کسی بھی حکومت، سیاسی جماعت اور ادارے کی کامیابی کے لیے جہاں اس کی قیادت کے تدبر، فہم و فراست، بصیرت، سمجھ بوجھ اور فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے، وہیں سیاسی اور انتظامی ٹیم کا انتخاب بھی اہم ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ کی نیت ٹھیک ہوتی ہے مگر آپ بہتر ٹیم کا انتخاب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ ہمیں شفاف اور نیک نیت لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات بہت حد تک بجا ہے، مگر مسئلہ محض نیک نیت کا نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صلاحیت اور قابلیت کا بھی ہوتا ہے۔ مگر کیونکہ ہمیں اپنا نظام حکمرانی ملک سے زیادہ اپنے مفادات کے تحت چلانا ہوتا ہے اس لیے یقینی طور پر نتائج بھی مختلف ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہماری حکمرانی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی قیادتیں سمجھوتوں، اقرباپروری، ذاتی و خاندانی مفادات، دبائو اور خوف کے تحت، اور قومی مفادات کو نظرانداز کرکے اپنی ٹیم کا انتخاب کرتی ہیں۔ قیادت کے سامنے بنیادی مسئلہ قومی نوعیت کے مسائل نہیں بلکہ اپنی ذاتی سیاست ہوتی ہے۔ اس لیے ایک ایسی ٹیم کا انتخاب کیا جاتا ہے جو عملی طور پر سیاسی قیادت کے مفادات کے تابع ہو۔
ایک مسئلہ سیاسی چاپلوسی کا بھی ہوتا ہے۔ سیاسی قیادتیں عمومی طور پر اپنی ٹیم کے لیے ایسے افراد کا چنائو کرتی ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرتے ہیں۔ یہ قیادتیں صرف سیاسی ٹیم کے انتخاب میں اپنی نااہلی نہیں دکھاتیں، بلکہ انتظامی امور سمیت اہم اداروں میں افراد کی تقرریوں کے معاملے میں بھی اقرباپروری کا مظاہرہ کرکے ادارہ سازی کو کمزور کرکے اور نقصان پہنچاکر قانون کی حکمرانی، میرٹ اور اداروں کا قتل عام کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس مسئلے پر ہم جیسے لکھنے والے لوگ ہمیشہ واویلا کرتے ہیں اور ہر وقت حکمرانوں کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، مگر افسوس کہ اب حکمران طبقات ایسے لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیتے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور بالخصوص عمران خان کی حکمرانی، سیاسی و انتظامی فیصلوں اور ٹیم کے انتخاب کے معاملے پر سب اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان نے کیونکہ اپنی سیاست سے لوگوں میں بہت زیادہ توقعات پیدا کردی ہیں اس لیے سب ان کو حقیقی تبدیلی کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کا بنیادی امتحان ہی ان کی ٹیم کا انتخاب ہے، اور اسی بنیاد پر ان کی کامیابی، ناکامی اور تضادات کے پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ عمران خان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ انہیں واضح اکثریت حاصل نہیں۔ حکومت سازی کے لیے ان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں چھوٹی جماعتوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنا پڑرہا ہے۔ عمومی طور پر جب حکومت اتحادیوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے تو ان کی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے کئی طرح کے سیاسی سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں، جس سے حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ابتدا میں حکمران طبقات بہت بڑے بڑے دعووں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی طور پر سمجھوتوں کی سیاست نہیں کریں گے۔ مگر ہماری حکمرانی کے نظام میں ایسے لاتعداد چیلنج ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی حکمران طبقات کو سمجھوتوں میں الجھا دیتے ہیں۔ بعد میں حکمران طبقات کے پاس صرف ایک ہی دلیل ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام کو بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
