دردِ کمر اور جوڑوں کا درد،اسباب و علاج

آج کل دافع درد ادویہ کی بہتات ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ زمانۂ ماضی میں دردکی کیفیت میں بیماروں پر کیا گزرتی ہوگی۔
گزشتہ برسوں میں ہماری اس معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ درد کیوں ہوتا ہے۔ اس طرح ان دو کیمیائی طریقوں کا علم ہوا جن کی وساطت سے درد سے نہ صرف تحفظ حاصل ہوتا ہے بلکہ افاقہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات ہمیں عرصۂ دراز سے معلوم ہے کہ ہماری جلد اور اندرونی اعضائے جسم میں درد کو محسوس کرنے والے نہایت چھوٹے چھوٹے کروڑوں خوردبینی مقامات ہیں، یہ دراصل پہلی دفاعی صف کا کام دیتے ہیں، اور اس قدر حساس ہیں کہ کسی بھی ضرر رساں محرک سے بیدار ہوجاتے ہیں۔ جب کسی چوٹ، خلش، یا تحریک سے ان میں بیداری آتی ہے تو یہ اعصاب کے راستے مغز تک اشارات کی ترسیل کرتے ہیں، مغز میں ان اشارات کے مفہوم کی تعبیر و تصریح ہوتی ہے، اور اس کی حیثیت درد کی شکل میں متعین کی جاتی ہے۔
ماہرینِ طب نے یہ بھی دریافت کرلیا ہے کہ جب ان حساس مقامات پر تحریک ہوتی ہے، اور یہ بیدار ہوتے ہیں تو یہاں سے ایک کیمیائی مواد ’’پ‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیمیائی مواد جوئے خون میں داخل ہوکر تمام جسم میں گردش کرتا ہے۔ جب یہ کیمیائی مواد دماغ میں پہنچتا ہے تو جسم میں درد کے احساس کو تیز تر کردیتا ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تکلیف کی کمتر سطح پر بھی درد محسوس ہونے لگتا ہے۔اس طرح معمولی درد بھی شدید محسوس ہوتا ہے۔ اب بعض ماہرینِ طب کا یہ خیال ہے کہ چند قسم کے درد زیادہ شدید صرف اس لیے محسوس ہوتے ہیں کہ ان مواد کی کیمیائی تاثیر سے درد کا احساس بڑھ جاتا ہے، اس طرح کے درد میں جوڑوں کا درد، آدھے سیسی کا درد یا دردِ شقیقہ جو جانبِ سر میں ہوتا ہے، مشہور ہیں۔
اب ان کیمیائی مواد کی مکمل طور پر دریافت اور شناخت کے لیے ان کو’’اینڈورفین‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ مشہور چینی طریقۂ علاج ’’ایکو پنکچر‘‘ سے رفعِ درد اس لیے ہوتا ہے کہ اس طریقے سے دماغ کے اپنے مندرجہ بالا دافع درد نظام کو تحریک و تقویت ملتی ہے اور اندرونی طور پر پیدا ہونے والے دافع درد کیمیائی مواد، دماغ کے حساس مقامات پر جذب ہوکر ان کو کند کردیتے ہیں اور اس طرح رفع درد کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کا درد ایسی گولیوں سے بھی رفع ہوجاتا ہے جن میں درد رفع کرنے کا اثر یا کسی بھی قسم کی دوائی تاثیر نہیں ہوتی، لیکن بیمار کو یہ یقین ہو کہ یہ شے اس کے لیے خاکِ شفا ہے۔ غالباً یہ شفا دینے والا اثر بھی اس لیے ہے کہ یقین کی قوت سے اندرونی دافع درد نظام کو تحریک ملتی ہے اور یہ درد زائل ہوجاتا ہے۔ بعض روحانی عاملوں کے عمل کی بھی غالباً یہی تاثیر ہے کہ معمول کو یہ یقینِ واثق ہوجائے کہ وہ ٹھیک ہوجائے گا تو وہ بسا اوقات ٹھیک ہوجاتا ہے، کہ عقیدے کی قوت اندرونی طور پر اس نظام کو متحرک کردیتی ہے۔ جن لوگوں کو درد ہوتا ہے ان میں تین میں سے ایک درد، اس طرح بغیر دوا ٹھیک ہوجاتا ہے۔
