(نوٹ: نیروبی سے مولانا جان محمد بھٹو مرحوم کی وفات پر قلم برداشتہ یہ مضمون لکھ کر چودھری غلام جیلانی مرحوم کو بھجوایا تھا۔ بعد میں میری کتاب ’’مسافرانِ راہ وفا ‘‘میں چھپا۔ چند تبدیلیوں کے ساتھ قندِمکررکے طور پر نذرِ قارئین ہے۔)
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزیں پیدا کی ہیں۔ کارخانۂ قدرت کی رنگا رنگ، متنوع، بڑی اور چھوٹی مخلوقات میں سے عظیم مخلوق حضرتِ انسان ہے۔ اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انسان تخلیقِ ربانی کا شاہکار ہے۔ نسلِ انسانی کے درمیان سلیم الفطرت روحیں حاصلِ زندگی ہوتی ہیں۔ جو لوگ حسُنِ صورت کے ساتھ حسُنِ سیرت سے نواز دیے جائیں ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مولانا جان محمد بھٹو مرحومؒ ایسے ہی انسان تھے، خوب رو و جمال صفت، خوش خلق وملنسار۔
وطن سے دور دیارِ غیر میں کسی محبوب شخصیت کے اُٹھ جانے کی خبر اتنی اندوہناک ہوتی ہے کہ شاعر کے الفاظ میں ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘ کا سماں پیدا ہوجاتا ہے۔ مولانا جان محمد بھٹو کو فوت ہوئے کئی دن بیت چکے تھے۔ ’’ایشیا‘‘ کا بڑا احسان ہے کہ خوشی اور غم کی خبریں بھی اس دیس میں ہم تک پہنچا دیتا ہے۔ مدیر ’’ایشیا‘‘ چودھری غلام جیلانی صاحب کی ایک تحریر سے نیروبی (کینیا) میں اس دل فگار سانحہ ارتحال کی اطلاع ملی۔ بے ساختہ زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا، دل سے ٹھنڈی آہ اور آنکھوں سے گرم آنسو نکل آئے۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، مولانا جان محمد بھٹو مرحومؒ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے ساتھی ان سے بے پناہ محبت بھی کرتے تھے اور ان سے عقیدت کا اظہار بھی دل کی گہرائیوں سے ان کی غیر حاضری میں اکثر کرتے رہتے تھے۔ بھٹو مرحوم کو سندھ کا مودودیؒ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ مولانا جان محمد بھٹو 10ستمبر 1982ء کو دنیائے فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی عمر تقریباً 63سال تھی۔
آقائے دوجہاں، سرور دوعالم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکرؓ، حضرت عمرفاروقؓ اور شیر خدا علی بن ابی طالب ؓ کے برابر عمر بھی عاشقان مصطفی کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مذکورہ تینوں خلفائے راشدین نے 63 سال عمر پائی تھی۔ مولانا مرحوم سے دورِ طالب علمی میں تعارف تو تھا مگر اس دور میں مرحوم سے میری زیادہ تفصیلی ملاقاتیں کبھی نہیں ہوئیں۔ لاہور میں مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں میں وہ تشریف لاتے تو معاملہ محض علیک سلیک اور حال احوال معلوم کرنے تک محدود رہتا۔ ان سے ملاقات کے دوران احساس ہوتا کہ وہ نہایت خاموش طبع اور کم گو انسان ہیں۔ کم گوئی کے باوجود ان کے چندالفاظ اس حقیقت کو واضح کر دیتے تھے کہ ان کے اندر تواضع اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جب کہ رعونت اور کبر سے وہ مکمل طور پر پاک صاف ہیں۔
