غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان 80 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ کوفی عنان کا پورا نام کوفی عطا عنان تھا، ان کا تعلق گھانا سے تھا۔ وہ 8 اپریل 1938ء کو پیدا ہوئے، اور جنوری 1997ء سے دسمبر 2006ء تک اقوام متحدہ کے ساتویں جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ انسانیت کی خدمات کے لیے انہیں نوبیل امن انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔
واجپائی چل بسے
انڈیا کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 93 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کا اعلان نئی دہلی کے ہسپتال آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کیا گیا جہاں وہ گزشتہ دو مہینوں سے زیرِ علاج تھے۔ واجپائی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ ان کا شمار انڈین سیاست کی معتبر ترین شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ 1996ء اور 2004ء کے درمیان تین بار انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ انھوں نے 1998ء میں اپنے دورِ حکومت میں زیر زمین ایٹمی دھماکا کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اٹل بہاری واجپائی کے انتقال پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے اٹل بہاری واجپائی کی کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی‘۔ ’آپ نے جوہری تجربات کیے تو ہم بھی جوہری طاقت بنے‘۔ واجپائی 1999ء میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے مذاکرات کے لیے بس کے ذریعے لاہور آئے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی بہترین مقرر اور ہندی زبان کے ایک عمدہ شاعر تھے اور ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
کانگریس میں اخوان المسلمون کا معاملہ گردش میں
امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں خارجہ تعلقات اور انٹیلی جنس بجٹ کی کمیٹیوں نے امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ سے ایک رپورٹ کی تیاری کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ رپورٹ الاخوان المسلمون کی سرگرمیوں کی نوعیت کے بارے میں ہوگی۔ یہ پیش رفت ایوانِ نمائندگان کے اندر اس معاملے کو زیر بحث لانے کے بعد سامنے آئی ہے کہ مذکورہ جماعت امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔
رپورٹ کی تیاری میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے ساتھ تعاون کریں گے۔کانگریس نے متعلقہ وزراء کو اس رپورٹ کو مکمل کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دی ہے۔ اس مدت کے اندر رپورٹ تیار کر کے امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں خارجہ تعلقات اور انٹیلی جنس بجٹ کی کمیٹیوں کو ارسال کی جائے گی۔کانگریس کے مطالبے کے مطابق اس رپورٹ میں الاخوان تنظیم کے اثاثوں، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں اس کے پیروکاروں اور تنظیم کی تمام شاخوں کی فنڈنگ کے ذرائع کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں تنظیم کے ڈھانچے اور قیادت سے متعلق معلومات شامل ہوں گی۔رواں برس جولائی میں کانگریس میں الاخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔اقوام متحدہ پہلے ہی اخوان کی کئی شاخوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔ ان میں حماس تنظیم اور مصر میں الاخوان المسلمون سے مربوط حسم تحریک شامل ہے۔
روس قطب شمالی میں تیزی سے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کر رہا ہے
