عالمِ اسلام… مشترکہ منصوبہ بندی کی ضرورت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیانات اور اقدامات سے دنیا میں ایک بار پھر ہلچل مچادی ہے جس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی بڑا معرکہ ہونے والا ہے۔ روس سے چپقلش تو جاری تھی، اب چین کے بعد امریکہ کی طرف سے ترکی پر بھی معاشی اور تجارتی حملے شروع کردیے گئے ہیں۔ ایک اور تازہ بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ترکی میں قید پادری کی پُرامن سفارتی ذرائع سے رہائی میں ناکامی سے سخت مایوس ہیں اور انہوں نے ترک حکومت کے خلاف مزید اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان اور ایران بھی امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ وہ ایک الگ کھیل،کھیل رہا ہے۔ گریٹ گیم جاری ہے۔ مغرب اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ عالم اسلام امریکی معاشی و عسکری دہشت گردی کا شکار ہے۔ امریکہ اور مغرب عالم اسلام کے کسی بھی ملک کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں بھی ایردوان کی کامیابی کو دل سے آج تک تسلیم نہیںکیا گیا، یہی وجہ ہے کہ مغربی حکومتوں کی ناپسندیدگی اور مغربی میڈیا کی متعصبانہ پروپیگنڈا مہم اور منظم سازشیں جاری ہیں۔ امریکہ ترکی کو عالم اسلام میں رہبر کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہتا، کیونکہ اُسے یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ اگر عالمِ اسلام کو قیادت میسر آگئی اور بکھری قوتیں منظم ہوگئیں، اور انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرنا سیکھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا کا سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ ترکی ایردوان کی قیادت میں سفارتی اور اقتصادی سطح پر دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات کے ساتھ اسلامی ممالک کو متحد کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے، جس کا اندازہ ماضی میں قطر، مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش کے دوران ترکی کے قائدانہ کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بعد جہاں عالمی سیاست میں ہلچل مچی، وہیں عالم اسلام کے سیاسی منظرنامے میں بھی زبردست تبدیلی دیکھنے کو ملی تھی، اور یہ تبدیلی کسی بڑے پلیٹ فارم میں تبدیل ہوسکتی ہے جس میں دیگر ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ نیک تمنائیں ختم کردی ہیں، پاکستان ان کے لیے بری صورتِ حال میں ہے، امریکی فیصلے ہمارے حق میں نہیں جارہے، کئی برسوں سے ایک ایک بات پر ہمارے اطراف ایک جال بچھایا جارہا ہے جس کے نتائج آگے چل کر بہتر نہیں ہوں گے، ہمیں اپنے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ کار وضع کرنے کی ہمت رکھنی چاہیے، سابقہ حکومتیں چپ بیٹھی رہی ہیں۔ سی پیک بناکر چین کے لیے ایک راستہ کھول دیا گیا جہاں اس کو سانس لینے کا موقع مل گیا ہے، اور یہی امریکہ کو سب سے زیادہ ناگوار گزرا ہے۔ ناراضی کی ایک اور بنیاد یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے دور رکھا جارہا ہے اور گلے میں اس طرح پھندا ڈالا جارہا ہے کہ ہم ان کی ہاں میں ہاں ملا تے رہیں۔ نگراں وزیر دفاع خالد نعیم لودھی کا یوم آزادی کی ایک تقریب میں یہ کہنا درست ہے اور قوم کو یہ بات معلوم تھی، لیکن حکمرانوں کو امریکہ کا کھیل سمجھ میں نہیں آتا، یا سمجھ کر بھی کچھ نہیں سمجھنا چاہتے کہ امریکہ نے ہمیں مغربی بلاک سے باہر دھکیل دیا ہے اور اس نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہیں چلنا۔ ہم نے جلد فیصلہ نہ کیا تو امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کارروائی کرے گا۔ امریکہ پاکستان سے افغان طالبان کو میز پر لانے کی توقع کرتا ہے، دوسری طرف وہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں سبق سکھانے کی تیاری کررہا ہے۔ خطے میں روز بروز کشیدگی بڑھتی جارہی ہے، اس صورت حال میں مستقبل کے عالم اسلام میں پاکستان اور ترکی کا کردار اہم ہوگا۔ اس وقت امریکہ کے خلاف خاص طور پر اس خطے میں پاکستان، چین، روس، ترکی، ایران اور افغانستان کے مابین ایک اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ امریکی عزائم اور ایجنڈے کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنایا جاسکے اور ایک دوسرے کی سلامتی کے تحفظ، قریبی رابطوں کے فروغ اور تعاون کی سازگار فضا میں ہر شعبے بشمول معیشت و دفاع میں تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔ اس نئے اتحاد کی ضرورت کا عندیہ ترک صدر نے بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم تجارتی جنگ کا جواب نئے اتحاد بناکر اور نئی شراکت داریاں قائم کرکے دیں گے۔ صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ ’’ترکی کو ایک ’’معاشی حملے‘‘ اور ایک بڑے اور گہرے آپریشن کا سامنا ہے، لیکن وہ اس کے باوجود امریکہ کو کوئی رعایتیں دینے کو تیار نہیں ہے۔‘‘
صدر ایردوان پہلے ہی روس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی ترکی کے خلاف امریکی سازشوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ تہران واشنگٹن کی جارحانہ پالیسی پر انقرہ کے ساتھ ہے، امریکی پابندیاں بری طرح ناکام ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسلمان ممالک کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے، مگر ایران اور ترکی امریکہ کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا دی اور کہا کہ امریکی دھمکیوں میں آکر خطے میں پالیسیاں تبدیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے جوہری معاملے پر مذاکرات پر بھی ندامت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کو اس بات کی اجازت دینا غلطی تھی، لیکن اب عوام جان لیں کہ نہ تو جنگ ہوگی اور نہ ہم مذاکرات کریں گے۔ واشنگٹن وعدوں اور اپنی بات پر قائم رہنے والا نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کسی کا نہیں ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک امریکہ کی دوستی اور دشمنی دونوں تجربے سے گزر رہے ہیں، پاکستان کو تو اس کا تلخ تجربہ ہے لیکن اس کے حکمرانوں کو احساس نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مغرب کی فریب کاریاں سمجھ کر متحدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ پاکستان کی نئی قیادت خطے اور عالم اسلام کی نئی صف بندی میں ترکی کے ساتھ کھڑے ہوکر واضح لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کرے، کیونکہ مبصرین کے مطابق آنے والے وقت میں اس خطے کے ممالک کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