صباگل حسن
والدین اپنے بچوں کی صحت اور تندرستی کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں، اس لیے ایک ماہر غذائیت ہونے کی وجہ سے انہیں میرے پاس لے آتے ہیں۔ معائنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کا غذائی نظام متاثر ہے، کیوں کہ وہ غیر متوازن غذائیں کھاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کو گہری اور پُرسکون نیند بھی نہیں آتی۔
عام طور پر والدین اپنے بچوں کی کارکردگی پر مطمئن ہوتے ہیں اور فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ آج کل کی پڑھائی بہت مشکل ہے اور ہمارے بچے بہت محنت سے پڑھتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی فخر ہوتا ہے کہ ان کے بچوں نے شہر کے سب سے اعلیٰ اور مہنگے اسکول یا کالج میں داخلہ لے رکھا ہے۔ بچوں میں علمی لیاقت پیدا کرنے یا ان کی ذہنی استعداد میں اضافہ کرنے کے بجائے وہ اپنے دوستوں اور ملاقاتیوں پر اپنی برتری جتاتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں پر غیر ضروری ذہنی دبائو ڈال رہے ہیں۔ ان باتوں سے رشتے داروں اور دوستوں کی توقعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کو ہلکان کرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں۔
احمد اکیس سالہ لڑکا ہے۔ وہ بی بی اے کا طالب علم ہے۔ ایک دن وہ اپنے دوست کے ساتھ میرے پاس آیا اور بتایا کہ اسے اختلاج کی شکایت ہے۔ اس نے کہا کہ وہ یکسوئی سے مطالعہ نہیں کرپاتا۔ اسے نیند نہیں آتی اور اس کی بھوک بھی اُڑ چکی ہے۔ اس کے سر میں ہر وقت درد رہتا ہے۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا کہ اگر وہ امتحان میں فیل ہوگیا تو والدین اسے گھر سے نکال دیں گے۔
میں نے اس سے کہا کہ مذکورہ مسائل سے وقتی طور پر بچنے کے لیے اگر وہ خواب آور گولیاں کھاتا ہے تو ان گولیوں کو پھانکنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ اس سے صورتِ حال مزید بگڑ جائے گی۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ وہ ٹیلی وژن کے سامنے کم سے کم بیٹھے، کافی اور کولا مشروبات کم پیے، نیند لانے کے لیے خواب آور گولیاں نہ کھائے بلکہ گرم دودھ میں شہد ملا کر پیے، شام کو پودینے کی چائے پی لیا کرے تو اسے آسانی سے نیند آجایا کرے گی۔
میرے پاس آنے والے دوسرے بچوں کے معاملات بھی اُلجھے ہوئے تھے، مثلاً زاریہ نامی ایک لڑکی، جو قانون کی طالبہ ہے، میرے پاس اس لیے آئی کہ وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتی تھی۔ اس نے بتایا کہ میں فاقے کرتی ہوں مگر اس کے باوجود میرا وزن کم نہیں ہورہا ہے بلکہ سر کے بال گرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا: ’’میں دلکش کیسے ہوسکتی ہوں؟‘‘
میں نے اسے بتایا کہ جب جسم میں پروٹین کی کمی ہوجاتی ہے، تب بال گرنے لگتے ہیں۔ تم پابندی سے ورزش کرو، سبزیاں اور پھل کھائو۔ اگر تمہیں گوشت کھانے کا شوق ہے تو بھاپ میں پکی ہوئی مچھلی کھائو۔ پھر تمہارے بال بھی نہیں گریں گے اور وزن بھی کم ہونے لگے گا۔ پھر تم دلکش لگو گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو یہ بتایا جائے کہ صرف امتحان میں بڑی کامیابی حاصل کرنے سے ہی اچھی صحت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ کامیابی سے حاصل ہونے والی خوشی، اطمینان اور آسودگی کی بنیاد اچھی صحت ہے۔ والدین بھی ہمہ وقت یہ توقع نہ رکھیں کہ ان کے بچے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ان کا سر رشتے داروں اور دوستوں کے سامنے بلند کردیں گے، چاہے اس کے لیے وہ اپنی صحت ہی دائو پر کیوں نہ لگادیں۔