’’تمہیں‘‘ اور’’ ہمیں‘‘

ہم پنجابی محاورے کے مطابق شہتیراں نوں جپھے (شہتیروں سے معانقہ) کے اہل ہرگز نہیں ہیں۔
جناب عطا الحق قاسمی بڑے کینڈے کے ادیب و شاعر ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کو پڑھ پڑھ کر تو ہم نے اپنی اردو صحیح کی۔ کچھ سال قبل انہوں نے اپنے ایک دوست کی یاد میں کالم لکھا جس کا عنوان ہے ’’تمہی سوگئے داستاں کہتے کہتے‘‘۔ اصل مصرع ہے ’’ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘۔ اس میں حسبِ موقع ترمیم کرنی تھی تو مناسب تھا کہ ’’ہمیں‘‘ کی جگہ ’’تمہیں‘‘ استعمال کرتے۔ تمہیں (ضمیر حاضر) لغت سے باہر کا لفظ نہیں ہے۔ اردو کا ایک محاورہ ہے ’’تمہیں جانو گے‘‘۔ عطا الحق قاسمی کے علم میں ضرور ہوگا۔
جانے کیوں کچھ لوگ ’’ہمیں‘‘، ’’تمہیں‘‘ کے استعمال سے کتراتے ہیں۔ جسارت کی لوح پر پہلے ایک مصرع درج ہوتا تھا ’’ہمیں کو جرأتِ اظہار کا سلیقہ ہے‘‘۔ اب شاید اسے تعلی سمجھ کر ہٹادیا گیا۔ لیکن اس ’’ہمیں‘‘ پر بہت اعتراضات آتے تھے کہ ’’ہم ہی‘‘ کیوں نہیں لکھا جاتا! اس سے ظاہر تھا کہ اعتراض کرنے والے ’’ہمیں‘‘ سے مانوس نہیں ہیں۔ ایک تو ’’ہم ہی‘‘ لکھنے سے مصرع کا وزن بگڑ جاتا، دوسرے یہ کہ ’’ہم ہی‘‘ کے معنوں میں ’’ہمیں‘‘ متعدد شعراء نے استعمال کیا ہے۔ مثلاً ’’نظریں بھی ہمیں پر، پردہ بھی ہمیں سے‘‘۔ یا یہ فارسی مصرع ’’گر ہمیں مکتب و ہمیں ملاّ‘‘ یا ’’ہمیں چوگاں، ہمیں میداں‘‘۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے:

دشتِ غربت میں رہتے ہیں جو لوگ
وہ ہمیں سے غریب رہتے ہیں

چنانچہ ’’ہمیں‘‘ کے مقابلے میں ’’تمہیں‘‘ کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ ’’ہمیں‘‘ کا ایک مطلب اور بھی ہے اور وہ ہے: یہی، اسی طرح، اسی طریقے پر۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے جب کشمیر دیکھا تو بے ساختہ کہا:

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

یہاں ’’ہمیں‘‘ کا مطلب ہے: یہی۔ یعنی اگر فردوس زمین پر ہے تو وہ یہی ہے، یہی ہے۔
’’سمجھ نہیں آئی‘‘ اور ’’سمجھ نہیں لگی‘‘ تو اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ محترم عطا الحق قاسمی بھی اس سے گریز نہیں کرتے۔ انہیں شاید خود بھی اندازہ نہیں کہ ہم سمیت کتنے ہی لوگ اُن کو پڑھ کر زبان درست کرتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ ’’علاوہ‘‘ اور ’’سوا‘‘ کے استعمال کا ہے۔ ہمارے لکھنے کے باوجود جسارت کے مضمون نگار بھی اس کا خیال نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں ایک اخبار کے میگزین میں مضمون شائع ہوا جس کی سرخی کے ذیل میں لکھا ہے ’’میرے علاوہ سارے کردار اصلی ہیں‘‘۔ غالباً یہاں ’’سوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ہم دوسروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’لئے، دئے، کئے غلط ہے، اس کی جگہ لیے، دیے، کیے ہونا چاہیے۔ اسی میگزین میں جگہ جگہ ’’دیئے‘‘ لکھا ہے۔ اسی مضمون میں ایک مشہور و معروف صحابی ابوذرؓ غفاری کا ذکر ہے۔ غفاری کو کچھ لوگ تشدید کے ساتھ یعنی غفّاری پڑھ ڈالتے ہیں۔ غفّار اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ ابوذر کا تعلق قبیلہ بنی غفار سے تھا جس کی نسبت سے وہ غفاری کہلائے۔ جاننے والے تو جانتے ہی ہیں اور جو نہیں جانتے وہ شاید اس تحریر سے جان لیں۔
بڑے بڑے قلم کار بھی ’’ممبران‘‘ لکھنے سے گریز نہیں کرتے۔ ممبران اردو ہے نہ انگریزی۔ اس آدھا تیتر آدھا بٹیر سے تو بہتر ہے کہ ممبرز ہی لکھ دیا کریں۔ لیکن ’’ارکان‘‘ لکھنے میں کیا قباحت ہے؟ اس میں کچھ زیادہ پیسے تو نہیں لگتے۔ حافظ صاحب اگر تمغہ کے بجائے تمغا لکھیں تو اور اچھا ہو۔ ’’پوتر‘‘ ہندی کا لفظ ہے اور اردو میں ہندی کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ لیکن ایک تو پوتر کا صحیح تلفظ ہندی سے ناواقف لوگ صحیح ادا نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ دریائے کنہار کے پانی کے لیے پوتر کی جگہ پاک، صاف، شفاف استعمال کیا جا سکتا تھا۔ پوتر کے معنوں میں تقدس شامل ہے اور کنہار کا پانی مقدس نہیں ہے۔ ہندوئوں کے نزدیک صرف گنگا کا پانی پوتر ہے۔
اخبارات میں ایک جملہ نظر سے گزرتا رہتا ہے ’’ائرکنڈیشنڈ لگا دیے گئے‘‘ یا ’’ائرکنڈیشنڈ پر پابندی لگا دی گئی‘‘۔ یہ کارنامہ اردو خبر ایجنسیوں کا ہے جن کا چلن بڑھ گیا ہے۔ انگریزی کی جگہ اردو میں خبریں جاری کرنا اچھا ہے اور اس سے اردو اخبارات کو بہت آسانی ہوگئی ہے۔ لیکن یہ خبریں جاری کرنے والوں میں یا تو تعلیم کی کمی ہے یا فہم کی۔ ستم یہ کہ اخبارات میں بیٹھے ہوئے سب ایڈیٹرز بھی اسی قبیل کے ہیں، چنانچہ جو خبر جیسی آتی ہے اسی طرح تصحیح کیے بغیر لگا دی جاتی ہے، چلیے جان چھوٹی۔ اب ’’ائرکنڈیشنڈ‘‘ تو ایک کیفیت ہے، اس کو لگایا نہیں جاتا۔ البتہ ائرکنڈیشنر لگ سکتے ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمارت یا کمرہ ائرکنڈیشنڈ ہے اور اس میں کئی ائرکنڈیشنر لگے ہوئے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ بظاہر مشکل ہے لیکن غور کریں تو اردو کے قریب قریب ہے یعنی مکیّف الہوا۔ مکیّف کیف یا کنڈیشن سے ہے اور ہوا تو سب کو معلوم ہی ہے۔
منڈی بہاء الدین میں اخبارات بھی اور ٹی وی چینلز بھی وائو لگانے یعنی بہاوالدین لکھنے سے باز نہیں آتے۔ منڈی بہاء الدین میں ضمنی انتخاب کے حوالے سے کچھ اخبارات نے سرخیوں میں بہاوالدین ہی لکھا ہے۔ اسی طرح سندھ کا ایک شہر قنبر علی خان ہے جس کو اخبارات قمبر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے شاید پہلے بھی لکھا ہے کہ عربی میں جب ’ن‘ اور ’ب‘ ایک ساتھ آتے ہیں تو اس کا تلفظ میم ہوجاتا ہے۔ قنبر کو تو لوگ قمبر لکھنے اور کہنے پر مُصر ہیں لیکن منبر کو ممبر کوئی نہیں لکھتا، حالانکہ تلفظ اس کا بھی ممبر ہے۔ اسی طرح عربی میں خبر کو ’’نبا‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ہے ’’انبا‘‘۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی سے عربی میں خبروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’الانبا‘‘۔ انبا کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اس کا تلفظ ’’امبا‘‘ ہوجاتا ہے۔ قنبر کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حضرت علیؓ کا غلام تھا، اسی وجہ سے لوگ یہ نام بھی رکھتے ہیں۔ لیکن جس طرح سندھ کا شہر قمبر ہوگیا ہے، شاید قنبر نام والے بھی قمبر لکھتے ہوں۔
ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اردو میں غیرضروری طور پر انگریزی کے الفاظ شامل نہ کیے جائیں۔ مثلاً خبروں اور مضامین میں کثرت سے ’’روڈ‘‘ لکھا جارہا ہے۔ ارے بھائی، سڑک لکھنے اور کہنے میں کیا گڑھے پڑجائیں گے یا سڑک اکھڑ جائے گی؟ ایسا تو پہلے سے ہے۔ جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی اور گڑھوں سے مزین سڑک کو اگر ’’روڈ‘‘ کہنے کا مقصد انگریزی میں گڑھے ڈالنا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسے ہی ایک لفظ ’’انجوائے‘‘ بار بار نظر سے گزرا۔ اس کی جگہ لطف اندوز ہونا، مزے کرنا وغیرہ ایسا برا تو نہیں۔ ہماری یہ شکایت اب بھی دور نہیں ہوئی کہ عوام کسی طرح جمع مذکر نہیں ہو پارہے۔ ایک تماشا یہ کہ ایک ہی مضمون میں یہ کہیں مونث ہوجاتے ہیں اور آگے چل کر اچانک جمع مذکر۔ عوام ایسے ہی ہیں۔