مولانا سے پہلی بار تفصیلی ملاقات جون 1971ء میں شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ میں ہوئی۔ اس منصورہ کو پاکستان کی تاریخ میں پہلا منصورہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میرے اس سفر کا مقصد منصورہ کے تعلیمی ادارے کو دیکھنا بھی تھا مگر اس سے زیادہ مجھے دو بزرگ ہستیوں سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ ان میں سے ایک مولانا جان محمد بھٹو مرحوم تھے اور دوسرے پروفیسر سید محمد سلیم۔ میں حیدرآباد میں مولانا وصی مظہر ندوی صاحب کامہمان تھا۔ وہاں سے انہی کی رفاقت میں بس کے ذریعے منصورہ کا سفر کیا۔ اس سفر میں مولوی محمد سلیمان طاہر بھی ہمارے ساتھ تھے مولانا وصی مظہر ندوی صاحب تو شام سے قبل واپس حیدرآباد تشریف لے گئے جب کہ میں اور سلیمان طاہر صاحب دو دن منصورہ میں مقیم رہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سلیمان طاہر صاحب کے افراد خانہ بھی اس بستی میں مقیم تھے۔
موصوف جماعت کے بزرگ راہ نما مفتی دائم الدین صاحب کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مولانا جان محمد بھٹوؒ صاحب نے جس محبت، خلوص اور تپاک سے فقیر کااستقبال کیا ،اس نے مجھے مولانا کی زندگی کا ایک نیا رخ دکھا دیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ سنجیدہ، خاموش طبیعت، خوب رو انسان بہت محبت کرنے والا، دل دوز و دل نواز اور بذلہ سنج اور محفل آرائی کی صفات سے بھی متصف ہے۔
منصورہ کے مہمان خانے میں میرا قیام تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ یہ مہمان خانہ اس دور میں نہایت سادہ اور دیہاتی معیار کا تھا۔ شام سے ذرا قبل مہمان خانے کے صحن میں مولانا جان محمد بھٹوؒ صاحب کے حکم سے چھڑکائو کیا گیا۔ عصر کے بعد جب گرمی کی شدت میں کچھ کمی ہوئی تو بھٹو صاحب مجھے اپنے ساتھ لے کر کالج سے ملحقہ فارم پر چلے گئے۔ گندم کی فصل اٹھائی جا چکی تھی، مکئی جوار وغیرہ کی فصلیں چند کھیتوں میں کھڑی تھیں۔ میں نے بھٹو صاحب سے فارم کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے تو انھوں نے تعجب سے کہا تمھیں ان باتوں کا کیسے علم ہے؟ میں نے عرض کیا ’’سو پشت سے ہے پیشہ آبا کاشت کاری۔‘‘ یہ سن کر وہ محظوظ ہوئے۔
مولانا جان محمد بھٹوؒ صاحب نے میرے مختصر قیام کے دوران میں کئی بار مولانا شفیع محمد نظامانی صاحب کا ذکر خیر کیا۔ نظامانی صاحب ہی نے منصورہ کی درسگاہ قائم کرنے کے لیے زمین دی تھی اور(300ایکڑ) زرعی اراضی بھی اس کے لیے وقف کر دی تھی۔یہ رقبہ 12مربع بنتا ہے۔ کھیتوں سے واپس آ کر نماز مغرب سے ذرا قبل مولانا مجھے اپنے ہمراہ بستی کی ایک مسجد میں لے گئے۔ وہ چھوٹی سی مسجد تھی مگر مغرب کے وقت نمازیوں سے بھر گئی تھی۔
مولانا جان محمد بھٹوؒ صاحب نے سندھی زبان میں خطاب کیا۔ سندھی ویسے بھی بہت میٹھی زبان ہے مگر مولانا بھٹو صاحب کا لب و لہجہ بھی اتنا شیریں تھا کہ سونے پر سہاگے والا معاملہ بن گیا۔ ان کی بات سامعین کے دلوں میں اترتی جا رہی تھی۔ میں سندھی سے ناواقف ہونے کے باوجود ان کی تقریر کا کافی حصہ بخوبی سمجھ رہا تھا۔ مسجد گئے اوروہاں سے واپس مہمان خانے میں آئے تو میں نے دیکھاکہ مسجد کی طرف جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے راستے میں جو شخص بھی ملا اس نے مولانا کو بہت ادب اور احترام کے ساتھ سلام کیا۔ مولانانے ہر ایک کا محبت سے جواب دیا اور اس کے حال احوال بھی پوچھے ۔ مولانا مرحوم اس بستی کے وڈیرے نہیں تھے مگر اہل قریہ انھیں اپنا بزرگ اور رہنما سمجھتے تھے۔
