تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کے لیے سوات سے تعلق رکھنے والے محمود خان کو نامزد کرکے اس حوالے سے گزشتہ کئی روز سے جاری قیاس آرائیوں پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔ یہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبر پختون خوا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن سے وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ محمود خان پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت میں وزیرکھیل، سیاحت، ثقافت، آب پاشی رہ چکے ہیں۔ ان کا آبائی تعلق سوات کے علاقے مٹہ سے ہے، انہوں نے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 9 سوات سے 25 ہزار 630 ووٹ حاصل کرکے اے این پی کے سابق صوبائی وزیر ایوب خان اشاڑے کو شکست سے دوچار کرکے پندرہ ہزار ووٹوں کے واضح فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔
محمود خان 30 اکتوبر 1972ء کو مٹہ سوات میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول مٹہ اور سیکنڈری تعلیم پشاور پبلک اسکول پشاور سے حاصل کی۔ محمود خان نے زرعی یونیورسٹی پشاور سے ایم ایس سی زراعت کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ وہ تحریک انصاف ملاکنڈ ڈویژن کے صدر بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کی مشاورت شامل تھی جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے ملاکنڈ ڈویژن میں اس حد تک نمایاں کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ دیربالا،دیر پائین اور بونیر جیسے جماعت اسلامی کے گڑھ سمجھے جانے والے اضلاع میں بھی ایم ایم اے کے ٹکٹس کے باوجود جماعت اسلامی کے ان امیدواران کو بھی ہرانے میں کامیاب ہوئی ہے جنہیں عام حالات میں بھی ہرانا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔
نامزد وزیراعلیٰ محمود خان کے بڑے بھائی احمد خان ضلع کونسل سوات میں اپوزیشن لیڈر، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی عبداللہ خان مٹہ کے تحصیل ناظم ہیں۔ محمود خان نے پرویزمشرف دور میں ناظم یونین کونسل کی حیثیت سے سیاست کا آغازکیا۔ وہ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے تھے۔ محمود خان نے جون 2012ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور2013ء کے عام انتخابات میں سوات مٹہ کے حلقے پی کے 84 سے کامیاب ہوکر پرویز خٹک کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیر آب پاشی،کھیل وسیاحت جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہیں پی ٹی آئی کی سابقہ مخلوط حکومت میں دوماہ تک صوبائی وزیر داخلہ رہنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا کے نامزد وزیراعلیٰ محمود خان 2 ارب51 کروڑ 67 لاکھ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ گوشواروں کے مطابق محمود خان کے پاس 4کروڑ روپے نقد ہیں، وہ 87کنال زرعی اراضی کے مالک ہیں اور مٹہ بازار میں55 کمرشل دکانیں بھی ان کی ملکیت ہیں۔ محمود خان کی اہلیہ کے پاس 35 تولے سونا ہے اور گھر میں ڈیڑھ کروڑ روپے کا فرنیچر موجود ہے۔ محمود خان اب تک سعودی عرب کے سوا کسی دوسرے ملک نہیں گئے۔2015ء میں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں وہ سعودی عرب گئے تھے اور وہاں 12دن مقیم رہے تھے۔
محمود خان نے اپنی نامزدگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان کے سپاہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے منشور پر من و عن عمل کیا جائے گا۔ وہ عمران خان کے وژن کی تکمیل کے لیے دن رات کام کریں گے اور اس ضمن میں کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پختون خوا کے عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے حلقے عمران خان کی جانب سے ضلع سوات سے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی محمود خان کی بطور وزیراعلیٰ خیبر پختوا نامزدگی کو تبدیلی کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے ملاکنڈ ڈویژن سے صوبے کا پہلا وزیراعلیٰ نامزد کرکے تاریخ رقم کردی ہے، اور یہی وہ تبدیلی ہے جس کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کررکھا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کے صحافتی اور پارلیمانی حلقوں نے اس نامزدگی کو حیرت کے ساتھ سنا، تاہم تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع محمود خان کو وزیراعلیٰ کا منصب دینے کے فیصلے کو گزشتہ ہفتے کے دوران ہی قبول کرچکے تھے جب عمران خان نے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک اور اپنے قریبی ساتھی نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی عاطف خان، اسد قیصر اور شاہ فرمان جیسے رہنمائوں پر واضح کردیا تھا کہ حکومت سازی اور کابینہ سازی میں اِس مرتبہ اُن علاقوں کو ضرور نامزدگی دی جائے گی جو ماضی میں نظرانداز رہے ہیں۔ بعدازاں گزشتہ شب اس سلسلے میں عمران خان نے تمام تر دبائو اور پارٹی کے اندر لابنگ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے محمود خان کو صوبہ خیبر پختون خوا کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا۔
باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ محمود خان کی نامزدگی کا فیصلہ چند روز قبل خیبر پختون خوا کی نومنتخب پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا جو عمران خان کی نیب پشاور میں ہیلی کاپٹر ریفرنس کیس میں پیشی کے روز اُن کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ محمود خان کی نامزدگی پر تمام اراکین صوبائی اسمبلی بشمول پرویز خٹک اور سابق وزیر تعلیم عاطف خان، متفق ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی جماعت متحد ہے اور نومنتخب ارکان کپتان کے ہر فیصلے پر لبیک کہہ رہے ہیں، لہٰذا ان افواہوں اور مفروضوں میں کوئی حقیقت نہیں کہ محمود خان کی نامزدگی پر کچھ رہنما ناخوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں کوئی تنازع نہیں ہے بلکہ محمود خان کی قیادت میں پارٹی کے ٹیم ورک کو مزید تقویت ملے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں پی ٹی آئی ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ محمود خان کو پرویز خٹک کی قربت کی وجہ سے نامزد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمود خان جتنے قریب پرویز خٹک کے ہیں اتنے ہی عاطف خان کے بھی قریب ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان کے بقول یہ تاثر سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں عہدوں کے حصول کے لیے کسی قسم کی گروپ بندی موجود ہے۔ جب کہ دوسری جانب اس حوالے سے پچھلے دو ہفتوں کے دوران جو خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور اس ضمن میں پرویز خٹک اور عاطف خان کے درمیان مسلسل جو رسّاکشی چلتی رہی ہے اُس سے ایک جہان واقف ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ کی حتمی نامزدگی کے بعد اب پارٹی کے مختلف رہنما منفعت بخش وزارتوں کے علاوہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کے حصول کی تگ ودو میں نہ صرف جت چکے ہیں بلکہ اس حوالے سے مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ نامزد وزیراعلیٰ سمیت پرویز خٹک کے ذریعے بھی لابنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسپیکر کا منصب اِس مرتبہ ضلع چارسدہ کو دیا جاسکتا ہے، اور یہاں سے نومنتخب رکن سلطان محمد خان جو قومی وطن پارٹی کو خیرباد کہہ کر الیکشن سے چند ماہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، کو اس منصب کے لیے مضبوط امیدوار سمجھا جارہا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدراور سابق صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان بھی اسپیکرشپ کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں درپردہ پرویز خٹک اور سابق اسپیکر اسد قیصر کی آشیرباد بھی حاصل بتائی جاتی ہے، جبکہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کی گاڑی چھن جانے کے بعد عاطف خان بھی اسپیکرشپ کے لیے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔
ادھر محمود خان کی نامزدگی پر پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنمائوں نے پُرجوش ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملاکنڈ ڈویژن سے وزیراعلیٰ نامزد کرکے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بری طرح متاثرہ علاقے کے عوام کا دل جیت لیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے پشاور سے نومنتخب رکن قومی اسمبلی نورعالم خان نے جوکچھ عرصہ پہلے تک بطور ایم این اے اسلام آباد کے مختلف ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کی صفائیاں دیتے نظر آتے تھے، پی ٹی آئی کا خود ساختہ ترجمان بن کر ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کے دوران محمود خان کو بہترین انتخاب قرار دیا اور کہا کہ ان کی قیادت میں خیبر پختون خوا ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگا۔ انہوں نے محمود خان سے ذاتی تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ انتہائی شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد قابل اور مخلص سیاست دان ہیں۔ انہوں نے ایک حقیقی سیاسی کارکن کی نامزدگی کو ملکی سیاست میں خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ محمود خان عام تاثر کے برعکس ایک حقیقی اسٹیٹس مین ثابت ہونے کے لیے دن رات محنت کریں گے اور پارٹی کے قائد نے اُن پر جو اعتماد کیا ہے وہ اس پر پورا اترنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