چشمہ نکلنے کا معجزہ

پیشکش: ابوسعدی
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر خانہ کعبہ کے پاس چھوڑ کر گئے تو حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے پاس پانی ختم ہوگیا۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تشنگی اور پیاس سے بے تاب ہوکر اور اس خیال سے کہ کوئی قافلہ نظر آئے، وہ صفا پر چڑھیں۔ وہاں سے جب کچھ نظر نہ آیا تو مروہ پر گئیں۔ ان دونوں کے درمیان پست جگہ تھی۔ یہاں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نظر نہ آتے تھے۔ شفقتِ مادری کی وجہ سے اس وادی کو دوڑ کر طے فرماتیں۔ اسی جستجو میں سات چکر کاٹے لیکن پانی کا کہیں سراغ نہ ملا۔ اسی اثنا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ آپ کے لیے یہ لمحہ واقعتاً مسرت بخش تھا۔ اس پانی کے اردگرد حصار باندھتے ہوئے کہہ رہی تھیں زم زم یعنی پانی بہت ہے، پانی بہت ہے۔ اسی لیے اس چشمہ کا نام “زمزم” ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب چشمے کا پانی بہنا شروع ہوا تو حضرت ہاجرہ علیہ السلام اس پانی کو پھیلتا دیکھ کر کہنے لگیں: “زم زم” یعنی “رک جا”۔ پانی رک گیا اور یوں اس چشمے اور پانی کا نام زم زم پڑ گیا۔

کنواں گم ہو گیا

یہ بات تو معروف ہے کہ مکہ میں آبادی کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوا۔ آپ نے ایک سو سینتیس سال کی عمر پائی اور تاحیات مکہ کے سربراہ اور بیت اللہ کے متولی رہے۔ ان کے ننھیال میں سے ایک شخص مضاض بن عمرو جُرہمی نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس طرح مکہ کی سربراہی بنو جُرہم کی طرف منتقل ہو گئی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا زمانہ تقریباً دو ہزار ق م ہے اور اس حساب سے مکہ میں قبیلہ جرہم کا وجود تقریباً دو ہزار برس رہا۔ دوسری صدی عیسوی میں بنو جرہم کی اقتصادی حالت بہت خراب ہو گئی اور انہوں نے تنگ دستی سے گھبرا کر زائرین بیت اللہ پر زیادتیاں شروع کردیں۔ ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عدنانی قبیلہ نے بنو جرہم کو جنگ میں شکست دے کر انہیں مکہ سے نکال دیا اور مکہ پر قابض ہو گئے۔
بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت زم زم کا کنواں پاٹ دیا اور اس میں کئی تاریخی چیزیں دفن کرکے اس کنویں کے نشانات مٹا دیے۔ ان تاریخی اشیاء میں خانہ کعبہ کے دو سونے کے ہرن، حجر اسود اور بہت سی تلواریں شامل تھیں۔ اس طرح یہ کنواں تقریباً ساڑھے تین سو سال لاپتا رہا۔ اس عرصہ میں لوگوں کے علم میں یہ بات ضرور رہی کہ چاہِ زم زم خانہ کعبہ کے نزدیک موجود ہے۔

انٹیلی جنس

انٹیلی جنس سب ریفلیکسز کا کھیل ہے اور انسٹنکٹ کا اس میں کوئی قانون نہیں، یا یہ کہ اس کے اپنے قانون ہیں۔ جنگل کے جانور کو پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر خبر ہوجاتی ہے کہ اس کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ تم نے کبھی دیکھا ہے کہ وہ ایک پتّا گرنے کی آواز سے بدک اٹھتا ہے حالانکہ اُسے علم ہوتا ہے کہ محض ایک پتّا گرا ہے مگر وہ جانتا ہے کہ اگر سو بار میں ایک بار بھی چوک گیا تو جان گنوا بیٹھے گا۔ اس کام میں کوئی رسک کور نہیں ہوتا۔ موقع محل کے مطابق اپنا عمل وضع کرنا پڑتا ہے، کوئی حیلہ بہانہ کام نہیں دیتا۔ (عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ سے انتخاب)

ٹیڑھا پن

جب ایک بال مُڑ کر آنکھ کے سامنے آجاتا ہے تو دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان پردہ ہوجاتا ہے اور آسمان پر ہلال نہ ہوتے ہوئے بھی اسے ہلال نظر آتا ہے، تو جب تیرے سارے اجزائے فطرت ٹیڑھے ہوجائیں تو کس قدر دھوکا ہوسکتا ہے۔ اے سیدھا راستہ تلاش کرنے والے، اپنے اجزا کو سچوں کے پاس لے جاکر سیدھا کر۔ ترازو ہی ترازو کو درست کرتی ہے اور ترازو ہی ترازو کو غلط کرتی ہے۔ جو گمراہوں کے ساتھ تُلتا ہے خود اس کا وزن بگڑ جاتا ہے اور اس کی عقل کھو جاتی ہے۔ (مولانا رومی)

منیٰ میں قربانی

حجاج کی منیٰ میں قربانی اس عظیم اور ناقابلِ فراموش منظر کی یاد تازہ کرتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پیارے جگر گوشہ اسمٰعیلؑ کے گلے پر چھری چلا دی۔ اس واقعہ کو حفیظ جالندھری نے مندرجہ ذیل خوبصورت اشعار میں زندۂ جاوید کردیا ہے ؎

بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا ساماں کر
پئے خوشنودیٔ مولا اسی بیٹے کو قرباں کر
پہاڑی سے صدا دی آئو اسمٰعیلؑ ادھر آئو
اِدھر آئو خدائے پاک کا فرمان سن جائو
پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب دیکھا ہے
کتابِ زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ میں خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خدا کے نام پر تیرے لہو سے ہاتھ بھرتا ہوں
یہ سن کر بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسمان حیراں تھے اس طاعت گزاری پر
کہا بیٹے نے کہ اے باپ اسمٰعیل صابر ہے
خدا کے حکم پر بیٹا پئے تعمیل حاضر ہے
غرض اب ہر طرح تیار دونوں باپ اور بیٹا
چھری اس نے سنبھالی تو یہ جھٹ قدموں میں آ لیٹا
پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی
چھری حلقومِ اسمٰعیلؑ پر چلنے ہی والی تھی
مشیّت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسمٰعیلؑ کا اِک رونگٹا گھٹنے نہیں پایا
ہوئے جبرئیلؑ نازل آئے تھاما ہاتھ حضرتؑ کا
کہا بس امتحان مقصود تھا ایثار و جرأت کا
یہ جرأت اور قربانی ہوئے منظورِ یزدانی
کہ جنت سے یہ برّہ آ گیا ہے بہرِ قربانی
غرض دنبہ ہوا قربان اسمٰعیلؑ کے صدقے
چلی یہ رسم اس حکم کی تعمیل کے صدقے
لقب اس دن سے پایا اسمٰعیلؑ نے ذبیح اللہ
خدا نے آپ ان کے حق میں فرمایا ذبیح اللہ