جوڑوں میں درد یا وجع مفاصل اور سوزشِ مفاصل کو لاعلمی سے مرضِ واحد سمجھا جاتا ہے، حالانکہ درد تو صرف تکلیف کا اظہار ہے اور جسم کے جوڑوں کو ضرر اور صدمہ مختلف وجوہات سے پہنچ سکتا ہے۔ یہ چوٹ سے متورم ہوکر بھی پُردرد ہوجاتے ہیں۔ تپ دق کے جراثیم بھی حملہ آور ہوکر سوزش کا باعث بن کر جوڑوں کو درد میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک طویل فہرست ان اسباب کی بن سکتی ہے جن کی وجہ سے جوڑوں میں درد ہوسکتا ہے، لیکن چند وجوہات ایسی ہیں جن کے بیمار کثرت سے دیکھنے میں آتے ہیں۔ جوڑوں میں صرف درد ہی نہیں بلکہ جوڑوں کے اندرسخت سوزش بھی ہوتی ہے، اور سوزش عبارت ہے درد، سرخی، حدت اور سوجن سے، جس طرح آنکھ دُکھنے آجائے یا گلے سوج جائیں۔
جوڑوں کے امراض میں سب سے اول تو گٹھیا ہے جو لڑکپن کا مرض ہے اور پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہوتا ہے۔ جوڑوں میں تکلیف سے قبل ان بچوں کو سوزشِ حلق اکثر ہوتی رہی ہے، یہ مرض اکثر اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں عسرت، ٹھنڈک، تنگ رہائشی جگہ اور اس کے نتیجے میں عام تندرستی کا معیار کمزور ہو۔ جوڑوں کی ان تکالیف میں خاص بات یہ ہے کہ یہ جوڑ یکے بعد دیگرے متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس مرض سے اصل زد دل کے اُن اندرونی دریچوں پر پڑتی ہے جو دل کے مختلف خانوں کے درمیان نصب ہیں، لیکن دل کے متاثر ہونے کا شعور غیر مستند معالجین کو نہیں ہوتا، اور یہ صورت حال آئندہ کے لیے سخت عارضہ قلب کا باعث ہوسکتی ہے۔
دوسرا مرض گٹھیا نما ہے۔ یہ مرض جوانی کا ہے۔ اس مرض میں خاندانی رجحان بھی زیادہ ہے۔ خواتین اکثر اس میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اس مرض کی زد اکثر ہاتھ پائوں کے چھوٹے جوڑوں پر پڑتی ہے جس سے پورے متورم اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ تکلیف میں شدت صبح کے وقت زیادہ ہوتی ہے، صبح صبح ان جوڑوں میں اس قدر سختی ہوتی ہے کہ جنبش کرنا بھی محال ہوتا ہے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے، تکلیف کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ مرض ایک لحاظ سے دائمی ہے کہ کچھ نہ کچھ تکلیف رہتی ہے۔ اس کے علاج میں دافع درد و سوزش ادویہ کے علاوہ مشق و ورزش بھی شریکِ علاج ہیں کہ ان کے بغیر علاج نامکمل ہے۔ علاج بہت عرصے تک بلکہ بعض دفعہ تمام عمر جاری رہتا ہے اور اس طرح سے زندگی گزارے کے قابل ہوجاتی ہے۔
تیسرا مرض نقرس ہے جو وسط عمر ہوتا ہے۔ یہ اکثر مردوں میں اور نسلی اعتبار سے یہودیوں میں عام ہے۔ اس کے متاثرہ لوگ ذہین، عیش پسند اور اچھی غذا کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس تکلیف میں خون اور جوڑوں میں یورک تیزاب کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ پائوں کا انگوٹھا اکثر اس کی زد میں ہوتا ہے۔ عموماً صبح کاذب کے وقت تکلیف اپنی انتہا پر ہوتی ہے کہ ہوا کی سرسراہت اور چادر کا لمس بھی باعثِ درد بن جاتا ہے۔ اس کے علاج میں دوا، غذا اور وزن میں کمی ضروری ہے۔ غذا سادہ ہو جس میں سرخ گوشت اور عضوی گوشت کم ہو۔
