوجی یا سیاسی مہم اگر پیش نظر ہوتی تو اس کا انتظام بھی وہیں اسی مجمع میں کردیا جاتا۔ جماعتی ضروریات کی طرف بھی لوگوں کو توجہ دلائی جاتی اور ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ان کے پورا کرنے میں حصہ لیتا، حتیٰ کہ روایات میں آیا ہے کہ عورتیں اپنے زیور تک اُتار اُتار کر خدا کے دین اور جماعتِ مسلمین کی خدمت میں پیش کردیتی تھیں۔
پھر یہ مجمع عیدگاہ سے پلٹتا تھا اور حکم یہ تھا کہ جس راستے سے آئے ہو اس کے خلاف دوسرے راستے سے گھروں کی طرف واپس جائو تاکہ بستی کا کوئی حصہ تمہاری چہل پہل سے اور تمہاری تکبیروں کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔
نماز سے فارغ ہوکر بقرعید کے روز تمام ذی استطاعت مسلمان قربانی کرتے تھے۔ اس قربانی کا مقصد اس واقعے کی یاد ہی کو نہیں بلکہ اُن جذبات کو بھی تازہ کرنا تھا جن کے ساتھ عراق کا رہنے والا ایک غریب الوطن بوڑھا انسان مکے میں خدا کا اشارہ پاتے ہی خود اپنے بیٹے کو خدا کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوگیا تھا اور عین وقت پر خدا نے اپنے رحم و کرم سے اس کو بیٹے کے بدلے مینڈھے کی قربانی پیش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ ٹھیک اُسی تاریخ کو اُسی وقت تمام مسلمان وہی فعل عملاً کرکے اس جذبے کو تازہ کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح وہ بھی خدا کے مسلم اور مطیع فرمان بندے ہیں، انہی کی طرح اپنی جان، مال، اولاد، ہر چیز کو خدا کے حکم اور اس کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کا جینا اور مرنا سب کچھ خدا کے لیے ہے۔ اس نیت کا اظہار جانور کو ذبح کرنے کے فعل سے اور اُن الفاظ سے ہوتا ہے جو ذبح کے وقت زبان سے ادا کیے جاتے ہیں:
ترجمہ: ’’میں نے اپنا رُخ پھیر دیا اُس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ میں ٹھیک اُسی طریقے کا پیرو ہوں جو ابراہیمؑ کا طریقہ تھا۔ میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ پروردگارِ عالم کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں خدا کے فرماں بردار بندوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی دیا ہوا مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے، بسم اللہ اللہ اکبر۔‘‘
یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہوئے جانور ذبح کیا جاتا تھا اور اس منظر کو گھر کی عورتیں اور بچے سب دیکھتے تھے تاکہ سب کے دلوں میں وہی قربانی اور خدا کی محبت و فرماں برداری کے جذبات تازہ ہوجائیں۔ پھر یہ گوشت غریبوں اور رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور اس کا ایک حصہ گھر میں اپنے کھانے کے لیے بھی رکھ لیا جاتا تھا۔ جانور کی کھال یا اُس کی قیمت غریب لوگوں کو دے دی جاتی تھی۔ اور اس کے علاوہ بھی دل کھول کر خیرات کی جاتی تھی تاکہ عید صرف خوش حال لوگوں ہی کا تہوار بن کر نہ رہ جائے۔
بس یہ عید تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منائی جاتی تھی۔ ان ’’سرکاری‘‘ مراسم کے علاوہ ’’غیر سرکاری‘‘ طور پر جوان لوگ کچھ کھیل کود بھی کرلیتے تھے اور گھروں کی لڑکیاں بالیاں مل بیٹھ کر کچھ گیت بھی گا لیا کرتی تھیں۔ مگر یہ چیز بس ایک حد کے اندر ہی تھی، اُس سے آگے قدم بڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ سوسائٹی کے لیڈر تو جوانوں کی ان جائز اور معصوم خوش فعلیوں میں بھی حصہ لینے سے اجتناب کرتے تھے تاکہ ان کی اتنی ہمت افزائی نہ ہو جس سے وہ ناروا مظاہرے کرنے کی جرأت کرنے لگیں۔
اس معاملے میں لیڈروں کا جو طرزِعمل تھا اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے جو مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ ایک دفعہ عید کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا حضرت عائشہؓ کے پاس پڑوس کی دو لڑکیاں بیٹھی گیت گا رہی ہیں۔ گیت کچھ عشق و عاشقی اور شراب و کباب کے مضمون کے نہ تھے بلکہ جنگِ بُعاث کے زمانے کے گیت تھے۔ لڑکیاں بھی کوئی پیشہ ور فن کار و موسیقار نہ تھیں بلکہ گھروں کی بہو بیٹیاں تھیں جو کبھی دل بہلانے کو آپس میں بیٹھ کر معصومانہ گیت گا لیا کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تفریح میں دخل نہ دیا اور خاموشی کے ساتھ ایک گوشے میں جاکر چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے اپنی صاحبزادی کو ڈانٹ بتائی کہ رسولؐ کے گھر میں یہ کیا شیطانی حرکت ہے! ان کی آواز سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: رہنے دو، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، آج ہماری عید ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکرؓ خاموش ہوگئے، مگر وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ اُن کے پیٹھ موڑتے ہی حضرت عائشہؓ نے لڑکیوں کو آنکھ کا اشارہ کیا اور وہ اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوان لوگوں کے معصومانہ کھیل کود اور کچھ گا بجا لینے کو جائز تو رکھا جاتا تھا مگر بڑے لوگ خود ان دلچسپیوں میں حصہ لے کر ان کی ہمت نہیں بڑھاتے تھے۔ بعد میں جب بڑوں نے حدود کی نگہداشت چھوڑ دی تو رسّی ڈھیلی ہی ہوتی چلی گئی، حتیٰ کہ ناچ رنگ سے گزر کر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ؎
روزِ عید است لبِ خشک زمے آلود کنید
چارئہ کارِ خود اے تشنہ لباں زُود کنید
(’’نشری تقریریں‘‘، فروری 1978ء، ص 96-86)