افغانستان کے امیر حبیب اللہ کے پُراسرار قتل کے بعد خاندان میں اقتدار کی مختصر رسّا کشی ہوئی۔ نئے امیر کی تاج پوشی کابل کی عیدگاہ میں ہوئی۔ ہزاروں کا مجمع موجود تھا۔ حبیب اللہ خان کے بیٹے امان اللہ خان شور بازار کے شاہ آغا کے ہمراہ آئے۔ شور بازار کابل کا ایک علاقہ ہے جہاں شاہ آغا جنہیں شور بازار کا حضرت کہا جاتا تھا، کا خاندان رہائش پذیر تھا۔ شاہ آغا نے ریشمی پگڑی قندھاری ٹوپی پر باندھ کر امان اللہ خان کے سر پر رکھ دی۔ ہزاروں حاضرین نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ رسم تاج پوشی کی تقریب نہایت سادگی سے ادا کی گئی۔ یوں مارچ 1918ء میں امان اللہ خان سریر آرائے سلطنت ہوئے۔
نئے امیر نے اگلے چند گھنٹوں میں وائسرائے ہند کو تحریری طور پر اپنی تخت نشینی سے آگاہ کردیا۔ اس تحریر میں حکومتِ ہند کو ان الفاظ میں مخاطب کیا گیا: ’’خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسے اور اس کی مہربانی سے دارالحکومت کابل میں، مَیں نے عوام اور افواجِ افغانستان کی پُرجوش تائید سے اپنے سر پر افغانستان کے امیر کا تاج رکھ دیا ہے۔‘‘
نیز ایک دوسرے موقع پر ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت کو یوں مخاطب کیا: ’’یہ امر مخفی نہ رہے کہ ہماری آزاد اور خودمختار حکومت خود کو اس امر کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار پاتی ہے کہ ہر قسم کے دوستانہ اور اس طرح کے دوسرے لازمی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقتور حکومتِ برطانیہ سے گفت و شنید و معاہدات انجام دئیے جائیں جو آپ کی حکومت اور ہمارے لیے تجارتی فوائد اور بہتری کے لیے سودمند اور قابلِ عمل ہوں۔‘‘
غازی امان اللہ خان کی امارت میں افغانستان کی انگریزوں سے تیسری جنگ چھڑ گئی، جس کا اعلان امان اللہ خان نے کابل کی جامع مسجد میں جہاد کے پُرجوش نعروں سے کیا۔ اس جنگ کے لیے افغان حکومت، سیاسی زعماء، علماء و مشائخ نے ملک کے طول وعرض میں عوام کو انگریزوں کے خلاف صف آراء ہونے کے لیے پکارا۔ لشکر جنرل نادر خان کی قیادت میں روانہ ہوا جس کے ہمراہ شور بازار کے شاہ آغا اور شیر آغا بھی تھے۔ سرحدوں پر جھڑپیں ہوئیں، ٹل کے مقام پر انگریزی فوج کو ہزیمت اُٹھانی پڑی۔ معرکہ اسپن بولدک کے مقام پر بھی ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ انگریزوں کی دلچسپی بھی مذاکرات اور امن کے قیام میں کم نہ تھی۔ ان کے سامنے ایک منڈلاتا خطرہ بالشویکو ں کا بھی تھا۔ البتہ امیرِ افغانستان برطانیہ اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے درمیان ملک کو غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ انگریزوں نے پہلے ہی افغانستان کو جبری معاہدوں میں جکڑ رکھا تھا۔ معاہدۂ گندمک کے ذریعے افغانستان کے بڑے حصے کو ہتھیایا جاچکا تھا، اور ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے اس پر ایک مستقل سرحدی لکیر کھینچ دی گئی۔ امیر افغانستان روسیوں کو بھی ناقابلِ اعتبار قرار دے چکے تھے، کہ روس کا مقصد بھی افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچانا ہے۔ ادھر روس کی پیش قدمی وسطی ایشیائی ریاستوں میں مسلسل بڑھ رہی تھی۔ چناں چہ ان حالات میں امیرِ افغانستان نے راولپنڈی کے امن مذاکرات کے لیے افغان وفد روانہ کردیا۔ امیر نے وفد کا سربراہ اپنے ماموں زاد بھائی علی احمد کو نامزد کیا اور اس وفد کو مکمل اختیارات سونپ دئیے۔ امیر نے مذاکراتی وفد پر واضح کردیا تھا کہ قربانی جو بھی دینی پڑے، پَر راولپنڈی سے واپسی افغانستان کی مکمل آزادی کے ساتھ ہو۔ امن مذاکرات اختتام کو پہنچ گئے، 8 اگست 1919ء کو برطانیہ نے افغانستان کی آزادی باضابطہ طور پر تسلیم کرلی۔ امان اللہ خان نے عیدگاہ مسجد کے اُسی مقام پر جہاں اُنہیں امارت کی پگڑی پہنائی گئی تھی، کھڑے ہوکر سامنے موجود ہزاروں افراد کے اجتماع سے مخاطب ہوکر کہا ’’آپ اور آپ کا ملک آج سے مکمل آزاد ہے۔ افغان کسی بھی قوم کے ساتھ آزادی سے بات کرنے کے اہل بنے ہیں، یہ قومی آزادی ہمیں کسی دوسری قوم سے تحفے میں نہیں ملی، بلکہ یہ آزادی آپ کے خون اور قربانیوں کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔‘‘
امیرِ افغانستان نے روس، امریکہ، جاپان، ایران اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے سربراہان کو خطوط بھیجے کہ افغانستان اندرونی اور بیرونی طور پر آزاد اور خودمختار ملک رہے گا۔ گویا امیر نے دنیا پر واضح کرنا چاہا کہ افغانستان نے دنیا کی دیگر آزاد اقوام کی طرح جینے کا حق حاصل کرلیا ہے۔ امان اللہ کارِ حکومت اطمینان کے ساتھ ادا کررہے تھے۔ یورپ کے دورے پر گئے۔ وہ افغانستان کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ امیر، ترکی نمونے کی جدیدیت پر قائل کرلیے گئے تھے۔ چناں چہ انہوں نے دفعتاً افغانوں کے مذہبی، دیہی اور قبائلی مزاج و روایات کے برعکس اصلاحاتِ جدیدہ کا اعلان کردیا، جس کے نتیجے میں ملک کے اندر نئے مباحث نے جنم لیا اور شورش اُٹھی۔ انگریز حکومت کی امداد بند تھی، یعنی ان کی حکومت داخلی دفاع کے لحاظ سے بھی کمزور تھی۔ اُن دنوں شاہ آغا بھی حیات نہ تھے، وہ 1923ء میں وفات پا چکے تھے۔ وہ زندہ ہوتے تو شاید بگاڑ کے بڑھنے کی نوبت نہ آتی۔ اُن کے چھوٹے بھائی شیر آغا (فضل عمر) اور دوسرے علماء و سیاسی و قبائلی عمائدین نے اصلاحاتِ جدیدہ کی مخالفت کردی۔ شیرآغا نے اصلاحات پر یہ کہا کہ افغانستان ایک لادین ملک بنتا جا رہا ہے۔ امیر مخالف تحریک ختم کرنے میں ہندوستان کے علماء اور سیاسی شخصیات جن میں علامہ اقبال سرفہرست تھے، مثبت کردار ادا کیا۔ اسی طرح ہندو بالخصوص مسلم اخبارات نے بہت مثبت ابلاغ کیا۔ پنجاب کی خلافت کمیٹی نے امان اللہ خان کے خلاف سازشوں سے پردہ اُٹھانے کی کوششیں کیں۔ مولانا ظفر علی خان کا زمیندار اخبار، مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کا روزنامہ انقلاب افغانستان کے استحکام، امیر اور اُن کے مخالفین کے درمیان افہام و تفہیم کی فضاء قائم کرنے کے لیے مسلسل اداریے اور مضامین تحریر کرتے رہے۔ برطانوی ہند کے ایک اور معروف اخبار ’’مدینہ‘‘ نے افغانوں کے درمیان تصادم اور بگاڑ سے گریز اور گفت و شنید کی پالیسی اپنائی، جس کی پاداش میں انگریز سرکار نے اخبار ’’مدینہ‘‘ پر پابندی عائد کردی اور اخبار کے مدیر مولوی نورالدین کو حراست میں لے لیا۔ مولانا ظفر علی خان نے امیر کی حمایت و نصرت میں نظم لکھی۔گویا مسلم اخبارات افغان صورت حال اینگلو انڈین اخبارات کا پروپیگنڈا قرار دیتے رہے۔ امان اللہ کے ملک چھوڑنے سے قبل انگریز
