ابو محمد بن یحییٰ ابن الصائغ

رفیق انجم۔ ابراہیم عمادی
ابن باجہ کا پورا نام ابوبکر محمد بن یحییٰ ابن الصائغ ہے۔ مغربی کتابوں میں اس کا نام Avempace یا Avenpace آتا ہے۔ یہ گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں اسپین کے شہر سرقطہ (Saragossa) میں پیدا ہوا، اور اس کا انتقال 1138ء میں مراکش کے شہر فاس میں ہوا۔ ابن باجہ کی شہرت ایک فلسفی کی حیثیت سے ہے لیکن وہ فلسفیانہ گتھیوں کو سلجھانے کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔
ابن باجہ وہ مسلمان فلسفی ہے جس نے عربی زبان میں لکھا۔ سرقطہ اور فاس کے علاوہ اس نے اشبیلہ اور غرناطہ میں بھی کام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بربر گورنر ابوبکر بن ابراہیم الصحراوی کا وزیر رہا۔ اُس وقت ابن باجہ بالکل نوجوان تھا۔ اتنی کم عمری میں اتنے عروج کی وجہ سے اس کے کئی حاسد پیدا ہوگئے۔ اس پر مختلف حلقوں سے غداری اور الحاد کے الزامات لگتے رہے اور اسے کچھ عرصے کے لیے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ بالآخر اس کے حاسد اپنی چالوں میں کامیاب ہوگئے اور اسے زہر دے کر ہلاک کردیا گیا۔
ابن باجہ کو اسپین میں ارسطو کے فلسفہ پر قدیم ترین عربی سند مانا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔ اس سے زیادہ اہم بیان ابن باجہ کے ایک دوست اور اس کی کتاب کے مدیر غرناطہ کے ابوالحسن علی بن عبدالعزیز بن الدمام کا ہے، وہ اس کی نمایاں خصوصیات بیان کرتا ہے کہ علوم فلسفہ کے مطالعے کے لیے اسپین میں ایک باقاعدہ نظام قائم کرنے میں ابن باجہ کا ہاتھ تھا۔ یہ نظام اسلامی دنیا کے مشرقی حصوں میں تو پہلے سے قائم تھا، لیکن بعید مغربی گوشے میں ابھی یہ ناپید تھا۔
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ فلسفہ کا نصاب تعلیم وضع کرنے میں ابن باجہ نے مشرقی فلاسفہ کی طرح ارسطو کی تصانیف کے مجموعہ کو اہمیت دی۔ اس نے اپنا طریق کار الفارابی کے طریق کار کے مطابق وضع کیا، حالانکہ ان دونوں میں بڑا نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس وقت مشرقی ممالک کے علمی مراکز میں ابن سینا کا اثر نہایت نمایاں تھا، لیکن ابن باجہ نے اس کے طریق کار کو نہیں اپنایا۔ اس اعتبار سے وہ اسپین میں فلسفہ ارسطو کی اس نہج کو رائج کرنے کا ذمہ دار ہے، جس کے نمائندہ فلسفی بعد میں ابن رشد (Averroes) اور Moses Maimondes ہوئے۔
ابن باجہ کی دستیاب تصانیف حسب ذیل ہیں:
1۔ تدبیر المتوحد: اس کتاب میں انسانوں کی مختلف قسموں کا بیان ہے۔ مثلاً بعض انسان صرف اپنے جسمانی وظائف سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض اپنے منتہائے مقصود ’عقلیت کے کمال‘ کے بارے میں صرف اپنی قوتِ مخیلہ کو رہنما بنا لیتے ہیں، اور بعض عقل پر انحصار کرتے ہیں۔ ان سب اقسام کے لوگوں کے طرز زندگی الگ الگ ہیں۔ ایک فلسفی کو ناقص معاشرے میں رہنا ہو تو اسے اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے (یہاں مصنف کا اشارہ اپنے عہد کے مسلمانوں کی طرف ہے) چونکہ کامل فلسفیانہ ریاست کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں، اس لیے ایک فلسفی کو اپنے معاشرے کے اندر ایک اجنبی بن کر رہنا چاہیے۔ وہ اپنے آپ کو اس مثالی ریاست کا باشندہ سمجھے جس کے ارکان چند خوش بخت انسان ہوتے ہیں۔ جو خواہ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں اور ان کا تعلق ماضی سے ہو یا حال سے، وہ کمال عقل سے بہرہ مند ہوتے ہیں (یہ وہی تصور ہے، جس کا آغاز افلاطون سے ہوا تھا)۔ اس کتاب کو ہسپانوی مستشرق آسین پاچیوس نے طبع کرایا۔ اس کا متن بوڈلین کے قلمی نسخے کی مدد سے تیار کیا گیا۔
2۔ رسالتہ الاتصال العقل بالانسان: یہ رسالہ عقل فعل (Intellect Active) کی بابت ہے۔
3۔ رسالتہ الوداع: اس کا لفظی معنی ہے وداعی مکتوب۔ اس میں بعض موضوعات وہی ہیں جو ’’تدبیر المتوحد‘‘ میں زیر بحث آئے ہیں۔ اسے آسین پالچیوس نے ترتیب دیا تھا۔
4۔ کتاب النفس: روح کے موضوع پر ایک کتاب۔
