تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا… تبدیلی، بہت دنوں سے جس کا شور تھا، ملک بھر میں رو پذیر ہوچکی ہے۔ وفاق اور صوبوں میں نئے لوگ نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ہاںالبتہ صوبہ سندھ، اپنے دارالحکومت کراچی کے استثنیٰ کے ساتھ بڑی حد تک اس تبدیلی سے محفوظ رہا ہے کہ یہاں کے عوام نے پہلے سے زیادہ اکثریت سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو اپنے اعتماد کا مظہر ٹھیرایا ہے۔ یوں تو صوبہ خیبر کے عوام نے بھی 2013ء کے انتخابات ہی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ یعنی دو تہائی سے زیادہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ تحریک انصاف کو منتخب کیا ہے، مگر یہاں سندھ کے برعکس تحریک انصاف نے ’’تبدیلی‘‘ کو ضروری سمجھا ہے اور صوبے کی حکمرانی کے لیے قدرے نئے چہروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ بلوچستان میں بھی اگرچہ 2018ء کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہونے والے سیاسی جوڑتوڑ کے نتیجے میں نئی تشکیل پانے والی بلوچستان عوامی پارٹی ہی تحریک انصاف کے اشتراک سے ایک بار پھر ایوانِ اقتدار میں پہنچی ہے، تاہم یہاں بھی چہرے پہلے سے بدل گئے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تبدیلی البتہ سب سے آخر میں پہنچی ہے۔
17 اگست کو رات کے وقت نومنتخب وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبے کے نئے قائدِ ایوان کے نام کا اعلان کیا جو فی الواقع سب کے لیے غیر متوقع اورکپتان کی تبدیلی کی سوچ کا عکاس بھی تھا۔ تونسہ کے علاقے کے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں عمران خاں نے اس انتخاب کا جواز یوں پیش کیا تھا کہ ’’ان کی تقرری ایک پسماندہ اور ترقی سے محروم علاقے سے تعلق کی بناء پر کی گئی ہے جہاں لوگوں کے پاس پانی، بجلی اور ہسپتال کچھ بھی نہیں۔ سردار عثمان بزدار کو بخوبی علم ہے کہ پسماندہ علاقے کے لوگ کن حالات میں زندگی گزارتے ہیں، خود ان کے اپنے گھر میں بھی بجلی نہیں ہے۔ وہ پسماندہ علاقوں کو اوپر لانے کے لیے زبردست کام کریں گے۔‘‘
پنجاب کے قائدِ ایوان کے لیے عمران خان کی نگاہِ انتخاب کا مرکز ٹھیرنے والے سردار عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ رہنے والے سردار عثمان بزدار 2018ء کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل مبینہ طور پر طاقت ور حلقوں کی کوششوں سے تشکیل پانے والے ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کا حصہ تھے اور اس محاذ کے تحریک انصاف میں ادغام کے باعث وہ بھی عمران خان کی ٹیم کا حصہ قرار پائے تھے، اور انتخابات سے فوری قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے والے بہت سے الیکٹ ایبلز میں سے ایک تھے۔
25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے اور فوری بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے بہت سے نام سامنے آئے جن میں شاہ محمود قریشی، عبدالعلیم خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، راجا یاسر اور محمد خان لغاری وغیرہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں خاصے زیر بحث رہے، مگر عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب میں ایسا کلین نوجوان سامنے لائیں گے جس پر کرپشن کا کوئی الزام اور کوئی سوالیہ نشان نہیں ہوگا۔
سردار عثمان بزدار اگرچہ ایک غیر متوقع اور قدرے غیر معروف نام تو ضرور ہے مگر عمران خان کے مسٹر کلین، بدعنوانی سے پاک اور ہر طرح کے سوالیہ نشان سے مبرا نوجوان کے دعووں پر پورا نہیں اترتے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سردار عثمان بزدار کے خلاف ٹھیکوں میں بدعنوانی کا الزام ہے اور اسی سلسلے میں قومی احتساب بیورو میں ان کے خلاف تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔ اسی طرح وہ 1998ء میں قتل کے ایک مقدمے میں بھی ماخوذ رہے ہیں اور عدالت نے 2000ء میں دیگر ملزمان کے ساتھ سردار عثمان بزدار کو بھی اس مقدمے میں مجرم ٹھیرایا، جس پر سردار عثمان اور ان کے والد نے آج سے اٹھارہ سال قبل 75 لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور دیت ادا کرکے صلح کی اور مقدمے سے بریت حاصل کی۔