پالیسی کے تحت چلنے والے اخبارات نے شاہ کے خلاف ملا شور بازار کا ایک بیان بھی شائع کیا۔ بعد میں منکشف ہوا کہ بیان اُن سے منسوب کیا گیا تھا۔ یعنی غلط اطلاعات تھیں جن کی تشہیر کرائی گئی تھی۔ مقصد افغان عوام کو مشتعل اور گمراہ کرنا تھا۔ غرض امان اللہ خان نے 1929ء میں تمام اصلاحاتِ جدیدہ ایک اعلان کے ذریعے واپس لے لیں، جس پر افغان علماء و مشائخ، ملک کے قاضی القضاۃ قاضی محمد اکبر اور شیر آغا یعنی ملا شور بازار نے بھی دستخط کیے تھے۔ ملا شور بازار بعد میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ علامہ اقبال امان اللہ خان کے بڑی حامی تھے، وہ افغانستان کے امن و استحکام کو ایشیا کے استحکام سے تعبیر کرتے تھے۔ علامہ نے اس ضمن میں عملی طور پر کردار بھی ادا کیا۔ علامہ اقبال نے شاہ امان اللہ کی ملک بدری پر لاہور کے ایک انگریزی اخبار کو اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’اہلِ ہند افغانستان کی آزادی اور اس کے اتحاد و استحکام کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ نہ صرف افغانستان کے مفاد بلکہ ایشیا کے وسیع تر اغراض و مقاصد کے لحاظ سے ضروری ہے کہ شاہ امان اللہ کی حکومت برقرار رکھی جائے۔ افغانستان سے آنے والی خبریں اعتماد کے قابل نہیں ہیں۔ اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالم اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیر جدوجہد کے سرِتسلیم خم نہیں کرے گا۔ اس لیے ہر ملک کے مسلم مصلحین کو چاہیے کہ نہ صرف اسلام کی حقیقی روایات کو غور سے دیکھیں بلکہ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر کا بھی احتیاط سے مطالعہ کریں جو بے شمار طاقتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے۔ جو چیزیں غیر ضروری ہیں اُن کو ملتوی کردینا چاہیے، کیونکہ صرف ضروری چیزیں فی الحقیقت قابلِ لحاظ ہیں۔ یہ امر صحیح نہیں کہ مجلسی معاملات میں قدامت پسندانہ طاقتوں کو بالکل نظرانداز کردیا جائے۔کیونکہ انسانی زندگی اپنی اصلی روایات کا بوجھ اُٹھا کر منزلِ ارتقاء طے کرتی ہے۔‘‘(26 فروری 1929ء۔ ٹریبیون لاہور)
14 نومبر 1928ء کو شروع ہونے والی شورش 17جنوری 1929ء کو ایک راہزن حبیب اللہ المعروف بچہ ثقہ کے اقتدار پر منتج ہوئی۔ افغان 19 اگست کو یوم تجدید و استقلال کے طور پر مناتے ہیں۔ یوم استقلال کے جشن کی تقاریب، محافلِ رقص و سرود ان سترہ برسوں میں بھی بڑے اہتمام کے ساتھ منائے گئے، باوجود اس تلخ حقیقت کے کہ افغاستان 8 اکتوبر2001ء سے امریکہ کے زیر تسلط ہے۔ کیا غیرت مند، زندہ اور حریت پسند قومیں غلامی میں آزادی کا جشن منایا کرتی ہیں؟