نومنتخب رکن قومی اسمبلی نوابزادہ افتخار احمد خان سےانٹرویو

فرائیڈے اسپیشل:آپ ایک پرانے سیاسی خاندان کے رکن ہیں، آپ کے والدِ محترم نواب زادہ نصر اللہ خان پاکستان کی سیاست کا ایک اہم اور نمایاں نام ہے، جمہوریت کے لیے اُن کی خدمات ہمیشہ سے تسلیم کی جاتی رہی ہیں، یہ فرمائیے کہ آپ کا سیاسی وژن کیا ہے اور اسمبلی میں پارٹی کے پروگرام کے فروغ کے لیے کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: بہت شکریہ، میں جانتا ہوں کہ آپ کا میرے والدِ محترم کے ساتھ بھی بہت تعلق رہا ہے، وہ پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کا دوسرا نام تھے، ایوب خان کی آمریت کے خلاف انہوں نے ملک کی جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائی تھی، اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ بنیادی طور پر ووٹ کی اہمیت سے واقف تھے، جمہوری اقدار سے ان کا تعلق رہا، سیاسی و انسانی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد رہی۔ میں نے بھی اسی لیے پیپلزپارٹی جوائن کی۔ نواب زادہ صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جمہوریت کے لیے بہت کام کیا، ایم آر ڈی میں دونوں اکٹھے رہے، بعد ازاں اے آر ڈی کے نام سے اتحاد بنا۔ یہاں میں اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اپنی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھ پر اعتماد کیا۔ ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے حلقے کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ہر دم جدوجہد کروں گا اور حلقے میں علی پور، شاہ جمال، روہیلاں والی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے اور اس میں شامل ہوکر غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس ملک کو خوشحال بنایا جائے، یہاں جمہوریت مستحکم بنائی جائے، غریب کے لیے عزت سے جینا آسان بنایا جائے اور جمہوریت کے ذریعے ملک کو مضبوط بنایا جائے اور قومی سلامتی کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جائے جس سے ملک مضبوط ہو اور ہمارا دفاع بھی مضبوط ہو۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اس وقت محترم بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے وہ اس ملک کے نوجوانوں کے لیے امید ہیں۔ وہ بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے سیاسی نظریات اور افکار کو لے کر چل رہے ہیں، قومی اسمبلی کے سبکدوش اسپیکر ایاز صادق نے بھی جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی کے کردار کی تعریف کی ہے، اُن کے الفاظ ہماری پارٹی کی جدوجہد کا اعتراف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس وقت آنے والی نسلوں کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے سیاسی و معاشی نظریات اور تصورات سے آگاہ کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہم اپنے اسلاف کے نظریات سے دور ہوکر گزشتہ ستّر برسوں سے مغربی جمہوریت اور مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام چلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں غریب غریب تر ہوتا چلا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اس ملک کے غریبوں کو پسماندگی سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔ مغربی سیاسی و معاشی نظام کی وجہ سے پاکستان مقروض، غریب اور پسماندہ ہے، اگر پاکستان کے ریاستی نظام کی قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق تشکیلِ نو کی جاتی تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں ہم پاکستان کے لیے یہ منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس وقت اسمبلی بن چکی ہے اور اتفاق سے یہ مہینہ بھی آزادی کا مہینہ ہے، پاکستان کی نوجوان نسل کو کیسے پاکستان کے لیے مفید شہری بنایا جاسکتا ہے؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: پاکستان کے نوجوانوں کو بلاول بھٹو کے ساتھ چلنا چاہیے اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اور ان کی روشنی میں ریاستی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے توانا آواز بلند کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے اپنی تحریروں میں ’’روحانی جمہوریت‘‘ اور ’’سماجی جمہوریت‘‘ کی اصطلاحات استعمال کیں۔ اپنے ایک آرٹیکل میں علامہ اقبال نے تحریر کیا: ’’جمہوریت انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہو۔ مسلم امہ کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی فرق کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہوں‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو پروگرام پیش کیا اس میں زرعی اصلاحات، زرعی انکم ٹیکس، امیروں پر ٹیکس اور غریبوں پر سرمایہ کاری جیسی عوامی و فلاحی تجاویز شامل تھیں۔ علامہ اقبال مغربی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ معاشی نظام کے اس حد تک مخالف تھے کہ جس کھیت سے کسان کو روزی میسر نہ ہو اس کھیت کی فصل کو جلادینا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل:پیپلزپارٹی کاشت کاروں کی جماعت بھی ہے، اس طبقے کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: دیکھیں اس وقت ملک میں بجلی کا بحران ہے، ملک کا کاشت کار پانی کی عدم فراہمی سے پریشان ہے، بجلی کے بلوں کی زیادتی سے پریشان ہے۔ کاشت کاروں کو اپنی فصلیں بچانے کے لیے پانی چاہیے۔ بجلی ہوگی تو پانی بھی ہوگا۔ اس وقت کاشت کاروں کو بجلی سستی ملنی چاہیے، ڈیزل سستا ملنا چاہیے تاکہ ٹیوب ویل چلاسکیں، پانی چاہیے تاکہ فصلیں بچ سکیں۔ میں پیپلزپارٹی کی قیادت کی رہنمائی میں قومی اسمبلی میں کاشت کاروں کے مسائل کے حل کی کوشش کروں گا۔ ہماری قیادت ملک کو اسلامی، فلاحی، اور عوامی بنانے کی خواہش مند ہے۔ قائداعظم نے غریب عوام کے لیے یہ ملک حاصل کیا۔ ہم پاکستان میں ایسا نظام نافذ کریں گے جس کے نتیجے میں عام آدمی کے معیارِ زندگی میں اضافہ ہو۔ ہم ایسا نظام چاہتے ہیںکہ ہمارے عوام خوش اور مطمئن ہوں۔ ہمیں اپنے مقدر کا فیصلہ اپنے طریقے سے کرنا ہے اور دنیا کو اپنا معاشی نظام دکھانا ہے جو اسلام کے حقیقی تصور مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی ہو۔
فرائیڈے اسپیشل:اس وقت ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، بہتر اقتصادی ماحول کے لیے کیا چیلنجز ہیں؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: یہ بات درست ہے اور تشویش ناک بھی ہے کہ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 86.8 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں قرضوں میں 47 کھرب 52 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کے قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 298 کھرب 61 ارب 20 کروڑ روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ یہ سب کچھ ماضی کی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور ہماری قیادت کو بھی ملک کے مسائل کا ادراک ہے۔ بلاول بھٹو صاحب کئی بار اور بہت سی میٹنگز میں ملک کی معیشت کے بارے میں تشویش ظاہر کرچکے ہیں۔ بھٹو صاحب کا نظریہ تھا کہ محنت کرو اور ملک کو خوشحال بنائو، ہم بھی یہی نظریات آگے بڑھائیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل:ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے کیسے اقدامات کیے جائیں کہ بہتری آسکے؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے لیے ورلڈ بینک کی فنی اور مالی امداد سے بھی کوئی بہتری نہیں آسکی۔ 2013ء میں غیر حکومتی بیرونی قرضوں کا حجم 649 ارب روپے تھا، اس میں 1300 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس قرضے میں اضافے کی وجہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غیر منطقی پالیسیاں ہیں۔ قومی اقتصادیات کی تنظیم کے حوالے سے ان کے غیر سنجیدہ رویوں کے باعث قومی مالی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا رہا۔
فرائیڈے اسپیشل: انتخابات میں دھاندلی کا بہت شور ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
نواب زادہ افتخار احمد خان: ہماری جماعت کو بھی تحفظات ہیں، ہم نے پارٹی کی میٹنگ میں اس پر بات کی ہے، لیکن ہم اپنی بات جمہوری انداز میں ہی لے کر چلیں گے۔ جمہوریت کو تسلیم کرنا ہی اس ملک کے لیے ضروری ہے۔ ہم پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجیں گے، ہمارا مطالبہ ہے کہ دھاندلی میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