جہاں تک عمران خان کے ویڈیو پیغام سے ابھرنے والے اس تاثر کا تعلق ہے کہ سردار عثمان بزدار نچلے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، تو یہ تاثر بھی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ سردار عثمان کا خاندان قبائلی علاقے کی سیاست میں طویل عرصے سے نمایاں ہے۔ سردار عثمان کے والد، ضیاء الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن بنائے گئے، بعد ازاں وہ علاقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے اور قاف لیگ اور پھر وہاں فارورڈ بلاک کا حصہ بن کر نواز لیگ کو سہارا دینے والوں میں شامل تھے۔ خود سردار عثمان دوبار تحصیل ناظم رہے، 2013ء کے عام انتخابات میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہوسکے، اور پھر نواز لیگ چھوڑ کر جنوبی پنجاب محاذ سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں پہنچ گئے۔ یوں وہ خاندانی طور پر اقتدار کے قریب رہنے کے لیے تمام سیاسی حربے اور دائو پیچ آزماتے رہے ہیں۔ پسماندہ علاقے سے تعلق کے باوجود وہ خود ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ بزدار قبائل کے چیف سردار ہیں۔
سردار عثمان کے عام اور متوسط طبقے سے ہونے سے متعلق دعوے کی حقیقتِ حال اُن کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اپنے اثاثوں کے اعداد و شمار سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یوں ان کے اپنے بقول ان کے اثاثوں کیمالیت ڈھائی کروڑ روپے ہے۔ ان کے تونسہ، ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے مختلف علاقوں میں رہائشی مکانات اور پلاٹ ہیں، وہ 286 کنال زرعی زمین کے مالک ہیں، جب کہ چار بینکوں میں ان کے کھاتے ہیں۔ وہ دو کاروں اور تین ٹریکٹروں کے مالک ہیں، جب کہ ڈیفنس سرٹیفکیٹ، انشورنس پالیسیاں اوربیس تولے سونا بھی ان کی ملکیت ہے۔ انہوں نے 2011ء میں این ٹی این نمبر حاصل کیا تاہم انکم ٹیکس پہلی بار 2017ء میں ادا کیا۔
نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے نقادوں کے مطابق یہ بھی ان کی نااہلی ہے کہ وہ 35 سال سے زائد عرصے سے علاقے کی نمائندگی کرتے آ رہے ہیں اور مختلف مناصب پر منتخب ہونے اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویزمشرف تک، اور چودھری خاندان سے لے کر شریف خاندان تک ان کے برسراقتدار رہنے والے تمام حکمرانوں سے قریبی تعلقات رہے مگر وہ اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرسکے اور نہ وہاں بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کروا سکے۔ جو اُن کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حقائق کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عثمان بزدار کا انتخاب عمران خان کا ذاتی نہیں بلکہ درحقیقت وہ جہانگیر ترین کے عمران خان کے فیصلوںپر اثر رسوخ کا مظہر ہے۔ سردار عثمان کی پنجاب میں جہانگیر ترین کے سامنے وہی حیثیت ہوگی جو مرحوم غلام حیدر وائیں کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کے سامنے تھی، یعنی جو چاہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا۔ یہاں بھی اصل حکومت اور فیصلے جہانگیر ترین کریں گے، تاہم نام اور دستخط سردار عثمان بزدار کے ہوں گے۔
سردار عثمان بزدار بطور وزیراعلیٰ مقتدر قوتوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوں گے اور کسی پریشانی کی توقع ان کی جانب سے نہیں ہے، اس طرح عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ عمران خان کے لیے سیاسی لحاظ سے یوں اطمینان کا باعث ہوگا کہ جنوبی صوبہ محاذ کا دبائو ان پر کم ہوجائے گا اور سو دن میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی جانب پیش رفت کا جو اعلان انہوں نے کررکھا ہے، سردار عثمان کو وزیراعلیٰ بنانے کے بعد اس پر عمل درآمد کو زیر التوا رکھنے میں سہولت رہے گی۔
یہ سب سیاسی تجزیے ہیں… ابھی آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا! اور بحر کی تہ سے کیا کچھ برآمد ہوتا ہے! کیونکہ جنرل محمد ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کا تجربہ بھی ہماری ہی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور ناقابلِ فراموش باب ہے۔