پاکستان میں 2کروڑ افراد دماغی امراض کا شکار ہیں

سلمان علی
نیورولوجی بنیادی طور پر انسانی دماغ و اعصاب سے متعلق امراض کے علاج کا علم ہے۔ ان امراض میں فالج، مرگی، رعشہ، کمر کا درد، ریبیز، ملٹی پل اسکلروسس، الزائمر، مائیگرین، گردن توڑ بخار، برین ٹیومر جیسے امراض بھی شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی امراض ایسے ہیں جن سے مناسب احتیاط کے نتیجے میں محفوظ رہ کر صحت مند زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف) عوام الناس تک ان امراض کے حوالے سے آگہی اور نئی تحقیق میں معاونت کی کوشش میں مصروف ہے۔ حالیہ دنوں نارف کے زیراہتمام جناح اسپتال کراچی کے نجم الدین آڈیٹوریم میں دو روزہ نیورولوجی ٹرانسفارمیشن ان پاکستان کے عنوان سے کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک بھر سے ماہرینِ دماغ و اعصاب نے شرکت کی۔ افتتاحی سیشن میں نارف کے صدر و معروف ماہر امراضِ دماغ و اعصاب پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی اور پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے سابق صدر پروفیسر شوکت علی موجود تھے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دماغی و اعصابی امراض بڑھ رہے ہیں لیکن مستند ماہرین کی کمی ہے، ایسے میں اس طرح کی کانفرنس کا انعقاد قابلِ تحسین ہے۔ اس سے ہمارے مقامی ڈاکٹروں کو ملکی و بین الاقوامی ماہرین سے براہِ راست سیکھنے اور اُن کے تجربات سے استفادے کا موقع ملے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا تھا کہ دماغی امراض کے علاج اور ان کی روک تھام کے لیے جہاں حکومتی کردار کی کمی ہے، وہیںنارف گزشتہ دس برسوں سے پاکستان میں دماغی و اعصابی امراض کے حوالے سے شعور وآگہی پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں درجنوں سیمینار، میڈیکل کانفرنس اور ورکشاپ بھی کرائی جاچکی ہیں، جبکہ جونیئر ڈاکٹروں کے لیے تربیتی سیشن بھی اسی مقصد کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ نارف کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ ہمارا مقصد ملک میں ان بڑھتے ہوئے امراض کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
کانفرنس کے پہلے روز ملکی وغیر ملکی ماہرین نے مختلف موضوعات پر سائنٹفک سیشن اور تحقیقی مقالوں کی نشستوں کو چیئرکیا۔ ان میں فالج (ڈاکٹر نصیب اللہ کاکڑ، کوئٹہ)، کیریئر کونسلنگ (ڈاکٹر سرور صدیقی)، موومنٹ ڈس آرڈرز (ڈاکٹر نادر علی سید)، بچوں کی نیورولوجی( ڈاکٹر ٹیپو سلطان، لاہور)، ملٹی پل اسکلروسس (ڈاکٹر مغیث شیرانی، کراچی)، ڈیمینشیا (ڈاکٹر خالد شیر)، سردرد (ڈاکٹر عزیز سونا والا)، اعصابی مریضوںکی بحالی (ڈاکٹر فاروق راٹھور)، پاکستان میں ذہنی صحت (ڈاکٹر اقبال آفریدی) کے عنوان سے سائنٹفک سیشن، جبکہ مختلف دماغی امراض کے حوالے سے ورکشاپ بھی منعقد ہوئیں جن سے مقامی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔
کانفرنس کی پہلی شب ملک بھر سے آئے مہمان ڈاکٹروں اور شرکاء کے لیے یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ’’جشنِ آزادی مشاعرہ‘‘کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں معروف شاعر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، اجمل سراج، کاشف غیر، سلمان صدیقی و دیگر نے جشن آزادی کے حوالے سے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ اس اہم موقع پر ’نارف‘کی 10سالہ کارکردگی پر خصوصی مجلہ بھی جاری کیا گیا۔ کانفرنس میں ادویہ ساز کمپنیوں نے بھی اسٹال لگائے تھے اور دماغی امراض کی تشخیص کرنے والی جدید مشینری کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
کانفرنس کے دوسرے روز مختلف سیشنز میں ماہرین کی گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں دماغی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، دو کروڑ افراد دماغی امراض کا شکار ہیں،21کروڑ عوام کے لیے صرف 200 نیورولوجسٹ دستیاب ہیں، سالانہ ایک ہزار افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، صرف چھ اسپتالوں میں اسٹروک یونٹ قائم ہیں۔ دماغی صحت ہر گزرتے دن کے ساتھ مسئلہ بنتی جارہی ہے، پاکستان میں پچاس لاکھ افراد معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں کے حوالے سے احتیاطی تدابیر موجود ہیں جن پر عمل کرکے ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
