قومی احتساب بیورو (نیب) نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی میں مالی بدعنوانیوں کی تلاش اور مرتکبین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی مہم تیز کررکھی ہے، وہیں توانائی کے ایک اہم منصوبے نیلم جہلم پروجیکٹ میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا بھی آغاز کردیا ہے۔ یہ قومی منصوبہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا چلا گیا تھا، اور اس طوالت کی وجہ سے اس کی لاگت بھی بڑھتی چلی گئی تھی۔ منصوبہ تو جیسے تیسے مکمل ہوگیا تھا مگر انفرااسٹرکچر بدستور نامکمل ہی رہا۔
اب قومی احتساب بیورو نے اس منصوبے کو خراب کرنے والے کرداروں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے آزاد کشمیر کے باسیوں کے زخم بھی ہرے ہوگئے ہیں، کیونکہ اس منصوبے کے ساتھ آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی دلخراش کہانی بھی وابستہ ہے۔ یہ بات طے تھی کہ اس منصوبے کے لیے دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا جائے گا، اور یوں مظفرآباد کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوا یہ دریا سوکھ جائے گا یا اس کا پانی اس قدر کم ہوجائے گا کہ اس کے لیے دریا کی اصطلاح محض تکلف ہی ہوگا۔ یہ بات بھی یقینی تھی اور خود ماحولیات کے ماہرین بھی اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ دریا خشک ہوجانے سے مظفرآباد کے ماحول پر تباہ کن اثرات ہوں گے جو انسانی زندگی کے لیے بھی حد درجہ ضرر رساں ہوں گے۔ ان اثرات کو یکسر ختم کرنا تو ممکن نہیں تھا مگر ان کو کم از کم سطح پر رکھنا ناگزیر قرار دیا جارہا تھا، اور اس کے لیے کچھ اہم اقدامات منصوبے کا حصہ تھے جن میں مصنوعی جھیلوں کی تعمیر بھی شامل تھی۔ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہوگیا اور پانی کو روکنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، مگر ماحول کو تباہی سے بچانے کے لیے تجویز کیے گئے اقدامات ہوا میں تحلیل ہوگئے۔
واضح رہے کہ دریائے نیلم دارالحکومت مظفرآباد کو پینے کے پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس دریا پر ماکڑی واٹر سپلائی اسکیم کے نام سے پانی کا ذخیرہ قائم ہے۔ دریا میں پانی کا بہائو کم ہونے سے آب نوشی کے مسائل پیدا ہونا لازمی تھے، تاہم اس کا حل واٹر سپلائی اسکیم میں توسیع کی صورت میں نکالا گیا، مگر مصنوعی جھیلوں سمیت دیگر اقدامات نہ اُٹھائے جاسکے۔ نیلم جہلم منصوبے کی تعمیر ان اقدامات سے ہی مشروط تھی۔ ان دنوں گرمی کی شدید لہر آئی اور دریائے نیلم واقعتا ایک نالے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ گرمی کی لہر کو پانی کے بہائو میں کمی سے جوڑا جارہا ہے۔ شاید یہ بات پوری طرح درست نہ ہو، کیونکہ مظفرآباد میں گرمی کی لہر چل پڑے تو یہ قیامت خیز ہوتی ہے، مگر پانی کے بہائو میں غیر معمولی کمی لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب پہاڑوں سے برف پگھل کر ندی نالوں کے ذریعے دریائے نیلم میں شامل ہوتی ہے، اور اس دریا کی موجیں پورے جوبن پر ہوتی ہیں۔ اس موسم میں دریا کا نالے میں بدل جانا آنے والے حالات کی دھندلی سی تصویر دکھا رہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں بدعنوانی اور اداروں کے تساہل و تغافل کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے، وہ سانتا کلاز کی طرح خود کو ایک مہربان کردار بابا رحمتا قرار دے رہے ہیں، ایک ایسا کردار جو مظلوم اور مفلوک الحال مخلوقِ خدا میں آسانیاں اور خوشیاں بانٹتا ہے۔ انہی کی مہم کے بعد نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ کے معاملات کی فائل کھل گئی تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ منصوبے کے لازمی جزو کے طور پر مظفر آباد کے ماحول کو معتدل اور انسان دوست رکھنے کے لیے تجویز کیے گئے منصوبے کیوں ڈراپ کیے گئے اور وہ رقم کہاں چلی گئی ؟تساہل،تغافل اور کرپشن کی اس روش کا خمیازہ اب بے چارے عوام بھگت رہے ہیں۔ آزادکشمیر کا دارالحکومت مظفرآبادنیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ کے باعث ما حولیات کے شدید بحران کا سامنا کررہا ہے۔عمومی تاثر یہی ہے کہ وفاقی اداروں اور واپڈا نے مظفرآباد کو ان مسائل کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے۔ انہی اداروں نے ماحول کو معتدل اور انسان دوست رکھنے کے لیے درکار فنڈز کی مٹھی بند کیے رکھی ہے۔ کچھ رپورٹس منظرعام پر آئی ہیں جو آزادکشمیر کی حکومت، بیوروکریسی اور فیصلہ سازوں کی اہلیت کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کررہی ہیں۔ اگر 71 سال میں ڈھائی اضلاع کی یہ حکومت بیوروکریسی میں ایسے مردانِ کار تیار نہیں کرسکی جو دیانت داری سے کسی منصوبے کی رقم کو استعمال میں لانے کی صلاحیت کے حامل ہوں تو پھر اس نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ رپورٹ کی تین باتیں بہت اہم اور قابلِ توجہ ہیں۔ نیلم جہلم منصوبے کے ماحول پر برے اثرات کو روکنے کے لیے تیار کیے جانے والے منصوبوں کی تمام رقم آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوچکی ہے۔ پینسٹھ واٹر سپلائی اسکیموں کی رقم محکمہ لوکل گورنمنٹ کو منتقل کی گئی تو انہوں نے منصوبوں پر کام کا آغاز کرنے کے بجائے رقم بینکوں میں جمع کر کے اس کے بدلے میں اپنے عزیر واقارب کو نوکریاں دلوائیں۔ ماکڑی ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر کے لیے 124 ملین روپے کی ادائیگی کی جاچکی ہے جو دارالحکومت کو پینے کے پانی کی فراہمی کا اہم ترین منصوبہ ہے، مگر آزادکشمیر کی بیوروکریسی ابھی تک پلانٹ کا ڈیزائن تیار نہیں کرسکی۔ مصنوعی جھیلوں کی تعمیر کے لیے آزادکشمیر کی بیوروکریسی نے دس ملین کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی، واپڈا نے اسے زیادہ لاگت کا حامل قرار دے کر ریویو کے لیے بھیجا، مگر ریویو کے بعد یہ منصوبہ واپس واپڈا کو نہیں بھیجا گیا۔ انسانوں کی موت و زیست اور نسلوں کی بقا اور فنا سے وابستہ اس اہم منصوبے کے ساتھ تساہل اور تغافل کے رویّے کو دیکھ کو یوں لگتا ہے کہ آزادکشمیر کا چھوٹا سا علاقہ ’’ناقابلِ حکمرانی‘‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ تنخواہیں، ڈیزل، پیٹرول، ٹی اے ڈی اے، سرکاری رہائش گاہیں کن ’’خدمات‘‘ اور ’’کارناموں‘‘ کے عوض دی جاتی ہیں؟ اگر واقعی یہ سسٹم چل نہیں پارہا تو پھر اس علاقے کو پرائیویٹائز کردیا جائے تاکہ برادریوں کی بنیاد پر قائم حبس زدہ ڈھانچے میں بھولے سے ہی سہی، انصاف اور میرٹ کی ہوائوں کے جھونکے کا گزر ممکن ہوسکے۔