کینیڈا اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ اس کا آغاز 6 اگست کو اُس وقت ہوا جب کینیڈا کی وزیر خارجہ محترمہ کرسٹینا فری لینڈ (Chrystina Freeland) نے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک سعودی خاتون محترمہ ثمرالبدوی کی گرفتاری پر تنقید کی۔ 37 سالہ ثمر ایک عرصے سے میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ انھیں پہلی بار اپنے والد کی حکم عدولی پر اپریل 2010ء میں گرفتار کیا گیا، تاہم عدالت میں اُن کے والد کا مؤقف غلط ثابت ہوا اور محترمہ نہ صرف رہا کردی گئیں بلکہ ان کی درخواست پر والد صاحب کے بجائے ماموں کو ثمر کا سرپرست نامزد کردیا گیا۔ 2011ء کے بلدیاتی انتخابات میں ثمر کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیئے گئے، جس کے خلاف انھوں نے عدالت میں اپیل دائر کی، تاہم درخواست مسترد ہوگئی۔ اسی دوران ثمرالبدوی نے سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کے لیے مہم شروع کی جس کی وجہ سے انھیں امریکہ اور مغرب میں مقبولیت نصیب ہوئی۔ ثمر کو امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے خواتین کے حقوق کی پُرعزم وکالت پر ایک خصوصی اعزاز دیا گیا اور وائٹ ہائوس میں ہونے والی تقریب کے دوران سابق خاتونِ اوّل مشل اومابا اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے انھیں ایوارڈ عطا کیا۔ عجیب اتفاق کہ اس سال ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دے دیا گیا لیکن مملکت کی پالیسیوں پر تنقید کے الزام میں 30 جولائی کو محترمہ ثمرالبدوی اپنی ساتھی نسیمہ الصدا کے ہمراہ گرفتار کرلی گئیں، جس کے خلاف یورپی ممالک میں احتجاج ہوا اور کینیڈا کی وزیرخارجہ نے بیان جاری کردیا۔
کہا جاتا ہے کہ کینیڈین وزیرخارجہ نے بیان دبائو میں آکر دیا تھا، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ثمر کے چھوٹے بھائی رائف البدوی ایک بلاگر ہیں جنھوں نے Free Saudi Liberalsکے عنوان سے ایک ویب سائٹ قائم کررکھی ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ رائف فری سعودی لبرلز پر توہین آمیز اور گستاخانہ پوسٹ اور بلاک جاری کرتے ہیں اور اسی بنا پر رائف کو 2012ء میں گرفتار کرکے مقدمہ چلایاگیا اور عدالت نے انہیں سات سال قیدِ بامشقت اور 600 کوڑے کی سزا سنائی، جسے دو سال بعد اعلیٰ عدالت نے بڑھا کر 10 سال قید اور 1000 کوڑے کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہانہیں 20 ہفتوں تک ہر ہفتہ 50 کوڑے مارے جائیں۔ اس سزا کے خلاف Human Right Watch یا HRW نے شدید احتجاج کیا، لیکن سعودیوں کا مؤقف تھا کہ اگر رائف کو سزا نہ دی گئی تو ساری دنیا کے مسلمانوں میں شدید ردعمل ہوگا۔ 9 جنوری 2015ء کو رائف کو 50 کوڑے لگائے گئے جس سے اُن کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خرابیٔ صحت کی بنا پر انہیں اب تک مزید کوڑے نہیں لگائے گئے۔ رائف کی اہلیہ انصاف حیدر سعودی عرب سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور انھوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ لے لی۔ انصاف صاحبہ لندن، پیرس، جنیوا اور امریکہ کے شہروں میں اجتماعات منعقد کرکے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں انصاف کو کینیڈین شہریت دے دی گئی اور انھوں نے ارکانِ پارلیمان سے مل کر قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد لانے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو معاملے کی نزاکت کا احساس تھا اور وہ سعودی عرب کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن کینیڈا میں اسلام مخالف لبرل لابی بہت سرگرم ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ رائف کی گرفتاری کے خلاف مذمتی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کردی جائے گی۔ چنانچہ حکومت کو دبائو سے نکالنے کے لیے وزیرخارجہ صاحبہ بیان جاری کرنے پر راضی ہوگئیں، تاہم وزیراعظم کے مشورے پر انھوں نے رائف کے بجائے ثمر کی گرفتاری کی مذمت کی۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ رائف کو ایک مجاز عدالت نے سزا سنائی ہے جس کی مخالفت ایک خودمختار ملک میں مداخلت کے مترادف ہے، جبکہ ثمر اس وقت زیر حراست ہیں اور اُن کے خلاف مقدمے کی کارروائی ابھی شروع نہیں ہوئی۔ کینیڈا کے دارالحکومت سے یہ بیان جاری ہوتے ہی سعودی عرب نے اس پر شدید ردعمل کا اظہارکیا اور:
٭سعودی عرب سے کینیڈا کے سفیر کو نکال دیا گیا۔
٭سعودی ائرلائن نے کینیڈا کے لیے پروازیں معطل کردیں۔
٭کینیڈا اور سعودی عرب کے درمیان تمام تجارتی معاہدے منجمد کردیئے گئے۔
٭کینیڈا میں زیرتعلیم سعودی طلبہ آج کل گرمیوں کی چھٹیوں میں سعودی عرب میں ہیں۔ ایک دوہفتوں میں کلاسیں شروع ہونے والی ہیں، لیکن سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنے طلبہ سے کہا ہے کہ وہ کینیڈا نہ جائیں، اور جو طلبہ وہاں پہنچ چکے ہیں انھیں بھی واپسی کی ہدایت کی جارہی ہے۔
٭کینیڈا میں زیرعلاج سعودی شہریوں کو امریکہ، یورپ یا سعودی عرب واپس آنے کی ہدایت کی گئی ہے اور خراب حال مریضوں کی واپسی یا امریکہ منتقلی کے لیے ائر ایمبولینس کا انتظام کیا جارہا ہے۔
٭ کینیڈا کو تیل کی فراہمی منجمد کردی گئی ہے۔
٭کینیڈا میں سعودی کاروبار اور تجارتی اثاثہ جات کو فروخت کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی، خریدے ہوئے میونسپل بانڈ اور حصص کی ایک دم فروخت سے کینیڈا کے بازارِ حصص اور مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے۔
سعودی وزیرخارجہ عدل الجبیر کا کہنا ہے کہ کینیڈین وزیر خارجہ کا بیان سعودی عرب کے داخلی معاملات اور ہمارے شفاف نظام عدل میں مداخلت ہے جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ یہ کوئی تنازع نہیں کہ ثالث مقرر کیا جائے۔ جناب عدل الجبیر کا یہ مؤقف دراصل یورپی یونین کی وزیرخارجہ محترمہ موغیرنی کے اُس بیان پر ردعمل تھا جس میں مغیرنی صاحبہ نے سعودی عرب اور کینیڈا پر اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ وہ ذاتی طور پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ یورپی یونین کے علاوہ فرانس نے بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
کینیڈا اور سعودی عرب کے تعلقات میں اعتماد کا فقدان بہت واضح ہے۔ اس چپقلش کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2014ء میں سعودی عرب نے اپنے نیشنل گارڈ کے لیے ہلکی بکتربند گاڑیاں (Light Armored Vehicles) یا LAVs خریدنے کا معاہدہ کیا۔ معاہدے کے مطابق 15 سال کے دوران سعودی عرب کو ہرسال ایک ارب ڈالر مالیت کی LAVs فراہم کی جائیں گی۔ کینیڈا کے لیے یہ ایک انتہائی نفع بخش سودا ہے جس کے نتیجے میں روزگار کے تین ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ بکتربند گاڑیاں کچھ اس طرح بنائی گئی ہیں کہ ان میں ہلکی اور بھاری دونوں قسم کی مشین گنیں نصب کی جاسکتی ہیں۔ مشین گنوں کے علاوہ ضرورت پڑنے پر 105 ملی میٹر کے گولے پھینکنے والی توپ اور ٹینک شکن میزائلوں کی تنصب بھی ممکن ہے۔ بکتربند گاڑیاں بنانے والے ادارے GD Land System Canada کے مطابق یہ LAVs عسکری نوعیت کی ہیں۔
کچھ حلقوں نے انکشاف کیا کہ سعودی نیشنل گارڈ اس قسم کی بکتربند گاڑیاں حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کینیڈا کی حکومت کو مراسلے لکھے جن میں کہا گیا کہ سعودی نیشنل گارڈ نے 2012ء اور 2015ء کے دوران مشرقی صوبے کے شہر قطیف اور اس کے مضافات میں شیعوں کے مظاہرے کچلنے کے لیے اس قسم کی بکتربند گاڑیاں استعمال کیں اور مشین گنوں کی فائرنگ سے سینکڑوں مظاہرین ہلاک ہوئے۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ بکتربند گاڑیوں نے عمارتوں پر گولے برسائے اور کئی جگہ مظاہرین کو روندا گیا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ 2011ء میں جب عرب اسپرنگ کے دوران بحرین کے شہریوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا تو ان نہتے بحرینیوں کے خلاف بھی اسی قسم کی بکتربند گاڑیاں استعمال ہوئی تھیں۔