جوڑوں کا آخری مرض انحطاط مفاصل ہے جو دراصل وسط عمر کے بعد زمانۂ پیری کا مرض ہے۔ جسم کے اکثر جوڑ خصوصاً بار بردار جوڑ مثلاً گھٹنا اور کولہا وغیرہ کثرتِ استعمال سے ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں مائوف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کا مرض اُن کھلاڑیوں میں بھی ہوجاتا ہے کہ جو کھیل کے دوران شکست و ریخت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی طرح اکثر بوڑھی عورتوں کی انگلیوں کے آخری پورے اس سے متاثر ہوکر شکل تبدیل کرلیتے ہیں۔ ان جوڑوں میں تکلیف صبح اٹھتے وقت اس قدر نہیں ہوتی بلکہ کچھ کام کرنے کے بعد ہوتی ہے۔ جب انگلیوں کے جوڑ متاثر ہوتے ہیں تو ان کے جوڑ کی جانب چھوٹی سی گومڑی بن جاتی ہے۔ دراصل یہ مرض عمر کا تقاضا ہے۔ اس مرض میں ادویہ کم سے کم لی جائیں، زیادہ وزن کم کیا جائے، اور کوشش کرکے اپنے آپ کو متحرک رکھا جائے کہ حرکت میں برکت ہے۔
دردِ سر زیادہ تکلیف دہ ہے یا دردِ جگر، اس میں شاعرانہ اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن جو بات اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ دردِ سر کے بعد دردِ کمر درد کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ امریکہ میں ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ افراد دردِکمر کے سبب معالجوںکے پاس جاتے ہیں، اور یہ صرف امریکہ ہی تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ دردِ کمر سے شاکی نظر آتے ہیں۔ جب کمر میں چک آجائے تو آدمی سخت لاچار ہوجاتا ہے۔ جس طرح کسی اور جگہ موچ آجائے تو جھنجھلاہٹ اور بے بسی طاری ہوتی ہے، اسی طرح اس میں بھی ہوتی ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ چک آنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ بھاری الماری یا سوٹ کیس کو سرکائیں یا گاڑی کو دھکا دیں، بلکہ بعض دفعہ تو انتہائی معمولی باتوں سے یہ تکلیف ہوسکتی ہے، مثلاً کھانسنے سے، جھکنے سے، جھک کر جوتے کے تسمے باندھنے سے… اور اس کے بعد طبیعت پر سخت لاچاری اور بیزاری طاری ہوجاتی ہے۔
کمر کے زیریں حصے میں درد نہایت عام عارضہ ہے جو اکثر لوگوں میں واقع ہوتا ہے تو ان کو مجبور اور لاچار کردیتا ہے۔ اس قسم کے دردِ کمر ہمارے کارکن لوگوں میں کام نہ کرسکنے اور معذوری کی سب سے عام وجہ ہے۔ زیریں حصۂ کمر میں درد کی وجوہ متعدد اور مختلف ہیں۔ سب سے اول وجہ تو وہ مقامی نقص ہے جو عمارتِ کمر کے کسی مقام پر کسی سبب سے واقع ہوجائے مثلاً ریڑھ کی ہڈی کے دو مہروں کی درمیانی قرص(پلیٹ) اپنی جگہ سے سرک جائے، (یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہماری ہڈی کے متعدد مہروں سے بنی ہوئی اور ہر دو مہروںکے درمیان ایک قرص ہوتی ہے جس سے اس کمر کے ستون میں لچک آجاتی ہے) یا مہروں میں خود شکست و ریخت ہورہی ہو، جو عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ اکثر ہوتی ہے، یا یہاںکی کسی ہڈی میں شگاف پیدا ہوجائے، جیسے بعض اوقات غلط طرح بوجھ اٹھانے یا مڑنے پر ہوجاتی ہے۔
