۔13اگست کو بلوچستان کے نومنتخب اراکینِ اسمبلی نے حلف اُٹھا لیا۔ وزارتِ اعلیٰ کے لیے جام کمال کا ستارہ چمکا ہے، وہ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے صدر ہیں۔ اس جماعت نے اتحادیوں یعنی پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے لیے مطلوب ہندسہ نہ صرف پورا کرلیا بلکہ اتحادیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ 4 ارکان پہلے ہی ’باپ‘ میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس طرح ’باپ‘ اسمبلی میں بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے۔ لیکن اس کے اراکین کے درمیان درونِ خانہ رسّا کشی جاری ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے میڈیا کے ذریعے دبائو کے حربے استعمال کیے، جنہیں بعد ازاں اسپیکر کے لیے نامزد کیا گیا۔ پارٹی کے مطابق اتحادیوں کے درمیان دیگر معاملات بھی طے پاچکے ہیں، البتہ تحریک انصاف کم حصے پر سمجھوتا نہیں کرے گی۔ یادش بخیر نواب ثناء اللہ زہری کے چھوٹے بھائی میر نعمت اللہ زہری نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، پھر 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں پی بی36 قلات سے آزاد حیثیت سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھائی کے مشورے سے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست سنبھالنے کے لیے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی، ایم ایم اے (جے یو آئی) اور نواب ثناء اللہ زہری دوسری طرف کھڑے ہیں۔ بظاہر ان کا حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کا تاثر قائم ہے، تاہم یہ جماعتیں کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہیں۔ ایم ایم اے یعنی جے یو آئی کا مرکزی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج جارحانہ شکل اختیار کرچکا ہے، اس بناء پر صوبے کے اندر بھی اس کا حکومتی بینچوں پر بیٹھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر واقعی ملکی سطح پر دھاندلی کے خلاف ایک سنجیدہ اور مربوط تحریک بنتی ہے تو بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کو بھرپور بنا سکتی ہیں۔ اس ذیل میں نیشنل پارٹی جو ویسے بھی اسمبلیوں سے بے نوا ہوچکی ہے، بالخصوص صوبے کے اندر اِن دو بڑی جماعتوں کے ساتھ احتجاجی تحریک میں بقدرِ جثہ حصہ ڈالے گی۔ سردار اختر مینگل نے صوبائی کے بجائے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اُٹھاکر درست فیصلہ کیا، اس کی ضرورت تھی۔ قومی اسمبلی میں کوئی قابلِ ذکر قوم پرست رہنما رہا بھی نہیں۔ سردار اخترمینگل کی جماعت نے 6 نکات کے ساتھ سیاسی پتّا کھیلا ہے اور وزارتِ عظمیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چونکہ سردار اختر مینگل نے بنی گالہ نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے8 اگست کو تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کوئٹہ آئے اور معاملے کو حتمی شکل دے کر چلے گئے، یعنی چھ نکاتی تحریری معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ ان چھ نکات میں لاپتا افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، بلوچستان کے نسلی تشخص کے تحفظ کے لیے قانون سازی، ڈیموں کی تعمیر، وفاق اور فارن سروسز میں بلوچستان کی ملازمتوں کے کوٹے پر عمل درآمد اور افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی شامل ہے۔ بی این پی اس موقع پر یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو معاہدے پر عمل درآمد کا پورا موقع دے گی، اور اگر عمل درآمد نہ ہوا تو بی این پی کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے، نہ ہی بی این پی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے دعوے کے تحت ہزاروں بلوچ افراد کی گمشدگی ثابت کرسکے۔ یعنی سیاسی دعوے اور عملی اور قانونی کام میں ظاہر ہے فرق ہوتا ہے۔گویا بی این پی نے اپنے عوام اور کارکنوں کے پاس واپسی کا گر استعمال کیا ہے تاکہ آئندہ جب تحریک انصاف سے اَن بن ہو تو یہ کہہ کر حمایت سے دست کش ہوجائے کہ اس کے چھ نکات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ بی این پی نے دراصل یہ حمایت اسٹیبلشمنٹ کی شہہ پر کی ہے۔ بی این پی کو جو کامیابی اِس الیکشن میں ملی ہے وہ اس کے حصے سے بڑھ کر ہے۔ اور اُس کا یہ دعویٰ کہ اِس بار بھی اُس کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے، معروضی حقائق کے منافی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کے ساتھ مل کر اِس جماعت نے نون لیگ، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت ختم کی وہ کیوں اس سے دغا کریں گے؟
