انسان محدود ہے، عاجز ہے، محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سازی کا ہر شاہکار عارضی اور نامکمل ہے۔ ہر نصف صدی بعد یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک نسل بعد، انسان ساز نظریات اور قوانین ناقابلِ عمل قرار پاتے ہیں۔ مغرب بالخصوص یورپ اس حوالے سے سب سے بڑی اور بُری تجربہ گاہ ثابت ہوا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ اس حقیقت سے انکارکیا گیا کہ انسان کا سارا اعجاز محض عطائے الٰہی ہے۔ یونان سے قرونِ وسطیٰ اور جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک یہ لوگ نظریات اور فلسفے گھڑتے رہے، قیاس آرائیوں پر چلتے رہے… یوں فرد سے معاشرے اور ریاست تک مسلسل متصادم رہے۔ جرمن فلسفی ہیگل کی ’’ریاست‘‘ کے جبر نے قومیں اور معاشرے برباد کیے۔ برطانوی فلسفی جان اسٹیورٹ مل نے سارا اختیار فرد کے ہاتھ میں تھما دیا، معاشرے زردار ونادارکے درمیان بٹ گئے۔ جرمن فلسفی کارل مارکس نے مزدوروں کو زائد قدرکی جنگ میں جھونک دیا۔ مگر نتائج یہ سامنے آئے کہ غریب غریب تر ہوگیا اور دنیا کی کُل دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی۔ ان چند ہاتھوں میں چینی و روسی باشندوں کا اضافہ بھی ہوگیا۔ انسان کا بنیادی اور اصل اخلاقی مسئلہ حل نہ کیا جاسکا۔
غرض الٰہیاتی اقدار سے محروم دنیا آج عالمگیر ناانصافیوں کی آماج گاہ بن چکی ہے۔ انفرادیت پرستی، اشتراکیت پسندی، یا ریاست پرستی عالمگیریت کا حق ادا نہیں کرسکتیں… یوں مغرب کی تنگ نظری وتنگ دلی وہ بدترین صورت اختیار کرگئی ہے جس کا یورپ میں مسلمان مسلسل سامنا کررہے ہیں۔ فرد کی آزادی اور رواداری کے قوانین خودکشی کررہے ہیں۔ اسلامی طرزِ زندگی پر سیاہ قوانین کا جبر دن بہ دن نمایاں ہورہا ہے۔
حال سے ایک مثال سامنے آئی ہے۔ چند روز قبل برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے ایک کالم میں برطانیہ کے سابق سیکریٹری خارجہ اور کنزرویٹو پارٹی کے اہم رہنما بورس جانسن نے اسلامی پردے کا مذاق اڑایا۔ جانسن نے ڈنمارک میں پردے پر پابندی کا ذکر خاص دلچسپی سے کیا۔ گو یہ قانون صراحت سے اسلامی پردے کا حوالہ نہیں دیتا، تاہم یورپ بھر پر واضح ہے کہ چہرے چھپانے پر پابندی سے کیا مراد ہے۔ غرض بورس جانسن پر اپنی پارٹی کی جانب سے تنقید ہوئی۔ وزیراعظم ٹریسا مے نے بھی اس کالم کا برا منایا، معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، جسے جانسن نے مسترد کردیا۔ پارٹی کے اندر ایک جنگ چھڑ گئی۔ ایک گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ یورپ یا مغرب فرد کی آزادی اور مذہبی رواداری کا پاس دار ہے، جبکہ دوسرا گروہ اس تلخ حقیقت کا اظہارکررہا ہے کہ یورپ کے قوانین عالمگیر وسعت کے حامل نہیں۔ بورس جانسن دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی مغرب کا وہ اصل چہرہ ہے، جو باحیا چہروں پر سے نقاب نوچ لینا چاہتا ہے۔
تنگ نظری کا سلسلہ یورپ کے قوانین سے فرد کی آزادی اور رواداری کا امکان مٹارہا ہے۔ بورس جانسن کے بیان پر شروع کیا جانے والا تنازع برطانیہ میں زیربحث آچکا ہے۔ یہی طریقۂ واردات ہے۔ ایک ملک اسلامی پردے پر پابندی لگاتا ہے، دوسرے ملک کا ایک وزیر اس پر نفرت انگیز تبصرہ کرتا ہے۔ یہ تبصرہ بحث چھیڑ دیتا ہے۔ انفرادیت پرست اور قدامت پرست بحث آگے بڑھاتے ہیں۔ قدامت پرست بحث جیت جاتے ہیں۔ یوں اس ریاست میں بھی پردے پر پابندی کا قانون پاس ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ برطانیہ میں ہورہا ہے۔
یکم اگست 2018ء کو ڈنمارک میں چہرہ چھپانے کے لیے کپڑا استعمال کرنے پر پابندی کا قانون عمل میں آیا تھا، جس کے فوراً بعد ایک باپردہ عورت پر 120 پاؤنڈ کا جرمانہ کیا گیا۔ سال 2010ء میں یورپ کے پہلے ملک فرانس نے نقاب پر پابندی کا قانون نافذ کیا تھا… اُس وقت کے صدر نکولس سرکوزی نے کہا تھا کہ ان کے ملک میں نقاب ’نامنظور‘ ہے۔ جرمنی میں سرکاری اہلکاروں اور فوج میں افراد کے لیے ایسا کپڑا پہننا غیر قانونی ہے جس سے چہرہ ڈھک جائے۔ باواریا کے نجی اسکولوں میں اسلامی نقاب پر پابندی ہے۔ آسٹریا میں عوامی
مقامات پر نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر 150 پاؤنڈ کا جرمانہ ہے۔ بیلجیم میں عوامی مقامات پر نقاب پہننے پر مکمل طور سے پابندی ہے۔ بلغاریہ میں نقاب کے خلاف قوانین یورپ بھر میں سخت ترین ہیں۔ خلاف ورزی پر700 پاؤنڈ تک جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، عورتوں کی سرکاری سہولیات بھی چھین لی جاتی ہیں۔ اس سال ہالینڈ میں عوامی مقامات، اسپتال، اسکول اور پبلک ٹرانسپورٹ میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یوں یورپ کا وہ چہرہ بے نقاب ہوتا ہے جس پر اسلام سے تعصب اور وحشت نمایاں ہے۔ تاہم عام اکثریت کا رویہ اس وحشت کی لپیٹ میں نہیں ہے۔
باکردار مسلمانوں کی اعتماد سازی رواداری کی شرح میں عالمگیر وسعت ممکن بناسکتی ہے۔ یہ احسن طریقہ ہے، جو سچ پر سے دجل کا نقاب الٹے گا۔