کہتے ہیں کہ کبھی شر سے خیر بھی برآمد ہوجاتا ہے۔ میں جام کمال خان عالیانی کے وزیراعلیٰ بلوچستان بننے کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔ اچھے انسان ہیں۔ بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب تک ان کی شہرت ایک اچھے انسان اور سیاست دان کی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بنے اور میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے وزیر مملکت رہے۔ اس وزارت میں بھی بدعنوانی اور دوسرے غیر قانونی اعمال و افعال سے خود کو محفوظ رکھا۔ مذہبی رجحان رکھتے ہیں بلکہ مذہبی آدمی ہیں۔ تبلیغی جماعت سے تعلق رہا ہے۔ نماز کے اوقات میں خود نماز کی امامت بھی کراتے ہیں۔ اور ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ صوبے کا ایک وزیراعلیٰ نماز باجماعت پڑھاتا ہے۔ جام کمال کو چاہیے کہ وہ کبھی کبھار نماز جمعہ اور عیدین بھی پڑھائیں اور ان نمازوں کی امامت کریں۔ یہ بڑی اچھی روایت ہوگی۔ مسلم حکمران تاریخ میں نمازوں کی امامت کرتے رہے ہیں۔ جام کمال تعلیم یافتہ اور جوان ہیں اور انہیں دین و مذہب کی معلومات بھی ہیں، چنانچہ انہیں ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ اب جبکہ ان کے کاندھوں پر بارِ حکومت آچکا ہے تو انہیں بڑے عزم، حوصلے اور دیانت سے صوبے کے وسیع تر مفاد کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے لازم ہے کہ اپنا اختیار و اقتدار عوام اور صوبے کی بہتری اور اچھے مستقبل کی خاطر بروئے کار لائیں۔ ایک آزاد فکر، دور اندیش اور مقصد و اہداف رکھنے والا سیاست دان و حکمران اپنے اختیارات کے استعمال میں آزاد ہوتا ہے۔ پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ جام کمال کے اردگرد سیاسی تخریب کاروں اور اشرار کی کمی نہیں ہے، چناں چہ ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھیں۔ نہ کسی دبائو کو قبول کریں اور نہ جزوی و سطحی اُمور پر اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف کریں، بلکہ صوبے کے ان بڑے مسائل کے حل کو ترجیح میں رکھیں جن سے مفاد عامہ وابستہ ہو اور صوبے کی ترقی برسر زمین دکھائی دینی چاہیے۔ یقینا ایسے وزیراعلیٰ اور حاکم کو عوام بار بار منصبِ حکمرانی پر دیکھنا چاہیں گے۔
جام کمال عالیانی بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر ہیں، وہ ہفتہ 18 اگست کو بلوچستان کے 17ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اتوار 19 اگست کو گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے ان سے منصب کا حلف لیا۔
نومنتخب وزیراعلیٰ جنوری1973ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ لسبیلہ اور کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ ریاست لسبیلہ کے شاہی خاندان کے فرزند ہیں۔ ان کے دادا جام غلام قادر نے ریاست کا الحاق نوزائیدہ پاکستان سے کرایا۔ جام غلام قادر دو مرتبہ وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں۔ جام کمال کے والد جام یوسف 2002ء سے دسمبر 2007ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔ جام کمال دو مرتبہ ضلع لسبیلہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ گویا یہاں سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بیک وقت قومی و بلوچستان اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے، تاہم حلف قومی اسمبلی کا اٹھایا۔ اس طرح وہ 2013ء سے2018ء تک میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل رہے۔ آخری وقتوں میں دوسروں کی طرح جام کمال نے بھی میاں نوازشریف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اپریل2018ء میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے، اور مئی میں اس جماعت کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ اس جماعت کو الیکشن میں نمایاں کامیابی ملی۔ بعد میں چھ جماعتی اتحاد نے انہیں وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کردیا۔ اس اتحاد میں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، جمہوری وطن پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔ ان کے خلاف مضبوط امیدوار نہ تھا۔ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے میر یونس عزیز زہری کو وزیراعلیٰ کے لیے پیش کیا۔ جام کمال کو 59 میں سے39 ارکان نے ووٹ دیا۔ حزب اختلاف کے یونس عزیز زہری نے20ووٹ لیے۔ جمعیت علمائے اسلام ف (ایم ایم اے) اور سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھ گئیں۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے ایک رکن نصراللہ کی حمایت ان کو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حاصل تھی۔ پشتون خوا میپ بھی حزب اختلاف کا حصہ بن گئی۔ نواب ثناء اللہ زہری نے بھی ہفتہ 18 اگست کے اجلاس میں حلف اٹھایا۔ ان کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ زہری تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ عبدالقدوس بزنجو اسپیکر منتخب ہوئے تو انہیں اسپیکر کی نشست پر بٹھانے والوں میں نعمت اللہ زہری بھی شامل تھے۔ عبدالقدوس بزنجو نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف محلاتی سازش کرنے والوں میں نمایاں تھے۔ خود نواب ثناء اللہ زہری نے قائد ایوان کے لیے جام کمال کو ووٹ دیا۔ جمعیت علمائے اسلام اور سردار اختر مینگل اس سازش کا حصہ بنے اور نون لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی حکومت پر عدم اعتماد کی چھری پھیر دی گئی۔ کرنے کو تو پشتون خوا میپ کا اکیلا رکن جام کمال کی حمایت کرسکتا تھا لیکن یہ جماعت اپنی مخالف جے یو آئی اور بی این پی کے ساتھ حزب اختلاف میں بیٹھ گئی۔ گویا ان کے بغض میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ کمال نواب ثناء اللہ زہری نے کیا کہ جنہوں نے حکومت سے نکالا انہی کو وزارتِ اعلیٰ کا ووٹ دے دیا۔ غرض پیش ازیں بی اے پی کے عبدالقدوس بزنجو اسپیکر اور تحریک انصاف کے سردار بابر موسیٰ خیل ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