مولانا غلام سرور بھٹو،حافظ لطف اللہ بھٹو، جناب سلیمان طاہر اور دیگر دوستوں سے میں نے مولانا کی تقریر دل پذیر کا تذکرہ کیا تو سب نے یک زبان کہا ’’ مولانا بھٹو سندھی زبان کے مقبول ترین خطیب ہیں ،دیہاتوں میں ان کی تقاریر کی کیسٹیں بڑی مقدار میں سنی جاتی ہیں۔‘‘ پروفیسر سید محمد سلیم صاحب سے الگ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کالج کی مسجد، عمارات اور لائبریری کا دورہ کرایا ۔پھر وہ لائبریری سے ملحق کالج کے میوزیم میں لے گئے جہاں انھوں نے بہت سے نوادرات جمع کر رکھے تھے۔ لائبریری میں بھی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ جمع تھا۔ کالج اور مدرسے کے طلباء نے مختلف موضوعات پر تقاریر بھی کیں جو بہت مؤثر اور فصاحت و بلاغت کا بہترین نمونہ تھیں۔
شام کو مہمان خانے میں عشاء کی نماز سے قبل اجتماعی کھانا ہوا جس میں کم و بیش تمام اساتذہ شریک تھے۔ اس سفر کے دوران میں، میں نے بہت کچھ دیکھا اور سنا مگر کافی عرصہ بیت جانے کی وجہ سے بہت سی تفصیلات ذہن سے محو ہو گئی ہیں۔ جوانی میں میری عادت تھی کہ میں بزرگوں سے دیگر سوالات کے علاوہ ان کی ذات کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مجھے خواب کی طرح سے یاد پڑتا ہے کہ میں نے مولانا جان محمد بھٹو صاحب سے ان کے خاندانی احوال کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عالم تھے اور درس و تدریس کا فریضہ بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ ضلع شکارپور اور لاڑکانہ دونوں میں ان کے شاگرد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اگرچہ سندھ کے دیگر اضلاع سے بھی طالب علم ان کے پاس حصول علم کے لیے آتے تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ ان کے والد مسلکاً بریلوی تھے مگر مولانا نے خود تعلیم کے دوران میں ہی توحید کے بارے میں اتنا کچھ پڑھ لیا تھا کہ والد صاحب سے عقائد کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا۔مگر مولانا کی طرف سے ادب واحترام اور والد صاحب کی طرف سے محبت و شفقت میں کبھی رخنہ نہ پیداہوا۔
آغاز میں مولانا جان محمد بھٹوؒ توحید اور شرک کے باب میں بہت متشددانہ طرز عمل پر کاربند تھے۔ ایک دور میں وہ بریلوی مکتب فکر کے لوگوں کو مشرک گردانتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کی کئی کتابوں سے تعارف ہوا تو مولانا جان محمد بھٹو صاحب نے یوں محسوس کیا کہ جیسے ان کی متاع گم گشتہ ان کے ہاتھ میں آ گئی ہو۔ قیام پاکستان کے بعد بھٹو صاحب جماعت کے قریب آئے۔ جماعت میں آنے سے قبل انھوں نے اپنے علاقے میں مواحدین کی ایک جماعت قائم کر رکھی تھی جسے ’’توحیدی جماعت‘‘ بھی کہا جاتا تھا اوراس کو’’ الابرار‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی کے بے مثال قائد جناب چودھری غلام محمد مرحوم نے مولانا بھٹو صاحب سے قریبی رابطہ قائم کر لیا تھا اور دونوں بزرگوں کے درمیان ملاقاتوں اور خطوط کا سلسلہ جاری تھا۔ چودھری غلام محمد مرحوم بہت معتدل مزاج کے داعی حق تھے جب کہ مولانا جان محمد بھٹوؒ عقائد کے بارے میں انتہاپسندی کے قائل تھے۔ بالآخر 1950ء میں مولانا جان محمد بھٹوؒ جماعت اسلامی کے رکن بنا لیے گئے جس کے بعد وہ مختلف ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے اور آخر میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی نائب امارت کا منصب بھی انھیں سونپا گیا۔ یوں جماعت میں آنے کے بعد ان کی شدت وحدت، نرمی اور اعتدال میں ڈھلتی چلی گئی۔یہی مولانا مودودیؒ کی فکر اور جماعت اسلامی کے دستور و لائحہ عمل کا منفرد کمال ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق رائے اور اعمال میں اعتدال اپنایا جائے۔
