وزیراعظم پاکستان

عام انتخابات کے بعد ملک میں مرکز اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل ہوچکی ہے، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران احمد خان نیازی 176 ووٹ لے کر وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے ہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم کے امیدوار میاں شہبازشریف 97 ووٹ حاصل کرپائے۔ یوں عمران خان کو اپوزیشن بینچوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے ایوان میں محض چار ووٹوں کی برتری ملی ہے، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے وزیراعظم کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا۔ اس طرح ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کی بنیاد پر متحدہ اپوزیشن کا وجود بھی ختم ہوگیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دوبارہ صف بندی ہوگی اور اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے لیے اپوزیشن جماعتوں میں جوڑ پڑے گا۔ جہاں اپوزیشن بکھری ہے وہیں تحریک انصاف کے اتحادی بھی یکسو نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم کے انتخاب اور حلف برداری کی تقریب میں شیخ رشید احمد کیوں اور کہاں غائب تھے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے، انہی کے باعث تحریک انصاف یہاں تک پہنچی ہے۔ لال حویلی اس معاملے پر ضرور بولے گی۔ وہ ضمنی انتخاب کی منتظر ہے۔
تحریک انصاف کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لیے جوڑتوڑ کے ماہرین نے چھے ماہ تک ایک ایک حلقے میں چھان پھٹک کی تھی، لیکن قومی اسمبلی میں تحریک انصاف محض چار ووٹوں کی برتری سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگلے مرحلے میں اب کابینہ تشکیل پائے گی اور سینیٹ میں قائدِ ایوان تبدیل ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفرالحق کی جگہ تحریک انصاف اپنا قائدِ ایوان لائے گی۔ روایت یہی ہے کہ سینیٹ میں قائدِ ایوان وزیراعظم کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے، اسی لیے سینیٹ میں اکثریت کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے پاس اب یہ عہدہ نہیں رہے گا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کی وجہ سے مرکز کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کو سیاسی اور جمہوری مینڈیٹ ملا ہے، اب عمران خان کو ثابت کرنا ہے کہ وہ اس مینڈیٹ کے اہل تھے یا نہیں۔
عام انتخابات کے نتائج کے بعد اسمبلیوں کی تشکیل تک تو تحریک انصاف نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہے وہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ حکومت حاصل کرنے کی شدید خواہش کے باوجود وہ تنظیمی اور ذہنی طور پر اس مینڈیٹ کی قومی ذمے داری کے اصل تقاضوں سے بہت دور کھڑی ہے۔ ناتجربہ کاری، آپس کی کھینچا تانی، وزارتوں کے لیے دوڑ، تحریک انصاف میں دوسرے درجے کی لیڈرشپ میں شخصی ٹکرائو اس وقت اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ قومی اسمبلی میں حلف کے روز تو فضا پُرامن رہی، تاہم اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی میں تنائو کی کیفیت میں ہوا۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے ان تینوں دنوں کی کارروائی مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں رکھی، پارلیمنٹ ہائوس کی بیوروکریسی کے ذریعے اسپیکر چیمبر میں بیٹھے ہوئے سردار ایاز صادق کو بے بس کرنے کی بھرپور کوشش کی، حتیٰ کہ میڈیا کے نمائندوں اور مہمانوں کے لیے پاسز کے اجراء کا نظام بھی اپنے ہاتھ میں لیے رکھا، یہ طرزعمل مستقبل میں نومنتخب اسپیکر اسد قیصر کے لیے مشکل پیدا کرتا رہے گا۔ انہیں قومی اسمبلی کی پارلیمانی روایات کا کوئی تجربہ نہیں ہے، جب کہ ان کے سامنے ایوان میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی سینئر ترین ٹیم بیٹھی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے طرزعمل تبدیل نہ کیا تو اسپیکر اسد قصر کے لیے اپوزیشن کی اس ٹیم کی موجودگی میں ایوان چلانا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔
عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن)، ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا گیا تھا، لیکن یہ اتحاد اب قائم نہیں رہا، اس اتحاد میں پہلی دراڑ اسپیکر کے انتخاب کے وقت پڑی جب خورشید شاہ کے لیے ڈالے گئے آٹھ ووٹ مسترد ہوئے، پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں اسپیکرشپ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک کوشش کی، ملک کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون بھی متحرک رہے، لیکن تحریک انصاف جن کے بل بوتے پر یہاں تک پہنچی انہوں نے پراپرٹی ٹائیکون کو قابو کیا، اور یوں یہ معرکہ تحریک انصاف کے لیے ہر ممکن حد تک آسان بنایا گیا۔ اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا چنائو ایک بڑا اور اہم مرحلہ تھا، اس مرحلے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد ریزہ ریزہ ہوگیا، پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ن) کے شہبازشریف کو وزیراعظم کے لیے امیدوار تسلیم نہیں کیا اور ووٹ بھی نہیں دیا، ایم ایم اے اتحاد بھی اسی کیفیت سے گزرا۔ اس مرحلے پر اپوزیشن اتحاد کے بکھرنے کی بڑی وجہ سیاسی مجبوریوں کی آکاس بیل میں جکڑا ہوا پیپلزپارٹی کا فیصلہ تھا، لیکن ایم ایم اے کے لیے تو کوئی مجبوری نہیں تھی، بہرحال اس نے کہکشائوںکے بجائے پتھروں پر چل کر شہبازشریف کو ووٹ دیا۔
وزیراعظم کے انتخاب کے بعد نومنتخب وزیراعظم، اپوزیشن کی بڑی جماعت کے سربراہ اور دیگر پارلیمانی لیڈروں کا خطاب ایک روایت ہے، یہ روایت بھی ناتجربہ کار اسپیکر کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے روایتی خطاب میں بھی دھرنے کی زبان بول کر یہ بتادیا کہ مستقبل میں بھی ان سے کسی نرم گفتگو کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ قومی اسمبلی کی تمام پارلیمانی جماعتوں، حتیٰ کہ تحریک انصاف کے سینئر پارلیمنٹرین کے لیے بھی یہ لہجہ اجنبی تھا جس کا اظہار انہوں نے فرائیڈے اسپیشل کے استفسار پر کیا۔ مسلم لیگ(ن) کے شہبازشریف نے اپنے پہلے روایتی خطاب میں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا کہ یہ کمیشن ایک ماہ کے اندر ایوان میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو نے متاثر کن خطاب کیا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے شہبازشریف کو ووٹ نہ دے کر آہنی ہاتھوں کو اپنے لیے نرم رویہ رکھنے کا پیغام دیا لیکن اس کے باوجود شاید بات بنی نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے شہبازشریف کو ووٹ نہ دے کر مقتدر قوتوں سے اپنے مفاہمانہ کردار کا جواب مانگا ہے لیکن قومی اسمبلی میں سخت تقریر کرکے اپوزیشن کا کردار بھی مانگ لیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی کے اس کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی، کیونکہ شہبازشریف کے لیے پیپلزپارٹی کی اس ٹیم کے ساتھ چلنا اور اسے سمجھنا آسان بات نہیں ہوگی۔ شہبازشریف نے جس طرح پنجاب میں کام کیا، وہ قومی اسمبلی میں رہ کر مرکز میں اس طرح کام نہیں کرسکیں گے۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں عمران خان کو elect prime ministerکہنے کے بجائے select prime minister کہا، یوں انہیں بہت بڑا سیاسی طعنہ دیا۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے یہ جملہ سوچ سمجھ کر بولا ہے۔ قومی اسمبلی میں روایتی خطاب کے دوران ایک نئی روایت سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے ارکان نے بھی احتجاج کیا، حالانکہ وہ حکومت میں ہیں اور انہیں اپوزیشن کو سننا ہے، انہیں ایوان میں ماحول خراب کرنے کا موقع نہیں دینا۔ تحریک انصاف کا یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ تحریک انصاف کے احتجاج کا ردعمل یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے عمران خان کو بطور نومنتخب وزیراعظم سکون کے ساتھ تقریر نہیں کرنے دی اور ان کی نشست کا گھیرائو بھی کیا۔ اس دوران مہمانوں کی گیلریوں میں بیٹھے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکن بھی نعرے بازی کرتے رہے۔ تحریک انصاف نے ایوان میں بیک وقت حکومتی اور اپوزشین بینچوں کا کردار سنبھالے رکھا۔ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کے بعد اندازہ نہیں بلکہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ حکومت نے رویہ تبدیل نہ کیا تو اس کا پہلے دن سے ہی کائونٹ ڈائون شروع ہوجائے گا۔