عمران خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ ملک میں ان کو حکمرانی مشکل حالات میں ملی ہے۔ معاشی، سیاسی، انتظامی اور مالی بحران سمیت حکمرانی کا نظام غیر منصفانہ اور عدم شفافیت پر مبنی ہے۔ عمران خان کے بقول ان کی موجودہ حکمرانی خود ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ اس چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ عمران خان کی انتخاب جیتنے کے بعد کی تقریر، مرکزی اور صوبائی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے غیر روایتی سیاست کے مقابلے میں ایک متبادل حکمرانی پر کی گئی گفتگو، اور اس میں جذباتیت کا احساس اور ان کی باڈی لینگویج ظاہر کرتی ہے کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں ایک نئی طرز کی سیاست کرنے کے خواہش مند ہیں، کیونکہ ان کی ساری سیاست اسی جذباتیت کے گرد گھومتی ہے اور انہوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین پر اسی بنیاد پر تنقید کی ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کی سیاست کرتے ہیں اور نظام کی حقیقی تبدیلی ان کا ایجنڈا نہیں۔ جن لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیے ہیں اُن کا مطمح نظر بھی تبدیلی کی سیاست ہے، اور خود عمران خان کہہ رہے ہیں کہ لوگ مجھ سے بڑی تبدیلی چاہتے ہیں اور میں اُن کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔
جو لوگ عمران خان کو قریب سے جانتے ہیں اُن کے بقول وہ انتخاب جیتنے کے بعد ایک نئے عمران خان کو دیکھ رہے ہیں جو پچھلے عمران خان سے مختلف ہے۔ عمران خان بنیادی طور پر ایک ہی نکتے پر بہت زیادہ زور دیتے تھے، اور وہ ان کی سیاسی ٹیم کے انتخاب کا معاملہ ہوتا تھا۔ جو لوگ بھی عمران خان پر تنقید کرتے تھے اُن کو عمران خان کی جانب سے یہی جواب دیا جاتا تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان کی سیاسی اور معاشی ٹیم روایتی ٹیم سے مختلف ہوگی۔ عمران خان یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس ملک کے اندر اور باہر مختلف مسائل پر ایسے ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو سیاسی سے زیادہ پروفیشنل لوگ ہیں، اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر وہ حکمرانی کے بہتر نظام کو یقینی بناسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ان کو اپنی ٹیم کے انتخاب میں ماضی کی روایتی طرز کی سیاست اور اس سے جڑے فیصلوں سے گریز کرکے واقعی ایک نئے طرزِ سیاست کو آگے بڑھانا ہوگا۔
عمران خان کو مرکز، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بناکر اپنی ٹیم کے انتخاب میں مختلف امور سرانجام دینے ہیں: (1) کابینہ کا انتخاب، (2) وزرائے اعلیٰ اور صوبائی کابینہ کا انتخاب، (3) صوبائی گورنروں کی تقرری، مشیروں اور انتظامی اداروں کے سربراہان کا انتخاب۔
اس وقت تحریک انصاف اوراس کی اتحادی جماعتوں میں عملاً ایک سیاسی کھینچا تانی موجود ہے۔ تحریک انصاف میں موجود لوگ اور اس کے اتحادی ہر صورت میں اپنے آپ کو اقتدار کی تقسیم میں حصہ دار بنانا چاہتے ہیں۔ بہت سے اتحادیوں نے تو عمران خان یا تحریک انصاف کی حمایت کی صورت میں تحریری معاہدے کیے ہیں، اور اس کا مقصد کچھ لو اور کچھ دو کا اصول ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگرچہ عمران خان اچھی نیت رکھتے ہیں لیکن جیسے جیسے ان کی حکمرانی کا دور آگے بڑھے گا اُن کو حکمرانی کا ’اصل کھیل‘ معلوم ہوگا کہ یہاں سوائے سمجھوتوں کی سیاست کے کچھ نہیں، اور عمران خان کیونکہ ایک واضح مینڈیٹ نہیں رکھتے اور ان کی حکمرانی اتحادیوں کی مرہونِ منت ہے تو ان کو بھی وہی کچھ کرنا پڑے گا جو ماضی کے حکمران کرتے رہے ہیں۔