مولانا فضل الرحمن بجا طور پر سیاست و جمہوریت میں مداخلت کے خلاف بولے ہیں، لیکن وہ ذرا اپنے اور اپنی جماعت کے لوگوں کے محاسبے کی اخلاقی جرأت بھی کریں جنہوں نے غیر مرئی لوگوں سے مل کر بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ختم کی۔ گویا سب سے پہلے یہ ناپسندیدہ عمل جے یو آئی نے بلوچستان ہی میں کردکھایا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن اپنا بویا کاٹ رہے ہیں۔ بہرحال سیاسی عمل میں مداخلت روا نہیں، نہ اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ ووٹ کا تقدس بہرحال قائم رہنا چاہیے۔
نیشنل پارٹی نے اگست کے سیشن میں پارٹی کی مرکزی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو کی بنیادی رکنیت ختم کردی۔ اصولی طور پر یہ قدم بہت پہلے اُٹھایا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ میر خالد لانگو پارٹی پالیسیوں کے پابند نہیں رہے تھے۔ تحریک عدم اعتماد ہو یا سینیٹ الیکشن، ہر موقع پر وہ پارٹی رائے اور فیصلوں کے باغی دکھائی دیئے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاً بعد اُن کی اسمبلی رکنیت ختم کرادی جاتی تاکہ وہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ استعمال نہ کرپاتے، جیسے پشتون خوا میپ نے اپنے رکن اسمبلی منظور کاکڑ کے خلاف فوری قدم اٹھایا۔ مگر اُن دنوں نیشنل پارٹی خوف اور مصلحت کا شکار رہی۔
نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی نے بھی تحریک انصاف کی حمایت کردی ہے۔ این اے 272 لسبیلہ گوادر سے اسلم بھوتانی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے، انہوں نے بھی بنی گالہ جاکر اپنی حمایت پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی۔
بلوچستان اسمبلی کے پہلے اجلاس میں 60 میں سے 58 ارکان نے رُکنیت کا حلف اُٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کے نواب ثناء اللہ زہری اسمبلی نہ آسکے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے اسمبلی میں موجود ہونے کے باوجود حلف نہیں اٹھایا۔ ایسا انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے کیا۔ صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 65 ہیں، تاہم پانچ نشستوں میں سے دو پر کامیاب امیدواروں پی بی 26 سے احمد علی کوہزاد، اور پی بی41 سے زابد ریکی کے نوٹیفکیشن روکے جاچکے ہیں۔ پی بی 35 مستونگ پر سراج رئیسانی کے دہشت گردی کے واقعے میں جاں بحق ہوجانے کے باعث انتخاب ملتوی کردیا گیا تھا۔ ایک نشست پی بی40 سے سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی میں جانے کے باعث خالی ہوئی ہے۔ خواتین کی ایک مخصوص نشست پر بی این پی عوامی اور پی ٹی آئی کے درمیان قرعہ اندازی ہونا باقی ہے۔ خواتین کی باقی 13میں سے 4 نشستیں بلوچستان عوامی پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔ ایک اقلیتی نشست بھی ملی ہے، اس طر ح بی اے پی 24 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ ایم ایم اے کو 2 خواتین اور ایک اقلیتی مخصوص نشست ملی ہے، اس طرح اس کی نشستوں کی مجموعی تعداد10 ہوگئی ہے۔ بی این پی کو بھی 2 خواتین اور ایک اقلیتی نشست ملی ہے مگر سردار اختر مینگل کے صوبائی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد ارکان کی تعداد 9 رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد خواتین کی ایک مخصوص ملنے کے بعد 7 تک پہنچ گئی ہے۔ اے این پی کے حصے میں بھی خواتین کی ایک مخصوص نشست آئی ہے اور اب اس کے ارکان کی تعداد 4 ہے۔ بی این پی عوامی کے 2 ارکان ہیں، اگر قرعہ اندازی میں خواتین کی نشست ملی تو یہ تعداد 3 ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ غرض تحریک انصاف بلوچستان عوامی پارٹی کے لیے تر نوالہ نہیں ہے۔ سردار رندگاہے گاہے اختلاف اور تلخی کا اظہار کرتے ہیں۔