مولانا جان محمد بھٹوؒ صاحب کو میں نے ہمیشہ سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا۔ صرف منصورہ میں مجھے وہ سندھی ٹوپی میں نظر آئے۔ ان کی سندھی ٹوپی بھی سرخ رنگ کی تھی۔ رنگ روپ، قدوقامت اور ناک نقشے کے لحاظ سے مولانا بھٹو مرحوم بڑے صاحب جمال تھے۔ وہ سادہ کپڑے پہنتے تھے مگر جامہ زیب تھے۔سادگی اور قناعت ان کا شیوہ تھا اور عاجزی و انکسار ان کی پہچان! وہ صاحب علم بھی تھے اور صاحب حلم بھی۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ لازوال ہیں، بے مثال ہیں۔ سندھ کے گوٹھ گوٹھ اور قریہ قریہ تک انھوں نے تحریک کا پیغام پہنچایا۔ وہ انتھک کارکن تھے اور بے باک رہنما۔ وہ جیپ خود چلا لیا کرتے تھے ،کبھی پیدل چلنا پڑتا تو کئی میل پیدل بھی چل لیا کرتے تھے۔ انھوں نے بے شمار خدمات سرانجام دیں جن میں ایک عظیم خدمت تفہیم القرآن کاسندھی زبان میں ترجمہ ہے۔ اگرچہ وہ اسے مکمل نہ کر سکے مگر آنے والوں کے لیے راستہ کھول گئے، نشان منزل نصب کر گئے۔(الحمدللہ اب یہ کام مکمل ہوچکا ہے۔ تفہیم القرآن کی چھ جلدیں سندھی زبان میں سندھ اسلامک پبلی کیشنز حیدر آباد نے شائع کی ہیں۔ اس ادارے کے نگران شروع میں میاں محمد شوکت مرحوم تھے ، آج کل برادر محترم عبدالوحید قریشی صاحب یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح تلخیص تفہیم القرآن از مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم (ہند )کا سندھی ترجمہ نظام الدین میمن صاحب کی نظامت میں چلنے والے ادارے مہران اکیڈمی نے شائع کر دیا ہے۔)
منصورہ کی ملاقاتوں کے بعد مرحوم سے چند مزید ملاقاتیں اچھرہ اور منصورہ لاہور میں ہوئیں۔ ہر ملاقات میں دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا کہ سندھ کا وہ عظیم سپوت محبت اور خلوص کا پیکر تھا۔ حق مغفرت کرے وہ مرد درویش بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔جیلانی صاحب نے اپنے مضمون میں مولانا بھٹوؒ مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی وفات کی خبر پڑھ کر انھوں نے اپنی بیوی سے کہا وہ سندھی اجرک لانا، میں اس اجرک پر اپنے دوست کے نشان ہائے دست دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہر شخص کا اپنا انداز اور اپنا خیال ہوتا ہے۔ جیلانی صاحب نے اجرک پر اپنے دوست کے نشانات ڈھونڈے، میں وطن سے دور نہاں خانہ دل میں اپنے مشفق بزرگ کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ یادوں کے دریچے کھلے ہیں۔ مناظر ایک ایک کر کے گزر رہے ہیں۔ وقت کی گرد نے کچھ مناظر دھندلا دیے ہیں مگر یادوں کی خوشبو اب بھی مہک رہی ہے۔ چند مناظر میں نے ان سطور میں لکھ دیے ہیں، بہت سے دل میں دفن کر دیے ہیں۔ دل ہی میں تصویر یار سجا رکھی ہے جب گردن جھکائی دیکھ لی۔ سندھ کی رونق دو جان محمد تھے ایک چلے گئے اور خلا چھوڑ گئے دوسرے موجود ہیں اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھے اور اپنے دین کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے۔ دل کی کیفیت بقول شاعر کچھ یوں ہے ؎
میں ہوں دشت غم کا سناٹا
کوئی آواز دور دور نہیں!
مولانا مرحوم کا خاندان پوری دلجمعی کے ساتھ جماعت اسلامی میں سرگرم عمل ہے۔ دیگر بہت سی خدمات کے علاوہ یہ بھی مولانا کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ مولانا کے بڑے بیٹے مولانا محمد احسن اور ان کے بھائی پروفیسر حافظ احسان اور حسن بھٹو اور حسین بھٹو سبھی جماعت اسلامی کے ارکان ہیں۔