بہرحال اگر عمران خان میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر ایک بہتر سیاسی، معاشی اور انتظامی ٹیم نہ لاسکے تو وہ اپنی اچھی نیت کے باوجود وہ کچھ نہیں کرسکیں گے جس کی خواہش رکھتے ہیں۔ عمران خان کو اپنی ٹیم کے انتخاب میں چند بنیادی پہلوئوں پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اوّل: وہ اپنی سیاسی ٹیم کے انتخاب میں ایسے افراد کو سامنے لائیں جن پر کوئی بڑا سیاسی داغ نہ ہو اور ان کی ساکھ کرپشن اور بدعنوانی سے پاک ہونی چاہیے۔ دوم: سیاست سے بالاتر ہوکر وہ ملک اور بیرونِ ملک سے مختلف شعبوں کے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کریں جو ملک کو، درپیش بحران سے، قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کے تحت نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ سوئم: وہ ایک ایسی باصلاحیت ٹیم کا انتخاب کریں جو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر بھی رکھتی ہو اور اُن ممالک میں بہتری لانے کے لیے جو کچھ کیا گیا ہے اُس سے سیکھ کر ہمیں بھی ایک متبادل ترقی کے عمل میں شامل کرے۔ چہارم: سیاسی بنیادوں پر انتظامی عہدوں پر تقرریوں سے گریز کیا جائے اور اس کے مقابلے میں پروفیشنل لوگوں پر زیادہ انحصار کیا جائے۔ پنجم: تحریک انصاف میں ایسے بہت سے مرد و خواتین موجود ہیں جو نہ تو انتخاب لڑسکے اور نہ ہی انتخاب جیت سکے، ان کو حکمرانی کے نظام کی نگرانی میں حصہ دار بناکر ان میں حکومتی ملکیت کا احساس پیدا کریں۔
عمران خان کو اپنی حکمرانی کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانے، اور عوام کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے وفاقی اور صوبائی وزارتوں سمیت اداروں میں سیاسی اور انتظامی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ایک تھنک ٹینک پر مبنی ٹیم بھی بنانی چاہیے جو عملاً پالیسی سازی، عمل درآمد اور نئے نئے خیالات کی بنیاد پر اس حکومت کی رہنمائی کرے۔ یعنی منتخب افراد اور پروفیشنل افراد کے درمیان ایک کامیاب باہمی نظام قائم کرنا ہوگا۔ خارجی سطح پر پاکستان میں ایسے ماہرین موجود ہیں جو سابقہ ادوار میں حکومتی اور انتظامی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو علاقائی سیاست کے استحکام کے لیے ان لوگوں کے تجربات سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خود ان کی اپنی جماعت میں شاہ محمود قریشی، خورشید محمود قصوری، سردار آصف علی، شیریں مزاری جیسے سابق وزرائے خارجہ کا گروپ موجود ہے۔ اسی طرح سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان جیسے کئی ماہرین ہیں، ان کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح عمران خان کو اپنی توجہ محض مرکز تک محدود نہیں رکھنی چاہیے۔18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس لیے عمران خان کو صوبائی حکومتوں کی جواب دہی کے نظام سمیت وہاں وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیروں اور اداروں کی بھی نگرانی اور جواب دہی کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا۔ عمران خان کی یہ بات بہت حد تک معقول ہے کہ ٹیم میں جن لوگوں کا بھی انتخاب ہوگا اُن کا تسلسل اس عہدے پر اُن کی کارکردگی سے جڑا ہوگا۔ اگر اُن کی کارکردگی مؤثر اور بہتر نہ ہوئی تو کسی نئے کا انتخاب ہوگا۔ یہ عمل سب میں بہتر مقابلہ بازی اور جواب دہی سمیت نگرانی کے نظام کو مؤثر بنانے میں خاصی مدد فراہم کرے گا۔
اصل میں بہتر حکمرانی کی اوّلین شرط یہی ہوتی ہے کہ اوپر سے قیادت خود کو احتساب، جواب دہی، نگرانی اورکارکردگی سمیت میرٹ کے تناظر میں پیش کرے۔ اس طرح یہ عمل اوپر سے نیچے کی سطح پر پھیلتا ہے۔ اس لیے عمران خان کی کامیابی اصل میں اُن کی ٹیم کے انتخاب سے جڑی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس امتحان میں کس حد تک سرخرو ہوکر خود بھی اور قوم کو بھی بحرانی کیفیت سے نکالنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ موجودہ بیوروکریسی کا نظام بھی ان کے تبدیلی کے ایجنڈے میں ایک بڑی رکاوٹ بنے گا اور وہ آسانی کے ساتھ اپنے ماضی اور حال کے طور طریقوں سے جان نہیں چھڑائے گا، اورکوشش کرے گا کہ عمران خان کی حکومت کو بھی ماضی کی حکومتوں کے نظام سے جوڑے۔ اس کھیل میں عمران خان کیسے ایک حقیقی متبادل سیاست پیدا کرسکیں گے، یہی ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب اگلے چند ماہ کی سیاست میں پاکستان میں سب فریقین کو دیکھنے کو ملے گا۔