برطانوی تھنک ٹینک کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس کی فوجی سرگرمیوں میں 2014ء سے بہت تیزی آئی ہے اور اس نے مستقل فوجی چھاؤنی بھی قائم کرلی ہے۔
برطانوی تھنک ٹینک دا ہینری جیکسن سوسائٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس نے فوجی تربیت اور مشقوں میں اضافہ کیا ہے، نئی بریگیڈز بنائی ہیں اور قدرتی وسائل کا استحصال کررہا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماسکو نئے برف توڑ بحری جہاز بنا رہا ہے، سوویت دور کے فوجی اڈے دوبارہ کھول دیے ہیں اور قطب شمالی میں میزائل وارننگ نظام بھی نصب کردیا ہے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق روس ایرو ڈرومز کو بھی بحال کررہا ہے اور ’آرکٹک ٹریفوئل‘ میں بہت بڑے فوجی اڈے کی تعمیر پر کام شروع کردیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ نیٹو کو فوری طور پر قطب شمالی کے حوالے سے حکمت عملی بنانی ہوگی اور سیکورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا۔ روس کی جانب سے یہ اقدامات ایسے وقت کیے جا رہے ہیں جب روس اور مغرب کے درمیان 2015ء میں کریمیا پر روس کے کنٹرول کے بعد کشیدگی جاری ہے۔ روس نے اپنی تمام سرحدوں پر فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے جس کے باعث نیٹو بھی ہزاروں فوجی مشرقی یورپی اتحادیوں کی حفاظت کے لیے تعینات کررہا ہے۔ ان ممالک میں ایوٹونیا، لیٹویا، لتھوینیا اور پولینڈ شامل ہیں۔ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث قطب شمالی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ برف پگھلنے سے ممالک کے لیے آسان ہوگیا ہے کہ وہ قدرتی وسائل کا استحصال کریں۔ دوسری جانب روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ قطب شمالی میں قائم فوجی اڈے پر دو ٹی یو 160 بمبار طیارے پہنچ گئے ہیں اور ان کے پہنچنے سے شوکاکا میں واقع ایئر فیلڈ پر تعیناتی مکمل ہوگئی ہے۔ وزارتِ دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دو اسٹرے ٹیجک بمبار طیاروں نے پہلی بار انیدر ایروڈروم پر لینڈ کیا ہے اور وہ طویل فاصلے کی فلائٹ کی مشق میں حصہ لیں گے۔
سونے اور چاندی کے سکوں کی کھنک اور جھنکار پھر سے واپس ؟
۔ 2017ء وہ سال تھا جس نے دنیا بھر کے معاشی نظام کو الٹ کر رکھ دیا۔ 75 سال کے اس مستحکم مالیاتی نظام کے زوال کی ابتدا ہوئی جسے جنگِ عظیم دوم میں فتح حاصل کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 1944ء میں بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods agreement) سے قائم کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت سونے اور امریکی ڈالر کے درمیان ایک باہم ربط قائم کیا گیا اور یہ طے پایا کہ کسی ملک کے پاس جتنا سونا مالیت میں موجود ہوگا وہ اتنے ہی کرنسی نوٹ چھاپ سکے گا۔ حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ خود ہی اپنے ذخائر کا جائزہ لے کر کرنسی نوٹ چھاپیں، لیکن عالمی سطح پر ان کی مالیت کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ امریکی ڈالر مقرر کیا گیا۔ یعنی کوئی بھی ملک اگر اپنے پاس موجود سونے کے ذخائر سے زیادہ نوٹ چھاپ لیتا ہے تو ڈالر کے مقابلے میں اس کی کرنسی گر جائے گی اور اس کے ملک میں افراطِ زر پیدا ہوجائے گی۔ امریکہ کے ڈالرکو اسٹینڈرڈ اور سونے کا نعم البدل مان لیا گیا۔ دنیا بھر کے ممالک نے اپنا سونا امریکہ کے فیڈرل ریزرو ٹریژری میں رکھنا شروع کردیا اور اس کے بدلے انہیں کاغذ کے کڑکڑاتے ڈالر ملتے رہے۔ لیکن دراصل حقیقت یہ تھی کہ امریکہ نے جتنے زیادہ ڈالر چھاپے اس کے بدلے میں سونا اُس کے پاس بہت ہی کم تھا۔ یہ چوری جب 1971ء میں فرانس کی حکومت نے پکڑی تو امریکہ نے ڈالر کو سونے کی قید سے آزاد کرلیا۔ جنگ عظیم کے زمانے کا ایک بینک موجود تھا Bank of international settlement (عالمی تنازعات کے تصفیے کا بینک) اسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ یہ طے کرے کہ ڈالر کے مقابلے میں کون سی کرنسی کتنی مضبوط ہے اور کون سی کمزور ہے۔ اب اس پیمانے کی بنیاد سونا نہیں ہوگا بلکہ اس کی بنیاد اس ملک کی “good will” یعنی معاشی حیثیت ہو گی۔ یوں دنیا کے نقشے پر دو اشیاء کا ظہور ہوا اور ان کا نام جگمگانے لگا۔ ایک امریکی ڈالر اور دوسرا تیل۔ امریکہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا اور سعودی عرب دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک۔ دونوں ملکوں کے زیراثر ایک عالمی منظرنامہ ابھرا کہ تیل ڈالروں میں بیچا جائے گا۔ اب جس ملک کو بھی تیل خریدنا ہو پہلے اپنا سونا چاندی یا دیگر اشیاء عالمی منڈی میں بیچ کر امریکی ڈالر خریدے اور تیل والے ممالک سے تیل خرید کر اپنا ملک چلائے۔ یوں تیل نے سونے کا کام شروع کردیا اور اس سے تعلق کی وجہ سے امریکی ڈالر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اس سے پیٹرو ڈالر کی اصطلاح وجود میں آئی۔ وقت نے کروٹ لی، بقول اقبال’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ کی پیشگوئی واضح ہوگئی۔ 2017ء میں چین دنیا کا واحد ملک بن گیا جو سب سے زیادہ تیل خریدنے والا تھا، جبکہ روس دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ یہ سب گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل ہورہا تھا لیکن 2017ء میں دونوں ملکوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ ہم اس عالمی پابندی کو نہیں مانتے کہ تیل صرف امریکی ڈالروں میں خریدا جا سکتا ہے۔ ہنری کسنجر کا پیٹرو ڈالرز سائبیریا اور صحرائے گوبی کی ریت میں ہوا بن کرنے اڑنے لگا۔ چین اور روس نے طے کیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سونے میں تجارت کریں گے۔ اس کے بعد گزشتہ ایک سال سے تمام ملکوں میں ایک خوف طاری ہے کہیں ڈالر ایک دم بیٹھ ہی نہ جائے۔ اسی لیے وہ سوچتے ہیں کہ اپنا سرمایہ سونے کی صورت محفوظ کریں، یا ایک ایسے جعلی کاغذی امریکی ڈالر کی صورت میں جس پر 123 ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے؟ ہنگری نے تین ٹن سونا اکٹھا کیا جس کی مالیت 130 ملین امریکی ڈالر تھی۔ جرمنی کے بنڈس بینک (Bundes bank) نے نیویارک اور پیرس میں پڑے ہوئے 28 ارب ڈالر کے سونے کے ذخائر واپس لے لیے۔ جس وقت یہ سب ہورہا تھا تو امریکی خزانے (ٹریژری) کا سیکریٹری اسٹوین منچن (Steven Manchen) غیر معمولی طور پر فورٹ نوکس (Fort knos) گیا جہاں 200 ارب ڈالر کا سونا پڑا ہوا تھا اور اطمینان کا سانس لے کر بولا کہ ’’دیکھو یہ یہاں موجود ہے‘‘۔ امریکہ سے سونا منگوانے اور امریکی ڈالر سے بھروسا اٹھ جانے کی خبریں اب تو عام ہیں لیکن یہ سب پانچ چھے سال سے ہورہا ہے۔ وینزویلا نے 2012ء میں اپنا سونا امریکہ سے منگوایا جس پر اس کے صدر ہیوگوشاویز کی امریکہ سے ٹھن گئی۔ ہالینڈ نے 2014ء میں امریکہ سے 121.5 ٹن سونا اپنے ملک واپس منگوا لیا اور جرمنی نے بحیثیت ایک ملک 2017ء میں 300 میٹرک ٹن سونا جرمنی واپس منگوایا۔ امریکی ڈالر اور امریکی خزانے کو تازہ جھٹکا اُس وقت لگا جب اس کے نیٹو اتحادی اور ایک سو سال سے حلیف ترکی نے امریکی بینکوں میں پڑا ہوا 220 ٹن سونا واپس منگوایا جس کی مالیت 125.3 ارب ڈالر تھی۔ غصے سے پاگل امریکہ نے ترکی کی کرنسی لیرا کو گرانے اور اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لیے ترکی کے مال پر ٹیکس بڑھا دیئے۔ جواب میں ترکی نے امریکہ کی تمام الیکٹرانک مصنوعات جن میں موبائل اور کمپیوٹر شامل تھے، پر پابندی لگا دی۔ امریکی مشروبات پر 140 فیصد اور امریکی کاروں پر 120 فیصد ڈیوٹی لگادی گئی۔ ترک قوم متحد ہے۔ تیل کے ممالک میں سے قطر نے ترکی میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے سے جنم لینے والے عالمی مالیاتی نظام کے سب سے بڑے ہتھیار ’’جعلی کاغذی کرنسی‘‘ کے زوال کا وقت آگیا ہے۔ ایک مصنوعی دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔
(اوریا مقبول جان۔ 92 نیوز، 17اگست2018ء)
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی الجھنیں
اگر پیپلزپارٹی ووٹ دے بھی دیتی تو شہبازشریف جیت نہیں سکتے تھے۔ اس لحاظ سے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر پڑتا ہے، مستقبل کا لائحہ عمل اور نقشہ اسی سے متعین ہوگا۔ ایک نئی جنگ شروع ہوگی۔ اپوزیشن لیڈر بننے سے تو شہبازشریف کو کوئی نہیں روک سکتا، اب آپ سینیٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے امکانات دیکھیں گے۔ یہ اعزاز شیری رحمن کے پاس ہے، اب مسلم لیگ(ن) اسے واپس لینا چاہے گی۔ آئندہ صدر کے انتخابات کا بھی مسئلہ ہے۔ درمیان میں آصف زرداری، فریال تالپور اور اب انور مجید پر مقدمات ہیں۔ انور مجید کون ہیں؟ جو لوگ زرداری صاحب کے معاملات جانتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا کیا مطلب ہے، اور اس کے اثرات کیا ہیں۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن سے اس بے وفائی کے بدلے میں کیا لینا چاہتی ہے۔ یہ بھی جلد پتا چل جائے گا کہ ملتا ہے یا صرف ٹرخایا جاتا ہے۔ بہرحال اس نے اپنا کردار ادا کردیا ہے۔ دوسری طرف کیا مسلم لیگ(ن) سخت قسم کی اپوزیشن کی صلاحیت رکھتی ہے؟ کیا اس کی قیادت کی بھی کچھ ایسی الجھنیں نہیں ہیں جو انہیں کھل کھیلنے سے روکتی ہیں؟ مسلم لیگی ارکان کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار کرتی ہے کہ شہبازشریف لیڈر آف اپوزیشن بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اگر رکھتے بھی ہیں تو اس وقت ڈرے ہوئے ہیں۔ ان پر اور ان کے لواحقین پر بھی کئی مقدمات ہیں۔ خاص کر ان کا داماد علی عمران خاصی مشکل میں ہے۔ دوسرے قائدین پر بھی مقدمات کھل رہے ہیں۔ اس لیے مشکل ہوگی کہ یہ جماعت اپنے قائد نوازشریف کا جارحانہ بیانیہ آگے بڑھا سکے۔ کہا یہی جائے گا کہ پارٹی کو بچانا ہے، ورنہ یہ تتربتر کردی جائے گی، اس لیے احتیاط سے آگے بڑھو۔ تو طے یہ ہوا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں اپنی اپنی الجھنوں کا شکار ہیں۔ ان کی قیادتوں کی ذاتی پریشانیاں بھی ہیں۔ قیادت سے مراد آصف زرداری اور شہبازشریف ہیں۔ کیا یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے؟ کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ مگر یہ سب عارضی مراحل ہیں۔ میرے پیش نظر معاملات کو ایک دوسرے انداز سے دیکھنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ اس سب توڑا مروڑی کے بعد آیا عمران خان اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوسکیں گے؟ اور نہ ہوسکے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اگر سارے پراسس کے ذریعے عمران خان کو مضبوط کیا جا رہا ہے تو کیا اس سے وہ اپنا ایجنڈا پورا کر سکیںگے؟ اسٹیٹس کو کی قوتوں کو شکست دے کر انقلابی اور بنیادی تبدیلیاں لا سکیںگے؟ کچھ باتیں تو ایسی ہیں جنہیں وہ قوت اور عزم سے کام لیں تو خود ہی کرسکتے ہیں۔کچھ ایسی ہیں جن کا ہونا کئی نئے سوالات اٹھاتا ہے۔
(سجاد میر۔ روزنامہ92، 18اگست2018ء)