اب چونکہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، وزیراعظم کا حلف ہوچکا ہے، اب عمران خان کو اگلے مرحلے میں کابینہ تشکیل دینی ہے، یہ مرحلہ ان کے لیے بہت مشکل ہے۔ ان کی پارٹی میں ایک نہیں متعدد گروپ بنے ہوئے ہیں جن کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ شاہ محمود قریشی کابینہ میں رہنا چاہتے ہیں اور خواہش ہے کہ وہ بااثر وفاقی وزیر بنیں۔ عمران خان انہیں پہلے اسپیکر قومی اسمبلی بنانا چاہتے تھے لیکن وہ جہانگیر ترین کے بُنے ہوئے اس جال میں نہیں آئے، اب ترین چاہتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر رہیں اور وزارتِ خارجہ کا قلم دان انہیں دیا جائے۔ ترین یہ بھی چاہتے ہیں کہ وزارتِ داخلہ پارٹی میں ان کے کسی دوست کو ملے، پرویزخٹک اس کے لیے ان کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ لاکھ دعویٰ کرے کہ پارٹی میں کوئی گروہ بندی نہیں، لیکن اس میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی گروپ موجود ہیں، اور پوری طرح فعال بھی ہیں۔ یہی گروپ بندی اسد قیصر کو اسپیکر کے عہدے پر لائی، کے پی کے میں محمود خان وزیراعلیٰ بنے اور پنجاب میں عثمان بزدار اسی گروپ بندی کے باعث وزیراعلیٰ بنائے گئے ہیں۔ کابینہ میں دوسرا اہم منصب وزارتِ خزانہ کا ہے۔ اسد عمر شروع دن سے اس منصب کے امیدوار ہیں، لیکن عمران خان ان پر ابھی تک مکمل بھروسا نہیں کررہے اور انہیں جواب بھی نہیں دیا، تاہم ان کی مدد کے لیے بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے سابق سیکریٹری خزانہ اشفاق حسن خان اور عبد الرزاق دائود اور ایک اہم سابق بیوروکریٹ کو وزارت خزانہ میں لگانا چاہتے ہیں۔ اسد عمر نے کسی نجی محفل میں اس پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ اسد عمر کے بارے میں پارٹی کے اندر یہ رائے موجود ہے کہ وہ معیشت دان نہیں ہیں لہٰذا وزارتِ خزانہ کا جہاز ان کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ اسد عمر اور وزیراعظم عمران خان کا اصل امتحان بھی یہیں سے شروع ہوگا کہ وہ کیسے مشیر لگاتے ہیں۔ آج ملک کی معیشت تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہے اس میں ڈاکٹر اشفاق حسن کا بھی ہاتھ اور کردار ہے، اب وہ کس طرح سدھارنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں! عمران خان نے کابینہ اور اہم شعبوں کے لیے ٹیم کے انتخاب کا کام سابق بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ جرنیلوں پر چھوڑ رکھا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیم بناکر دیں۔ ان کی حکومتِ کے پی کے کے سابق بیوروکریٹ ارباب شہزاد کا بہت عمل دخل میں ہوگا۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ نومنتخب حکومت کس طرح بہتری لائے گی۔ باہر بیٹھ کر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے، اب وہ حکومت میں آئے ہیں تو انہیں سب بھائو معلوم ہوجائے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100دن؟۔

گزشتہ پندرہ برسوں میں یہ مسلسل تیسری جمہوری حکومت ہے۔ مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے انتخابات سے قبل اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کا پروگرام دیا تھا، جس میں معیشت، خارجہ امور، داخلی سلامتی، اور انصاف کی فوری فراہمی کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے نکات شامل تھے، اُس وقت یہی سمجھا گیا اور یقین بھی تھا کہ خارجہ امور، داخلی سلامتی، معیشت اور قومی سلامتی کے تمام فیصلے حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کرے گی، جبکہ دیگر شعبوں میں وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کے لیے جیسے چاہے فیصلے کرے، اسے اختیار ہوگا۔ سو دنوں کا پروگرام انتخابی نتائج سے قبل محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تھی، اب جب کہ نتائج آچکے ہیں اور حکومتیں بھی تشکیل پا چکی ہیں لہٰذا تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں کے پروگرام کو سیاسی، قانونی اور آئینی تقاضوں کے مطابق دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر چلتی ہے، اور مشترکہ فیصلوں کے لیے آئین نے مشترکہ مفادات کی کونسل تشکیل دی ہے، اس کونسل میں منظوری لیے بغیر کوئی پالیسی اور فیصلہ بیک وقت چاروں صوبوں میں نافذ نہیں ہوسکتا، اگر کوئی صوبہ انکار کردے تو وفاقی حکومت کا فیصلہ صرف اسلام آباد اور وفاق کے زیرانتظام علاقوں میں ہی نافذ ہوگا۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ پہلے سو دنوں میں وہ امور، جن کے لیے صوبوں کا اتفاقِ رائے آئینی لحاظ سے لازمی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت صوبوں کی محتاج ہوگی۔ تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں میں حکومت کی سطح پر ابھی تک تو کوئی کام نہیں ہوا البتہ پارٹی کی سطح پر نعیم الحق اور عون چودھری کو پارٹی کے تنظیمی امور سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب وہ حکومت کے کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔
اب جائزہ لیتے ہیں سو دنوں کا۔ سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہم اہلِِ یقین تو نہ بن سکے البتہ ’’مغلوبِِ گماں‘‘ ضرور ہوگئے۔ یقین کسی بھی قوم کے وجود میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یقین کے بغیر کسی قوم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ہم پر بھی بے یقینی مسلط کردی گئی ہے۔ بانیٔ پاکستان نے ’’تنظیم‘‘ (ڈسپلن) کو تیسرا راہنما اصول قرار دیا تھا۔ کسی بھی ریاست کا دستور یا آئین اسے تنظیم یا ڈسپلن کی لڑی میں پرونے کا کام کرتا ہے۔ قائداعظم نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں آئین کے راہنما اصول تو وضع کردئیے تھے تاہم اُن کے بعد اِن راہنما اصولوں کے ساتھ وہ کھلواڑ ہوا کہ خود قائد کی روح بھی تڑپ اُٹھی ہوگی۔ طویل عرصے بعد 1973ء میں اس سرزمینِ بے آئین کو پہلا متفقہ آئین نصیب ہوا، لیکن امورِ مملکت کو ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘کے اصول پر چلانے والوں کو یہ کہاں منظور تھا! اس لیے مختصر وقفے کے بعد ایک بار پھر آئین کے بجائے’’طاقت‘‘ کے ذریعے ’’ڈسپلن‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ تجربہ کسی نہ کسی رنگ میں تاحال جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سطح پر بدترین بدنظمی، بدعنوانی اور نفسانفسی کا دور دورہ ہے، جو جتنا طاقتور ہے اُتنا بے مہار ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ اگر آج بھی ہم خلوصِ نیت سے قائد کے راہنما اصولوں اتحاد، تنظیم، یقین محکم کو اپنا لیں تو ’’عظیم پاکستانی قوم‘‘ کی تشکیل کا سفر شروع کیا جا سکتا ہے۔ زخم زخم ہونے کے باوجود اگر اس ملک کے عوام کو اپنی تقدیر بدلنے کا موقع دیا جائے تو وہ برق رفتاری سے ناممکن کو ممکن بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت تحریک انصاف نے الیکشن 2018ء سے قبل اپنا 100 روزہ ایجنڈا پیش کیا تھا، اس ایجنڈے میں تبدیلی، معاشی ترقی کی بحالی اور ملک کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اس ایجنڈے پر کیسے عمل کرتے ہیں۔
پہلے 100 دن کے ایجنڈے میں تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستان کو اس وقت معیشت، خارجہ امور، موسمی تبدیلی، داخلی صورتِ حال جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اس کے اثرات صرف زیادہ درختوں سے کم ہوسکتے ہیں۔ اب اس کے سو روزہ پروگرام کا جائزہ لیتے ہیں، اس کے اہم نکات یوں تھے:
صوبائی انتظامیہ، قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے زیرانتظام خیبر پختون خوا کے ساتھ، بلوچستان کے سیاسی معاہدے، جنوبی پنجاب صوبے کے انتظامی شعبوںکا قیام،بلوچستان میں صوبائی حکومت کو زیادہ اختیار فراہم کرنا، صوبے میں مقامی آبادی میں اضافی ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرنا، شہری سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے ایک وفاقی منصوبہ متعارف کرانا،کراچی میں سیکورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانا ،اقتصادی ترقی کو بحال کرنا، نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی اور سیاحت کو فروغ دینا، پانچ سال کے اندر اندر ایک کروڑ ملازمتیں تخلیق کرنے کی پالیسی تیار کرنا جس میں نوجوانوں کو مہارتوں کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی، مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو فروغ دینا اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیز رفتار ترقی کے لیے راستہ تیار کرنا، نئے سیاحتی مقامات کو پہلے 100 دنوں میں دریافت کرنا، پاکستان کو تجارت دوست ملک بنانا، ٹیکس اصلاحات اور0 5 لاکھ گھروں کی تعمیر، بجلی بحران کو ختم کرنا، چین-پاکستان اقتصادی راہداری کو انقلابی منصوبے میں تبدیل کرنا۔