خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ، اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب

خیبر پختون خوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے سابق صوبائی وزیرِ اعلیٰ تعلیم اور کچھ عرصہ وزیر اطلاعات رہنے والے مشتاق احمد غنی81 ووٹ حاصل کرکے اسپیکر، جبکہ پشاور کے صوبائی حلقے پی کے 66 سے ایم ایم اے کے سابق صوبائی وزیر زکوٰۃ و عشر حافظ حشمت خان کو شکست دے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے محمود جان 78 ووٹ لے کر ڈپٹی اسپیکرصوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اسپیکر کے لیے امیدوار ایم ایم اے کے لائق محمد خان نے27 اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے امیدوار مسلم لیگ (ن) کے جمشید خان مہمند نے 30 ووٹ حاصل کیے۔ پریزائیڈنگ آفیسر سردار اورنگزیب نلوٹھا نے نومنتخب اسپیکر مشتاق غنی سے، جبکہ نومنتخب اسپیکر مشتاق غنی نے ڈپٹی اسپیکر محمود جان سے حلف لیا۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں آزاد حیثیت سے کامیاب امیدواروں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد گنتی کرائی گئی جس میں 108ووٹ پول کیے گئے۔ واضح رہے کہ 124کے ایوان میں کُل 111ارکان نے حلف اٹھایا ہے، 3 ارکان نے اسپیکر کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا جس میں پیپلز پارٹی کی نگہت یاسمین اورکزئی تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے اپنا ووٹ پول نہیں کرسکیں، جبکہ کوہستان کے حلقہ پی کے25 سے کامیابی حاصل کرنے والے محمد دیدار ووٹ نہیں ڈال سکے۔ اسی طرح پریزائیڈنگ آفیسر کی خدمات سرانجام دینے والے مسلم لیگ(ن) کے سردار اورنگزیب نلوٹھا نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں مجموعی طور پر109ووٹ پول ہوئے جس میں اسپیکر کی کرسی سنبھالنے کے بعد مشتاق احمد غنی اور ایوان نہ آنے کے باعث محمد دیدار ووٹ پول نہ کرسکے۔ 109پول شدہ ووٹوں میں ایک ووٹ مسترد کیا گیا۔
نومنتخب اراکین صوبائی اسمبلی کی حلف برداری، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دو مراحل کے بعد وزیراعلیٰ کے انتخاب کے تیسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار محمود خان 77 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، جبکہ اپوزیشن کے امیدوار میاں نثار گل کاکاخیل کے حق میں 33 ووٹ آئے۔ اس طرح خیبر پختون خوا کے 28 ویں وزیراعلیٰ کے طور پر محمود خان نے حلف اٹھا لیا ہے۔ گورنر خیبر پختون خوا انجینئر اقبال ظفر جھگڑا نے نومنتخب وزیراعلیٰ محمود خان سے گورنر ہائوس پشاور میں حلف لیا اور اس طرح حالیہ انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختون خوا دیگر تینوں صوبوں پرحکومت سازی میں سبقت لے جانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
وزیراعلیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں صوبائی اسمبلی کے نومنتخب اسپیکر مشتاق غنی، ڈپٹی اسپیکر محمود جان، ارکان اسمبلی شہرام خان ترکئی، میاں جمشید الدین، سینیٹر نعمان وزیر سمیت سول بیوروکریسی اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے شرکت کی۔ گورنر خیبرپختون خوا اقبال ظفر جھگڑا نے حلف لینے کے بعد نومنتخب وزیراعلیٰ کو مبارکباد دی۔ نومنتخب وزیراعلیٰ محمود خان نے گورنر ہائوس پشاور میں حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کے وژن کے مطابق خیبر پختون خوا کو ایک مثالی صوبہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ کی پاس داری اور کرپشن کلچر کا خاتمہ ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہوں گے۔ محمود خان نے کہا کہ وہ اپنی کابینہ مختصر رکھنے کی کوشش کریں گے اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
دریں اثناء انجینئر اقبال ظفر جھگڑا نے گورنر خیبر پختون خوا کے عہدے سے استعفیٰ دے کر یہ عہدہ پی ٹی آئی کے نامزد شدہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان کے لیے خالی کردیا ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا کی84 سالہ سیاسی تاریخ میں اقبال ظفر جھگڑا صوبے کے مجموعی طور پر 37 ویں، جبکہ قیام پاکستا ن کے بعد 29 ویں گورنر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ صدرِ مملکت ممنون حسین اور سابق وزیراعظم نوازشریف سے مشاورت کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز اقبال ظفر جھگڑا نے استعفیٰ صدر مملکت ممنون حسین کو ارسال کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اقبال ظفر جھگڑا خیبر پختون خوا میں پارٹی کے چوتھے گورنر تھے۔ ان سے قبل 1986ء سے 1988ء تک گورنر رہنے والے فدا محمد خان، 18 اگست 1999ء سے 21 اکتوبر 1999ء تک گورنر رہنے والے میاں گل اورنگزیب، اور 2014ء سے 2016ء تک گورنر خیبر پختون خوا رہنے والے سردار مہتاب احمد خان کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں صوبے اور وفاق میں تحریک انصاف کے اکثریت حاصل کرنے کے بعد چند روز قبل گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا نے اخلاقی طور پر عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے پارٹی کی مرکزی قیادت سے مشاورت کے بعد تحریک انصاف کے نومنتخب وزیراعلیٰ محمود خان سے حلف لینے تک انتظار کیا۔ اقبال ظفر جھگڑا کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد گورنر ہائوس میں الوداعی تقریب منعقد ہوئی جس میں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ قبل ازیں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ نوازشریف نے جو ذمے داریاں انہیں دی تھیں وہ انہوں نے ایمان داری سے پوری کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں گورنر کا عہدہ سنبھالا، آپریشن ضربِ عضب کے بعد97 فیصد آئی ڈی پیز کی واپسی کو ممکن بنایا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے دو سال کے مختصر عرصے میں قبائلی علاقوں میں تین کیڈٹ کالج اور77پرائمری اسکول قائم کیے، جبکہ 8 ہزار اساتذہ کو تربیت اور 10ہزار سے زائد طلبہ کو تعلیم دی گئی۔ اس عرصے کے دوران اساتذہ کی18 ہزار نئی اسامیاں بھی پیدا کی گئیں۔ ہسپتالوں میں جدید طبی آلات اور سہولیات فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم کارنامہ فاٹا کا خیبر پختون خوا میں انضمام تھا جس کے لیے انہیں کئی مراحل سے گزرنا پڑا۔
دیکھنا یہ ہے کہ انجینئراقبال ظفر جھگڑا کے استعفے کے بعد نئے گورنر کی تقرری کا اختیار موجودہ صدرِ مملکت ممنون حسین استعمال کریں گے یا پھر اس تقرری کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے نامزد متوقع گورنر شاہ فرمان کو نئے صدر مملکت کے انتخاب تک انتظار کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری ہوچکا ہے جو کہ اگلے مہینے یعنی ستمبر کی 4 تاریخ کو منعقد ہوں گے جس میں پی ٹی آئی کو متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بظاہر تو ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان کھینچا تانی اور عدم اعتماد کا یہی حال رہا جو وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں آیا تو پھر اپوزیشن کے لیے عددی برتری کے باوجود اپنے امیدوار کو منتخب کرانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔
جہاں تک خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام اور اسے درپیش چیلنجز کا تعلق ہے اس ضمن میں اپوزیشن کی جانب سے کم از کم اسمبلی کے اندر تو اسے اپنی دوتہائی اکثریت کی وجہ سے کسی سخت چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، البتہ اسمبلی سے باہر کسی بھی ممکنہ ایجی ٹیشن کی صورت میں ناتجربہ کار صوبائی حکومت کو اسٹریٹ پاور رکھنے والی کہنہ مشق اپوزیشن جماعتوں اے این پی، جماعت اسلامی اور جمعیت(ف) کی طرف سے سخت مزاحمت اور احتجاج کا سامنا کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ اپنی اندرونی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات کی صورت میں بھی جو بڑا اور خطرناک چیلنج درپیش ہے وہ بھی یقینا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ صوبائی سطح پر پارٹی میں اس وقت دوگروپ پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک گروپ کی سرپرستی پرویزخٹک اور دوسرے کی عاطف خان کررہے ہیں، جبکہ محمود خان کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد اب عملاً ایک تیسرا گروپ بھی وجود میں آچکا ہے جسے براہِ راست عمران خان کی آشیرباد حاصل ہے۔ نیز سیاسی تجزیہ کار پرویز خٹک کو وفاق میں ان کا پسندیدہ وزارتِ داخلہ یا پھر واپڈا کا قلمدان نہ ملنے پر بھی یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ وہ چونکہ اس تقسیم پر خوش نہیں ہوں گے اس لیے ان کی جانب سے صوبائی معاملات میں دخل اندازی کے خدشات کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا، جس سے پارٹی کے اندر موجود خلفشار کو مزید شہ ملنے کے امکانات ہیں۔