کمر کا درد عام ہوتا جارہا ہے۔ ہر گھر کا کم از کم ایک فرد تو اس کا شکار نظرآتا ہے۔ زیادہ تر خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ جسمانی کمزوری، بار بار حمل ہونا، جھک کے بیٹھے رہنا، جھک کر جھاڑو صفائی کرنا، غلط اندازے سے بھاری وزن اٹھانا وغیرہ۔ اسی وجہ سے کمر درد خواتین میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مردوں میں اس کی شکایت زیادہ تر ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں ہوتی ہے، لیکن تمام عمر کی خواتین اس درد کا شکار ہوسکتی ہیں چاہے وہ جوان ہوں، ادھیڑ عمر ہوں یا بوڑھی۔
گٹھیا نما یا اس سے ملتی جلتی تکلیف بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، جو عموماً نوجوانوں میں ہوتی ہے، اور اس کی آمد آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔ اس قسم کی تکالیف عموماً سحر خیزی پر ہوتی ہیں کہ اس وقت کمر تختہ کی طرح سخت ہوجاتی ہے اور جنبش نہیں کرسکتی، لیکن جیسے جیسے دن چڑھتا ہے اور جسمانی حرکت میں اضافہ ہوتا ہے اس درد میں تخفیف ہوتی جاتی ہے۔ جو اندرونی خرابیاں ہیں وہاں سے درد کی لہر اٹھ کر کمر میں درد پیدا کرتی ہے اور مریض یہ سمجھتا ہے کہ اصل خرابی کمر کی ہے اور اندرونی خلل کی طرف دھیان نہیں جاتا۔
دردِ کمر کی دیگر وجوہ جو اس قدر عام نہیں مثلاً سوزشِ لبلبہ، ذیابیطس، ہڈیوں کے ایسے مرض جن میں ہڈیاں نرم اور کمزور ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ہڈیوں کے گودے کے امراض اور خون کے امراض بھی باعثِ درد ہوسکتے ہیں۔اکثر اوقات ایکس شعاعی معائنے سے اس درد کے اسباب کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دردِ کمر کی تفتیش کے لیے لندن کے ایک شفاخانے میں جس قدر ایکس شعاعی معائنے کیے گئے ان کی اکثریت مرض کی تشخیص میں کوئی مدد نہیں کرسکی، حالانکہ مریضوں اور معالجین کی اکثریت اس طرح کی تفتیش کی نہایت شوقین ہے۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دردِ کمر پریشانی کی وجہ سے نہیں ہوسکتا۔
کمر کے درد کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں
٭جوڑوں کی تکلیف ہو تو مریض کو کمر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے۔
٭ شدید قبض کی وجہ سے بھی کمر میں درد رہتا ہے۔
٭حمل، رسولی اور خواتین کے خاص امراض میں بھی کمر درد ہوتا ہے۔
٭وزن کی کمی، شکم میں درد، کیلشیم اور خون کی کمی اور بھوک نہ لگنے سے کمر درد ہو سکتا ہے۔
٭گھٹنوں یا کمر کے سہارے کے بغیر بیٹھنا، آگے کو جھک کر بیٹھنا، اونچی ایڑی والے جوتے استعمال کرنا، بھاری وزن اٹھانا خاص طور پر ایک ہاتھ سے وزن اٹھانا، غلط طریقے سے ورزش کرنا، ڈھیلی چارپائی یا خراب فوم کے گدوں پر سونا… ان اسباب سے بھی کمر درد ہوتا ہے۔