ان دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت، تصویر یا ویڈیو پیش نہیں کی گئی اور سعودی عرب ان الزامات کی سختی سے تردید کررہا ہے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ ان بکتربند گاڑیوں میں سوار سعودی نیشنل گارڈ اور رینجرز تپتی ہوئی سرحدوں پر بین الاقوامی اسمگلروں اور داعش دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ یعنی کینیڈا سے حاصل ہونے والی LAV’s کو سرحدوں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ شمال میں اردن کے سرحدی شہر طریف سے مغرب میں کوئت کی سرحد پر حفرالباطن تک 800 کلومیٹر طویل سعودی عراق سرحد کی کڑی نگرانی بہت ضروری ہے۔ ماضی میں نیشنل گارڈ اور سرحد پار کرکے سعودی عرب آنے والے داعش چھاپہ ماروں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوچکی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مخالفت اور خود پارٹی کے شدید تحفظات کے باوجود کینیڈا کے سابق وزیراعظم اسٹیفن ہارپر (Stephen Harper) نے بکتربند گاڑیاں سعودی عرب کو فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دے دی۔ یہ موصوف کے اقتدار کے آخری دن تھے۔ اُس وقت کینیڈین معیشت کا برا حال تھا اور اکثر دانش وروں کا خیال تھا کہ 15 ارب ڈالر کا یہ معاہدہ کینیڈا کی تباہ حال معیشت کے لیے طاقت کا ٹیکہ ثابت ہوگا، چنانچہ ان کے مخالفین یعنی جسٹن ٹروڈو نے بھی اعتراض نہ کیا۔ اس کے کچھ ہی دن بعد انتخابات ہوئے جن میں جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ ٹروڈو نے جیسے ہی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا، کینیڈا کے سعودی عرب مخالف ترغیب کاروں (Lobbyists) نے ان پر معاہدے کی منسوخی کے لیے دبائو ڈالنا شروع کردیا، لیکن یہ 15 ارب ڈالر اور ہزاروں نوکریوں کا معاملہ تھا چنانچہ جناب ٹروڈو نے خاموشی سے معاہدہ برقرار رکھا۔
اس سودے کے خلاف مہم پر سعودی عرب شروع سے ہی خاصا مضطرب ہے، کہ معاہدے کی منسوخی یا وقتی تعطل سے اس کا دفاع متاثر ہوسکتا ہے۔ 23 جنوری 2015ء کو وزیردفاع کا عہدہ سنبھالتے ہی شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے کینیڈین ہم منصب اور LAV بنانے والے ادارے جنرل ڈائنامکس کے حکام سے بات کی جس میں تمام ذمے داروں نے یقین دلایا کہ کینیڈا معاہدے کی پاسداری کرے گا اور بکتربند گاڑیوں کی فراہمی معاہدے کے مطابق جاری رہے گی۔ تاہم کینیڈا اور یورپ میں اس فروخت کے خلاف مہم جاری رہی اور 2015ء میں سویڈن نے سعودی عرب کو فوجی سازوسامان کی فروخت پر مکمل پابندی لگادی۔ کچھ ایسی ہی قدغنیں جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے بھی عائد کی گئیں۔
اس مہم کے پس منظر میں ثمرالبدوی کے حوالے سے کینیڈین وزیر خارجہ کے بیان نے سعودی عرب کو مشتعل کردیا اور ریاض نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کینیڈین حکومت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کا ملک مغربی لابی کے ہاتھوں یرغمال بننے اور بلیک میل ہونے کو تیار نہیں اور سعودی حکومت اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گی چاہے اِس کے نتیجے میں اُسے ناقابلِ تلافی تجارتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ شہزادہ صاحب اس معاملے پر صدر ٹرمپ سے بات کرچکے ہیں اور امریکی صدر کی خواہش ہے کہ سعودی عرب امریکی ساختہ بکتربند گاڑی استعمال کرے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ داماد اوّل جیررڈ کشنر سعودی ولی عہد کو یقین دلا چکے ہیں کہ کینیڈا سے معاہدہ منسوخ ہونے کی صورت میں امریکہ یہ بکتربند گاڑیاں زیادہ پُرکشش شرائط پر فراہم کرنے کو تیار ہے، اور اسی یقین دہانی کی بنا پر سعودیوں نے جارحانہ سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو سے ناراض ہیں کہ جب امریکہ نے کینیڈا سے آنے والے فولاد اور المونیم پر بھاری محصولات عائد کیے تو جواب میں ٹروڈو سرکار نے امریکہ سے درآمد ہونے والے سور کے گوشت، شراب اور زرعی اجناس پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جس کی وجہ سے امریکی کسان سخت مشکلات میں ہیں۔ دیہی امریکہ ری پبلکن پارٹی کا گڑھ ہے اور وسط مدتی انتخابات سے چند ماہ پہلے کسانوں کے پیٹ پر لات نے صدر ٹرمپ کی پارٹی کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ امریکی دارالحکومت کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ کینیڈا کے خلاف یہ سخت اقدامات سعودی ولی عہد کی جانب سے ’اپنے دوست‘ کی مدد کی ایک کوشش ہے۔ اس مفروضے کو تقویت اس خبر سے ملتی ہے کہ جب گزشتہ ہفتے صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا امریکہ کینیڈا اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کرسکتا ہے؟ تو صدر ٹرمپ ترنت بولے کہ ہم نے دنیا بھر کے مسائل حل کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا، اور ریاض و اٹاوہ یہ مسئلہ خود حل کرسکتے ہیں۔