کانفرنس کا اہم سیشن دماغی بیماریوں سے متعلق عوام الناس کے لیے ایک عوامی آگہی سیشن تھا، جس میں ماہرینِ دماغ و اعصاب کے علاوہ ماہرین نفسیات، ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم، این جی اوز اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی اور دماغی امراض کی کیفیت، اثرات، معاشرے میں کتنی آگہی موجود ہے اور بہتری کی تجاویز کے ساتھ ساتھ ماہرین نے اپنے تجربات و احساسات رکھے۔ کانفرنس کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر عبدالمالک (سیکریٹری نارف) اور عبید ہاشمی (عمیر ثناء فاؤنڈیشن) نے انجام دیئے۔ سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، معروف ای این ٹی فزیشن ڈاکٹر قیصر سجاد نے اپنے تجربات و احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دماغ کی بیماریوں کی شرح کو میں پاکستان میں اول نمبر پر آتا دیکھ رہا ہوں۔ لوگ مسائل کا شکار ہیں۔ پانی، بجلی، بے روزگاری کے نتیجے میں ڈپریشن اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ دماغی امراض کا بڑھنا ناگزیر ہے۔ بہت سے لوگ دماغ کی بیماری کو بیماری ہی نہیں سمجھتے۔ ایک دفعہ میں بات سمجھ میں نہ آنا، حد سے زیادہ حساس ہونا، عجیب سوالات کا تکرار سے اظہار کرنا خود دماغی خلل کی جانب اشارہ ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح 56 فیصد ہونے کے باوجود اس سلسلے میں آگہی کا معاملہ ایسا ہے کہ مرگی کے مریض کو پیلیا سمجھ کر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ اسی میں دماغی و نفسیاتی امراض بھی شامل ہیں۔ ہیلمٹ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اسے نہ پہننا غیر ذمے دارانہ رویّے کو ظاہر کرتا ہے۔ میڈیا کے دوست اگر اس سلسلے میں کچھ تعاون کریں اور اس میں اپنا جائز حصہ ملائیں تو یقینا بہتری آئے گی۔ ایسی بیماریاں ہیں جنہیں پیدا ہونے سے روکا جا سکتا ہے، اس لیے بیماری سے بچنے کی ضرورت ہے۔نارفکے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میڈیا کا آگہی کے سلسلے میں اہم کردار ہے۔ ہمارے ہاں ایئر بلو کے گرنے کی خبر کئی روز چلی کہ اُس میں ڈیڑھ سو لوگ جاں بحق ہوئے۔ فالج سے 400 لوگوں کا مر جانا میڈیا کے لیے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ آگہی و شعور کا یہ معاملہ صرف میڈیا تک محدود نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ خیبر پختون خوا میں حکومتی سطح کے ذمے داران سے ایک میٹنگ میں ہمیں حیرت ہوئی جب انہوں نے نسوار کو تمباکو ماننے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک کانفرنس میں دماغی امراض سے متعلق معلومات و اعداد و شمار پیش کیے گئے تو وہاں موجود وفاقی وزیر صحت نے خود کہاکہ اُنہیں یہ سب معلوم ہی نہیں تھا، نہ ہی ایسے اعداد و شمار اُن کے پاس تھے۔ صوبائی، وفاقی وزراء اور ہیلتھ کمیشن کا یہ حال ہے تو عوام کو بیماری کی آگہی کتنی، کیسی اور کس حد تک ہوگی؟ آگہی میں ایک بات علاج نہیں، اصل بات جسم کو صحت مند رکھنے، اور بیماری سے بچانے کی فکر کا پیدا ہونا ہے۔ آپ خود اپنی صحت کا خیال رکھنا شروع کریں، بیماریوں سے کیسے بچا جائے یہ آپ کو معلوم ہو، اور آپ کی کوشش بھی یہی ہو کہ آپ خود ایک صحت مند ماحول پیدا کرسکیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایک لاکھ نیورولوجسٹ بھی ہوجائیں تو اُس سے کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ وہ تو بیماری کا علاج کریں گے، جبکہ آگہی اس بات کے لیے ہونی چاہیے کہ لوگ بیمار ہی نہ ہوں۔ جب تک عوام خود اپنی صحت و زندگی کو اہمیت نہ دیں، ان چیزوں سے پرہیز نہ کریں جو بیماریوں کی جانب لے جاتی ہیں تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ یہ کام مستقل بنیادوں پر مشترکہ کوشش سے ہی ہوسکے گا۔ میڈیا کے کردار سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جیو سے وابستہ سینئر صحافی سید عامر اشرف نے کہا کہ میڈیا نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کرنے کے ساتھ دماغی امراض کو جنم دینے کا بھی کام کیا ہے۔ میڈیا لوگوں کے ادراک (Perception) پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ میڈیا سے نکلنے والا ہر پیغام ایک گولی کی مانند اپنے ناظرین کو لگتا ہے اور اثر کرتا ہے جو انسانی طرزعمل، رویّے اور عقائد کو تبدیل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔اب بچے کی گود ماں کی جگہ میڈیا لے چکا ہے اور یہی بزرگ کا کردار بھی ادا کررہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کے مواد پر کی جانے والی تحقیق بتاتی ہے کہ صحت مند زندگی کے لیے آگہی فراہم کرنے کا معاملہ تشویش ناک ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مخصوص بیماریاں سنسنی خیزی کے عنوان سے خبر بنتی ہیں تو ایسی خبروں کو جگہ ملتی ہے، مگر عمومی کیفیت اچھی نہیں۔ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ ہمارا میڈیا اپنی پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کی ذمے داری پوری کررہا ہے؟ کیا انسانی ترقی کے موضوعات اس کے ایجنڈے کا حصہ ہیں؟کیا اس کے مندرجات حقیقی عوامی ضروریات اور مسائل سے ہم آہنگ ہیں؟ تو ہمارا جواب نفی میں ہوگا۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ملکی و غیر ملکی ڈرامے نشر ہورہے ہیں، مگر ڈراموں میں آپ کو مثبت، تعمیری یا صحت سے متعلق آگاہی کا کوئی موضوع نہیں ملے گا۔ فیملی جھگڑے اور سازشیں دکھا دکھا کر دماغ پر منفی اثرات ہی مرتب کیے جا رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے صحت سے متعلق آگہی پروگرام باہم اشتراک سے اچھے انداز سے مرتب کرکے چلائے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد لطیف نے اپنی گفتگو اور شرکاء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دماغی امراض اور ذہنی امراض دو الگ چیزیں ہیں۔ ذہنی امراض رویّے کی صورت میں سامنے آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں جناح اسپتال میں وارڈ20 کے سامنے جو بورڈ لگا ہے اُس پر ’’شعبہ نفسیاتی طب و رویہ جات‘‘ لکھا گیا ہے۔ دماغی امراض میں علامات کا معاملہ کسی جسمانی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جبکہ ذہنی امراض میں معاملہ رویوں کی تبدیلی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح اس لیے زیادہ ہے کہ مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ 20 تا30 فیصد لوگوں کے ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس میں دو قسم کے کیسز ہوتے ہیں، ایک میجر اور دوسرے مائنر۔ مائنر والے امراض جلد تشخیص کی صورت میں قابلِ علاج ہیں۔ ان کا علاج صرف دوائی، گولی کی صورت میں نہیں ہوتا، اس کے لیے کونسلنگ علاج کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ذہنی امراض کے رجسٹرڈ 700 سائکاٹرسٹ بتائے جاتے ہیں۔ سائیکاٹرسٹ اس ملک میں کم ہیں۔ آگہی کا معاملہ اس تناظر میں یوں ضروری ہے کہ لوگ عموماً ذہنی مریض کہلوانا پسند نہیں کرتے اور فوراً اس کو پاگل، یا دماغ خراب ہونے سے تشبیہ دے دیتے ہیں، جو کہ معاشرے میں استعارہ بن چکا ہے اور لوگوں کو علاج سے دور کرتا ہے۔
میڈیا، صحت اور آگہی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جوائنٹ سیکریٹری کراچی پریس کلب نعمت خان نے کہا کہ ’’میڈیا کے ایک کارکن کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ ہماری رپورٹنگ صحافتی اقدار و اخلاقیات سے دور ہے۔ مجھے افغانستان، فلپائن اور امریکہ جانے اور وہاں کی رپورٹنگ کا تجزیہ کرنے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے رپورٹنگ میں ’اسٹریس‘کا دوسرا نام ہے۔ ہماری زندگی، بھاگ دوڑ سب کچھ اسٹریس پر مبنی ہوتی ہے۔ مستقل ڈیڈلائن کو پورا کرنے کا دباؤ، مستقل اسکرین سے چمٹے رہنے، پھر خبر کو ایجاد کرنے اور اس طرح سے کہ وہ ناظرین پر اثر کرسکے، یعنی اس میں چاٹ مسالہ لگانا، یہ سب ہم پر بھی اثرانداز ہوتا ہے اور ناظرین کے ذہن و دماغ پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔ مجھے کوئی ملتا ہے جو کہتا ہے کہ ذہنی طور پر پریشان ہوں تو میں کہتا ہوں کہ بھائی کچھ عرصہ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں۔ ٹی وی رپورٹنگ میں اتنی سنسنی خیزی ہے کہ ہم لوگوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر بہت زیادہ ہی اپ ڈیٹ رہنے کا شوق ہے تو ریٹنگ میں سب سے کم جو چینل ہو آپ اُس سے معلومات لے لیا کریں، ورنہ نمبر ون کی دوڑ میں جائیں گے تو ایسی صورت میں ذہنی امراض ہی بڑھیں گے۔ جیو ٹی وی پر ایک پروگرام ماضی میں چلتا تھا ’جان ہے تو جہان ہے‘، جس میں صحت سے متعلق آگہی کے حوالے سے بہت کارآمد چیزیں ہوتی تھیں، لیکن خسارے میں چلنے کی وجہ سے اُسے بھی بند کرنا پڑا۔
پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود نے کہا کہ کراچی میں این جی اوز نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اسی جناح اسپتال میں ہم ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹروک سینٹر بنانے جارہے ہیں، پہلے مرحلے پر نیورولوجی اور سائیکاٹری کی نئی بلڈنگ اور وارڈ بنائیں گے۔ ہم نے جس کام کا ارادہ کیا اللہ نے راستے کھول دیے۔ یہاں مرگی کے پندرہ ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت دنیا میں مرگی کا سائبر نائف سے علاج کررہے ہیں۔ پاکستان میں اس کے سرجری کیسز نہیں ہوتے، ڈاکٹر بھی بھاگتے ہیں، مریض بھی ڈرتا ہے۔ یہاں کچھ ماہ میں ایک اور سائبر نائف لگنے والا ہے۔ یہاں تجربہ کار سرجن نہیں ہے، ہمیں جاپان میں ایک ڈاکٹر ملا ہے، وہ تیار ہے، اُسے ہم لا سکتے ہیں۔ اسی طرح جناح اسپتال میں 350 میں سے صرف دماغ کے221 اسکین ہوتے ہیں۔ ماں کی گوداور اسکول سے صحیح تربیت نہیں ہوگی تو معاشرہ نہیں سدھرے گا۔ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہمارے معاشرے کو آج سے تیس چالیس سال قبل کے والدین جیسی تربیت چاہیے۔ میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر پوری ایمان داری کے ساتھ علاج کرے، مریض کو مناسب وقت اور رہنمائی دے تو یقینا آگہی کے عمل میں فرق پڑے گا۔ جہاں تک پراجیکٹس کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ تو ہم اپنی زکوٰۃ سے بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ نیک نیتی کی وجہ سے اللہ کی اتنی مدد آتی ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ ہم جو پراجیکٹ سوچتے ہیں، کام ہوجاتا ہے۔
ماہر امراضِ دماغ ومرگی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہاکہ ذہنی، دماغی امراض میں طویل عرصہ ادویہ کا استعمال جاری رہتا ہے۔ سب ادویہ مہنگی ہوتی ہیں اور اچانک مارکیٹ سے غائب بھی ہوجاتی ہیں۔ مرگی کی ایک اچھی دوائی پچھلے سال اچانک غائب ہوگئی، جس کے نتیجے میں اچھے خاصے مریض دوبارہ دوروں کا شکار ہوگئے… ڈاکٹر، مریض، گھر والے سب پریشان ہوگئے۔ حکومت سے بات کریں تو اُس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ کچھ ادویہ انتہائی سستی ہیں، کوئی کمپنی لانے کو اس لیے تیار نہیں کہ نفع کم ہے۔ ہم نے ہر فورم پر بات کی ہے لیکن حکومت اب تک اس پر سنجیدہ نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امراض قابلِ علاج ہیں، ادویہ سے بہت نمایاں تبدیلی آتی ہے، لیکن اگر چند روپے کے منافع کی خاطر ادویہ کو مارکیٹ سے ہی غائب کردیا جائے تو یہ شدید افسوس ناک بات ہے۔ سب کو مل کر احتیاط پر کام کرنا چاہیے۔ اویرنس کے ساتھ احتیاط بھی بتائیں۔ دنیا میں اس وقت مرگی کے پچاس ملین مریض شمار کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں بیس سے تیس لاکھ مریضوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دوائی سے مرگی 70 فیصد کنٹرول ہوجاتی ہے۔30فیصد کے لیے سرجری ناگزیر ہوتی ہے۔ کئی قسم کی مرگی ہوتی ہے… ایک وہ جو قابلِ علاج ہے، دوسری وہ جو دوائی سے قابو میں آجاتی ہے، اور تیسری قابو میں نہیں آتی۔ اس سلسلے میں نارف نے ایپی لیپسی کی جو گائیڈ لائنز بنائی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ہر جنرل فزیشن بھی اس کے مریض کو ٹریٹ کرسکتا ہے۔