5۔ مجموعہ مقالاتِ ارسطو میں شامل بعض تصانیف یا ان کے مباحث پر حواشی یا ان کی شرح: اس میں ارسطو کی منطق (organon)، طبیعیات، Degeneration Corruptione، ET Meteorologica اور کتاب الحیوانات شامل ہیں۔ ’’کتاب نباتات‘‘ بھی اس میں آجاتی ہے۔
ابوجعفر یوسف بن حسدائی کے نام ایک خط میں ابن باجہ نے اپنی فکری سوانح حیات کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ پہلے اس نے موسیقی کا فن سیکھا، اس کے بعد فلکیات پڑھی، اس کے بعد اس نے ارسطو کی طبیعیات کا مطالعہ شروع کیا۔ فلکیات میں ابن باجہ نے افلاک تدویر (Epicycles) کے نظریے کو ارسطو کے طبعی نظریے کے منافی قرار دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن باجہ بطلیموس کے نظام کو رد کرنے اور اس کی جگہ نیا نظام بیان کرنے کے اس رجحان کا آغاز کرنے والا ہے، جو اس کے زمانے کے بعد ہسپانوی مسلمانوں میں نہایت نمایاں طور پر نظر آنے لگا۔
ابن باجہ کی حرکیات ارسطو کی طبیعیات کی کتاب ہفتم پر حاشیہ میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں اُس نے یہ کوشش کی ہے کہ مختلف علتوں (Causes) کے تصور کو قوت کے تصور سے بدل کر ارسطو کی حرکت کی تھیوری کو یکجا کردیا جائے۔ ابن باجہ نے اس کے لیے جو عربی اصطلاح وضع کی ہے، وہ یونانی لفظ Dynamic کا ترجمہ ہی ہے، البتہ سیاق وسباق میں اس کا مفہوم ایک فعال مفہوم کا حامل ہے۔ اس مفہوم میں یہ اصطلاح ارسطو کی کتاب ہفتم کے بعض اقتباسات میں، مشرک نو افلاطونی فلاسفہ کی بعض تحریروں میں اور جان فلو پونس (Philoponus) کے ہاں ملتی ہے۔ اس کے معنی ’’صلاحیت‘‘ کے نہیں ہیں۔ ابن باجہ کے تصورِ قوت کو یکجا کرنے کے وظیفہ کی جماعت بندی ہم تکان یا کسل (Fatigue) کے تصور کی رو سے کرسکتے ہیں۔ (کسل کی اصطلاح اس سے ملتے جلتے سیاق وسباق میں افروڈیسیس (Aphrodisias) کے الیگزنڈر اور ان فلوپنس نے استعمال کی ہے)۔ یہ تصور ابن باجہ کے نظریے میں شامل ہے۔ ابن باجہ کے نزدیک ایک محرک (Mover) کی قوت کسل کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب (1) وہ کسی جسم کو متحرک کرنے کے لیے استعمال ہو، اور (2) متحرک کیا جانے والا جسم ردعمل پیدا کرے، جب وہ جسم محرک سے علیحدہ ہو۔ ابن باجہ کا بیان کردہ پہلا سبب کچھ ابہام پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ سادہ اجسام کی فطری حرکت کسل پیدا نہیں کرتی اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی حرکت میں محرک اور متحرک جسم کے درمیان کوئی مخالف نہیں ہوتی۔ اس سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ سببِ اول صرف اسی صورت میں کسل پیدا کرسکتا ہے، جب اس کے ہمراہ سببِ ثانی بھی ہو۔ سببِ ثانی کے کسل پیدا کرنے کا باعث یہ ہے کہ متحرک جسم محرک کے اندر جواباً حرکت پیدا کردیتا ہے۔ یہ کسل حرکت کی مقدار کے مطابق کم وبیش ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس صورت میں عمل اور ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ دونوں اصلاً مساوی ہوتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو ارسطو کی کتاب ہفتم کے نظریات کا ایک ارتقا کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کے دوسرے متون سے اس کی مطابقت نہیں ہے۔ ارسطو کے یہ متون محرک اور متحرک کے ربط کو علت و معلول کا ربط قرار دیتے ہیں۔ مشبائین کا فلسفہ اس ربط کو صحیح تسلیم نہیں کرتا اور اس میں اس کی پیمائش تو بالکل ممکن ہی نہیں ہے۔ ابن باجہ نے جو ربط بیان کیا ہے، اس میں عمل اور ردعمل کی مقدار کی پیمائش میں کوئی نظری اشکال نہیں ہے۔
ابن باجہ کے نقطۂ نظر کو فارمولا M=F+F2 کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے، جس میں M سے مراد حرکت ہے، F محرک کی قوت ہے اور F2 متحرک جسم کی قوت ہے۔ یہ فارمولا صرف اسی وقت کے لیے معقول ہے، جب ایک جسم حرکت میں آتا ہے۔ اس فارمولے میں کسل کا اعتبار نہیں کیا گیا، حالانکہ محرک کی قوت میں یہ بتدریج کمی کرتی رہے گی اور اس کی مقدار مدتِ حرکت کے راست تناسب ہوگی، اگرچہ ابن باجہ نے اس پہلو کو الفاظ میں ظاہر نہیں کیا۔
(کتاب ’’100عظیم مسلم سائنس دان‘‘ سے انتخاب)