اگر دردِ کمر ہے تو اس کے ازالے کے لیے تخت، فرش یا زمین پر سونے کے علاوہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، خصوصاً کچھ ورزشیں ایسی ہیں جن پر پابندی سے عمل کرنے پر عضلاتِ کمر مضبوط اور چست ہوجاتے ہیں اور آئندہ کے لیے درد کے جھٹکوں کا سدباب ہوسکتا ہے۔ دردِ کمر کے دوران بھی چند طریقے ایسے ہیں کہ چک آنے پر ان طریقوں پر عمل کرنے سے یہ وقت گوارا بنایا جاسکتا ہے اور وقت گزرتے دیر نہیں معلوم ہوتی، مثلاً
(1) رسّی کے ایک سرے کو قریب کے دروازے کی کنڈی سے باندھ لیں اور دوسرا سرا اپنے قریب رکھ لیں، جب بھی چارپائی سے اٹھنے کا ارادہ کریں جو خاصا تکلیف دہ کام ہے تو رسّی مضبوطی سے کھینچ کر اس کے سہارے اٹھیں۔ یہ جر ثقیل کی طرح آپ کو ایستادہ ہونے میں معاونت کرے گی، اسی کی مدد سے آپ چارپائی پر دراز ہوں۔ اس طرح بغیر دوسروں کا محتاج ہوئے آپ اپنی مدد آپ کرسکیں گے، اور معذوری کا احساس نہیں ہو گا۔
(2) جن لوگوں کو چک ہوتی ہے ان کے لیے سب سے آرام دہ حالت وہ ہے جب وہ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مریض خاتون کھڑے ہوکر باورچی خانے میں اپنا سارا کام سرانجام دے سکتی ہے بشرطیکہ اس کو چیزیں اٹھانے کے لیے جھکنا نہ پڑے۔ اس غرض سے جن اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے، اگر وہ اوپر کی دراز میں رکھی ہوں تو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ گھر کے کسی فرد سے ضرورت کی تمام اشیاء کسی اونچی تپائی یا الماری کی درازوں میں رکھوا لیں۔
(3) اس طرح بڑے چمٹے کی طرح کی نک چوٹی سے وہ چیزیں اٹھائی جاسکتی ہیں جو فرش پر گر جائیں، اور یہ چمٹا ہر کمرے میں ہونا چاہیے۔
(4) ٹیلی فون اور فہرستِ ٹیلی فون کو اوپر کے خانے میں رکھا جائے۔
(5) جب کمر میں چک ہوتی ہے تو بیٹھنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اور اسی طرح اٹھنے میں بھی قباحت گزرتی ہے۔ لیکن جس قدر کرسی اونچی ہوگی، اسی قدر آرام ملے گا۔ اس کرسی میں پہیّے نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر بیمار کے بازو اور کلائیاں مضبوط ہیں تو بازو والی کرسی پر اٹھنے بیٹھنے میں ہاتھ اور کرسی کے بازو معاونت
کرسکتے ہیں اور حرکت سے جو درد ہوتا ہے اس میں کمی ہوجائے گی۔ کسی بھی ایسی آرام کرسی پر نہ بیٹھیں جس کی نشست نیچی اور اندر دھنسنے والی ہو کہ اس پر سے اٹھنے میں سخت تکلیف ہوگی بلکہ اٹھنا محال ہوجائے گا۔
(6)کپڑے ٹانگنے کے ہینگر کے ہک کو موڑ کر لاٹھی سے باندھ لیں کہ چیزیں کھینچے کے کام آسکتا ہے۔
(7) اپنے آپ کو مصروف رکھیں تاکہ بیزاری کے دن گوارا ہوجائیں۔ ایسے سب شغل اختیار کیے جاسکتے ہیں جن میں کھڑا ہونا پڑے اور جھکنا نہ پڑے، مثلاً نقشہ کشی، تصویر بنانا وغیرہ۔ مصروف رہنے سے بیزاری کا احساس بھی کم ہوگا اور اپنے آپ پر رحم و افسوس کا بھی۔
(8) آج کل سخت دردِ کمر کی حالت میں کمر کو سہارا دینے کے لیے مخصوص ’’بیلٹ‘‘ بنائی جاتی ہے جس سے دردِ کمر میں کافی افاقہ ہوجاتا ہے۔